• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلے عام انتخابات قیام پاکستان کے تیرہ سال بعد1970ء میں ہوئے تھے، پاکستانی قوم کے لیے یہ انتخابات بڑے انوکھے تھے کیونکہ مرکزی یا صوبائی اسمبلیوں کے براہ راست انتخابات اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے، البتہ ایوب خان کے عہد میں بنیادی جمہوریت کے اراکین کا دو مرتبہ چنائو ہو چکا تھا اور ان ہی کے عہد میں قوم نے پہلا صدارتی انتخاب بھی دیکھا تھا، جس میں محترمہ فاطمہ جناح، ایوب خان کے مدمقابل تھیں۔ اس پس منظر میں ہم1970ء کے عام انتخابات میں عوام کے جوش و خروش کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں۔ ان انتخابات کا ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ اس میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں نے عوامی مسائل کو بنیاد بنانے کے بجائے اسے کفر و اسلام کی معرکہ آرائی میں تبدیل کر دیا تھا۔ ایک طرف اسلامی سوشلزم کا نعرہ تھا، تو دوسری طرف ’’اسلام خطرے میں ہے‘‘ کی صدائیں گونج رہی تھیں۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ انتخابی مہم نعروں کی بنیاد پر چلائی جا رہی تھی۔ پیپلزپارٹی کے رہنما ذوالفقار علی بھٹو نے ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کا نعرہ بلند کیا۔ ان کے انتخابی نعرے ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ میں بڑی کشش تھی۔ دوسری جانب تمام مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی اسلام پسند سیاسی جماعتوں کے پاس ایسا کوئی مقبول نعرہ نہیں تھا، جس کی بنیاد پر انتخابی مہم چلائی جا سکتی، لہٰذا انہوں نے نظریہ پاکستان کے تحفظ اور اسلام کی سربلندی کے حوالے سے مذہبی جذبات کو ابھارنے کی کوشش کی۔ 

یہ رجحان ملک میں ہونے والے تمام عام انتخابات خصوصاً1977ء کے انتخابات میں بھی برقرار رہا۔ روایتی طور پر جب کبھی انتخابات ہوئے، انتخابی مہم واضح طور پر دو نظریات میں منقسم نظر آئی، ایک طرف ترقی پسند نظریات رکھنے والی جماعتیں ہوتی ہیں، تو دوسری طرف مذہبی جماعتیں، یہ اور بات کہ مذہبی جماعتیں واضح اکثریت حاصل کرنے میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔

25جولائی کو ایک بار پھر ملک میں عام انتخابات کا انعقاد ہو رہا ہے، لیکن تادم تحریر مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی کے سوا، کسی دوسری سیاسی جماعت نے اپنا انتخابی منشور جاری نہیں کیا، نہ ہی کسی سیاسی جماعت کی جانب سے پرکشش انتخابی نعرے سنائی دے رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پرفریب، دل لبھانے والے انتخابی نعروں کا دور گزر گیا ہے۔ دیکھا جائے تو آج کا ووٹر، نصف صدی قبل کا سیدھا سادہ عام رجحان رکھنے والا ووٹر نہیں ہے، جسے محض چند نعروں سے بہلایا جا سکے، اس کا ادراک خود سیاسی جماعتوں کو بھی ہے، لہٰذا وہ لفظوں کی جنگ میں الجھنے سے زیادہ اپنی کارکردگی اجاگر کرنے کی کوششوں میں ہیں مگر عوام اس کے باوجود مطمئن نظر نہیں آتے۔ 

انتخاب میں حصہ لینے والے کچھ امیدواروں کو اپنے اپنے حلقوں میں جس صورتحال کا سامنا رہا، اخبارات، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے اسے ملک کے طول و عرض میں دیکھا گیا۔ شہری علاقوں میں بلاول بھٹو زرداری اور فاروق ستار اپنے اپنے مضبوط انتخابی گڑھ والے حلقوں میں ووٹرز کے شدید طرزعمل اور تیزوتند سوالات کی زد میں نظر آئے، تو قبائلی یا دیہی علاقوں کے عوام نے بھی اپنے سیاسی شعور کا کھل کر ثبوت دیا۔ ایک قبائلی سردار کو جب اپنے ایک ووٹر کے سوالات کا جواب نہ بن پڑا تو اس کا متکبرانہ ردعمل سوشل میڈیا کے ذریعے ہم سب نے دیکھا۔

