• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے سہیل وڑائچ سے اختلاف ہو گیا ہے۔ اختلاف کی وجہ یہ نہیں ہے کہ میں یہ گمان کر بیٹھا ہوں کہ سیاست کے مطالعہ، اردو زبان دانی یا تشبیہات کے استعمال میں، میں ان سے زیادہ درست رائے رکھ سکتا ہوں۔ میں تو ابھی ان کے مقابلے میں طفل مکتب ہوں۔ مگر جب ان کے کالموں پر مشتمل کتاب ’’دی پارٹی از اوور‘‘ دیکھی اور اس کتاب کو صرف ایک کالم کے عنوان سے متعارف کروانے کا تصور سامنے آیا تو مجھے محسوس ہوا کہ انہوں نے اپنے آپ اور اپنے دیگر کالموں سے انصاف نہیں کیا ہے۔ یہ درست ہے کہ انہوں نے 28 جولائی کے فیصلے سے قبل فیصلے سے کیا ہونے والا ہے کو بیان کر کے اپنی معلومات، تجزیہ اور اس کو بیان کرنے کی طاقت کا خوب استعمال کیا تھا۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے اس سے قبل بھی متعدد پیشین گوئیاں کیں جو بعد میں روز روشن کی مانند درست ثابت ہوئیں تو پھر اس کتاب کو اس کالم کے عنوان سے ہی کیوں موسوم کیا حالانکہ اس دوران انہوں نے پہاڑ اور چیونٹی، گاڑی دودھ سے نہیں چلتی اور داراشکوہ کیوں ہار جاتا ہے کی مانند متعدد ایسے کالم تحریر کیے کہ جو بس وہی تحریر کر سکتے تھے۔ اور ان کالموں میں بھی ماضی حال، مستقبل کی ایسی منظر کشی کی کہ گویا تجزیہ نگار کی آنکھوں کے سامنے سب کچھ وقوع پذیر ہو رہا ہے۔ غیب دانی کا دعویٰ تو یقیناً وہ نہیں رکھتے ہوں گے مگر ’’آتے ہیں غیب سے یہ مضٗامیں خیال میں‘‘ کی مانند گل وچوں کجھ ہور اے جو یقیناً وہ اپنے تک ہی محدود رکھنا چاہیں گے۔ اب کوئی بابا ان کو مل گیا ہے یا کچھ اور کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں لکھ رہے ہیں، ہوبہو ویسا ہی وقوع پذیر بھی ہو رہا ہے۔ ویسے ان میں تجزیہ اور بغیر لگی لپٹی کے صرف لکھنے کی ہی نہیں بلکہ سامنے کہنے اور خطرات سے متنبہ کرنے کی صاف عادت ہے۔ میرا ان سے گزشتہ 20 برس سے احترام اور محبت کا رشتہ ہے۔ جب نوابزادہ نصراللہ خان ؒمرحوم سعودی عرب اور انگلینڈ اپنے آخری دورے پر تشریف لے جا رہے تھے تو اس وقت ان کے ہمراہ سہیل وڑائچ کیساتھ میں نے بھی ہونا تھا۔ لیکن کچھ گھریلو وجوہات کے سبب سے میں اس دورے پر نہ جا سکا جس کا مجھے تا عمر افسوس رہیگا۔ اس دورے پر جانے کے بجائے چند دن بعد سعودی عرب روانہ ہوا اور میاں نوازشریف سے ان کی جلا وطنی کے دوران پہلی ملاقات کی۔ محترم سہیل وڑائچ نے مجھے جانے سے قبل کہا کہ ابھی تک آپ پاکستان میں آمریت سے چھٹکارا پانے کی غرض سے متحرک ہیں لیکن میاں نوازشریف سے ملاقات کے بعد آپ کے لئے حالات مشکل ترین اور ڈانگ سوٹا تیار کر لیا جائے گا۔ اس حد تک جانا بالکل درست ہے کہ آمریت کی کوئی گنجائش نہیں لیکن حالات آپ کے لئے بہت کٹھن ہوں گے۔ سوچ سمجھ کر آگے بڑھیں۔ میں نے استفسار کیا کہ کیا ہم آمریت کو شکست نہیں دے پائیں گے اور وہ مسلط رہے گی۔ تو بولے نوازشریف کی اقتدار سے پارٹی ابھی اوور ہوئی ہے لیکن ان کی سیاست آمریت یا سازش سے اوور نہیں ہو سکتی۔ ان کی وہ گفتگو آج بھی یاد کر کے لگتا ہے کہ پارٹی از اوور سے ان کی مراد اقتدار سے صرف بیدخلی ہے جبکہ سیاست کے میدان میں وہ نئے راستے کھلتے دیکھ رہے ہیں۔ بہرحال بعد میں سعودی عرب پہنچا تو جس کسی نے بھی میرا تعارف کروایا تھا اس سب سے جاندار تعارف میاں نوازشریف کو سہیل وڑائچ کروا چکے تھے۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی گفتگو حرف بحرف درست بھی ثابت ہوئی۔ اسی طرح اب بھی انہوں نے پہاڑ اور چیونٹی، دودھ سے گاڑی نہیں چلتی اور دارا شکوہ کیوں ہار جاتا ہے میں بین السطور واضح کیا ہے کہ صرف چیونٹی ہی کو پہاڑ سے خطرہ نہیں ہے بلکہ پہاڑ بھی کھوکھلا ہو جائے گا۔ جو ان بدترین حالات میں بھی چیونٹی کی خواہش نہیں ہے۔ ویسے وہ جس انداز میں سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ عسکری خان کو بھی مشورے دے رہے ہیں تو میں اکثر سوچتا ہوں لیکن کبھی ان کو کہا نہیں کہ ادب آڑے آ جاتا ہے لیکن تحریراً مشورے میں کوئی حرج بھی نہیں کہ سیاستدان تو برداشت کر جاتے ہیں لیکن دوسری پارٹی نہیں۔ بہرحال دعا ہے کہ یہ صرف ایک پر مزاح بات ہی رہے۔ ویسے ابھی ان پر مزید فرض یہ قرض ادا کرنا ہے کہ یہ جو احتساب کے نام پر فیصلے ہو رہے ہیں گو کہ بدعنوانی کوئی ثابت نہیں ہوئی لیکن آپ مجرم ہیں اور جو بدعنوانی ثابت ہی نہیں ہوئی اس کے سہولت کار کے طور پر آپ بھی مجرم اور آپ بھی مجرم، ایسے فیصلوں سے ان کی سیاسی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے کہ معلومات اور تجزیے سے مستفید فرمائیں کہ قوم وقت سے پہلے جان سکیں لیکن ویسے جب میں کراچی کے لیاقت آرائیں جیسے لوگوں کو دیکھتا ہوں جو ان تین لوگوں میں شامل تھے جو 12اکتوبر کے بعد بیگم کلثوم نواز کو ایئر پورٹ پر خوش آمدید کہتے تھے اور اس دفعہ بھی ٹکٹ کے لئے نظر انداز ہونے کے باوجود صرف نوازشریف زندہ باد سے ہی وابستہ ہے۔ جب لاہور کے حافظ رانا عبدالرحیم جیسے افراد سامنے آتے ہیں جو کہہ رہے ہوں کہ کامیابی اس دن ہو گی جب نوازشریف پر ہم کٹ مر جائیں گے۔ تو مجھے نوجوان سیاستدان ڈاکٹر افنان اللہ خان جو کہ کراچی سے قومی اسمبلی کے امیدوار بھی ہیں، کی کتاب"The Pakistan way forward"کا ایک پیرا یاد آتا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہIt is high time that we revert Pakistan to the principles that were laid down by its founding father and set forth the proposal of genuinely striving to achive an economic system. اس جذبے اور معاملہ فہمی کی موجودگی میں سیاست کی پارٹی کے اوور ہونے یا نہ ہونے پر سہیل وڑائچ کیا تحریر کرتے ہیں سب منتظر ہیں۔

تازہ ترین