عام انتخابات کے انعقاد میں بہت کم وقت رہ گیا ہے، لیکن مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کی طرف سے ان کے حلقوں میں اس طرح سے مضبوط اور منظم مہم نہیں چلائی جا رہی جس کا ماضی میں مشاہدہ کیا جاتا تھا۔ اس کے بجائے مختلف سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے پیغامات عوام تک پہنچا رہی ہیں، مگر ان پیغامات میں بھی دلکش اور پرکشش نعرے نہیں ہیں مثلاً متحدہ مجلس عمل کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ انہیں دیا ہوا ووٹ پارلیمنٹ میں ختم نبوت، ناموس رسالتؐ، ناموس صحابہؓ اور شعائر اسلام کے پلڑے کو بھاری کرے گا۔ متحدہ مجلس عمل میں شامل جماعت اسلامی کا زیادہ زور اپنے امیدواروں کی تعلیم پر ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ہمارے امیدواروں میں کوئی ڈاکٹر ہے، تو کوئی انجینئر یا چارٹرڈ اکائونٹنٹ۔ ایم کیو ایم کی انتخابی مہم میں ’’جاگ مہاجر جاگ‘‘ کے نعرے لگ رہے ہیں۔ آفاق احمد کی مہاجر قومی موومنٹ، جنوبی سندھ صوبے کے حوالے سے مہم چلا رہی ہے۔ عمران خان جو پہلے ’’تبدیلی‘‘ اور ’’نئے پاکستان‘‘ کی بات کرتے تھے، اس مرتبہ ان کی انتخابی مہم کا نعرہ ’’دو نہیں ایک پاکستان ہے‘‘ ۔ 

مسلم لیگ (نون) نے واضح طور پر کوئی سیاسی نعرہ اختیار کرنے سے اجتناب برتا ہے، لیکن ان کے جلسوں میں ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ ضرور سنائی دے رہا ہے۔ پیپلزپارٹی ’’بھوک مٹائو‘‘ کا نعرہ لگا رہی ہے، لیکن دیکھا جائے، تو ان سب نعروں میں ایسی کوئی جان نظر نہیں آتی، جو ووٹرز کے رجحان کو تبدیل کر دے اور وہ پرجوش ہو کر پولنگ اسٹیشنز کے باہر صبح ہی سے قطار میں کھڑے ہو جائیں۔

1970ء سے1997ء تک کے عام انتخابات میں (ماسوائے1985ء کے غیرجماعتی انتخابات کے) لگائے جانے والے انتخابی نعروں کی خاص بات یہ تھی کہ ان میں اجتماعیت تھی۔ پیپلزپارٹی پورے معاشرے کی بات کرتی تھی، تو اسلام پسند سیاسی جماعتوں کے نعروں میں بھی اسلامی معاشرے کے قیام کا وعدہ کیا جاتا تھا، مگر پیپلزپارٹی ہر کسی کو ’’روٹی، کپڑا، مکان‘‘ فراہم کر سکی اور نہ ہی مذہبی سیاسی جماعتیں نفاذ اسلام کا وعدہ پورا کر سکیں۔ دراصل یہ دونوں نعرے عوام کے جذبات ابھارنے کے لیے تھے، جن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن اس کے باوجود عوام ایک مدت ان نعروں کے سحر میں گرفتار رہے۔ 

1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں جو جنرل ضیاء الحق نے اپنی آمریت کو تقویت دینے کی غرض سے کرائے تھے، ان نعروں کا کوئی جواز نہیں تھا، لہٰذا ان انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں نے گلی محلوں کی صفائی، پینے کے پانی اور ایسے ہی مقامی مسائل کو حل کرنے کے وعدوں پر ووٹ لیے اور اس بنیاد پر اسمبلیوں میں پہنچے۔ کم و بیش اسی قسم کی صورتحال2018ء کے عام انتخابات میں بھی نظر آ رہی ہے۔ آزاد ہوں یا سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ پر کھڑے ہونے والے امیدوار، ہر کوئی مقامی یا علاقائی مسائل کے حوالے سے انتخابی مہم چلا رہا ہے۔ کراچی میں ایک آزاد امیدوار نے کچرے کے ڈھیر پر بیٹھ کر اور گندے پانی میں لیٹ کر اپنی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کی ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری لیاری پہنچے، تو چھتوں اور بالکونیوں میں کھڑی خواتین نے مٹکے دکھا دکھا کر مخالفانہ نعرے لگائے۔ فاروق ستار، میمن مسجد میں نماز ادا کرنے گئے تو ان پر اسلحے کے زور پر کھالیں چھیننے کی پھبتی کسی گئی۔ عوام پوچھتے ہیں کہ جب تم حکومت میں تھے، تو ہمارے مسائل حل کیوں نہیں کئے؟ امیدواروں کو ایسی مشکل کا سامنا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ ایک حلقے میں باقاعدہ بینر لگائے گئے، جن پر تحریر تھا ’’پانی نہیں ہے نلکے میں…شکل نہ دکھانا حلقے میں‘‘

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صوبائی یا قومی اسمبلیاں کیا اس لیے وجود میں آتی ہیں کہ وہاں ٹوٹی پھوٹی سڑکوں، گندگی، پینے کے پانی کی عدم فراہمی جیسے دیگر چھوٹے مقامی مسائل پر بات کی جائے یا وہ صوبے اور ملک کے لیے دوررس پالیسیز بنانے کی ذمہ دار ہیں۔ فی الحال، صوبائی اسمبلیوں کا ذکر جانے دیجئے۔ ہم بات کرتے ہیں، قومی اسمبلی کی۔ پارلیمنٹ کا اہم ترین کام قانون سازی تو ہے ہی، مگر اسی پارلیمنٹ کے ارکان کے ذریعے منتخب ہونے والی حکومت ملک کی خارجہ پالیسی تشکیل دیتی ہے۔ دفاعی اور معاشی معاملات کو دیکھتی ہے۔ تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی کے لیے پالیسیز بناتی ہے، اقوام عالم سے ملک کے روابط کا تعین کرتی ہے۔ اب اگر ایوان میں وہ نمائندے پہنچ جائیں، جو گلی محلوں کی صفائی کے نام پر ووٹ لیتے ہیں، تو بتایئے ان پالیسیز کی تشکیل میں ان کا کردار کیا ہوگا؟ 

اب ہم جو ہر وقت اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت اور دبائو کی بات کرتے ہیں، تو کیا اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ہمارے اکثر عوامی نمائندے اہم قومی معاملات کے حوالے سے بالکل کورے ہیں۔ اسی طرح پینے کے پانی کا مسئلہ اٹھانے والے، گلی محلّے میں کچرے کے ڈھیر کی شکایت کرنے والے، ووٹرز نے کبھی اپنے حلقے کا دورہ کرنے والے قومی اسمبلی کے امیدوار سے معلوم کیا کہ ملک کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے اس کا نقطہ نظر کیا ہے؟ اگر اسے قومی اسمبلی میں اسٹینڈنگ کمیٹی برائے دفاع کا چیئرمین بنا دیا جائے، تو وہ ملک کے دفاعی معاملات کس طرح دیکھے گا؟ یا آئندہ مہینوں میں ملک پر جو ایک سنگین خطرے کی تلوار لٹک رہی ہے کہ بین الاقوامی برادری ہمیں دہشت گرد ملک قرار دے کر ہمارا حقہ پانی بند کر دینا چاہتی ہے، آپ اگر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے، تو اس خطرے سے نمٹنے کے لیے کیا اقدام کریں گے۔ باقی باتیں تو رہنے دیجئے، اس سے صرف یہی پوچھ لیں کہ’’FATF‘‘ کس کا مخفف ہے۔ دودھ کا دودھ، پانی کا پانی ہو جائے گا۔ بدقسمتی سے امیدواروں کی طرح، ووٹرز بھی اہم قومی معاملات کا ادراک نہیں رکھتے، ناخواندہ ہوں یا تعلیم یافتہ تقریباً تقریباً سب ہی ایک جیسے ہیں۔

2018ء کے انتخابات کو عام نہ سمجھئے۔ یہ ’’جنرل‘‘ الیکشن، بین الاقوامی برادری میں ہمارے مستقبل کا تعین کریں گے، تو ملک کی داخلی نقشہ گری بھی ان ہی کے ذریعے ہوگی۔ پرکشش اور پرفریب نعرے نہ سنائی دینے کی ا یک وجہ یہ بھی ہے کہ ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو مستقبل کی صورتحال کا بھرپور اندازہ ہے۔ حکومت نہ ملی تو کام پھر بھی چل جائے گا، لیکن حکومت مل گئی تو انگلی کے اشارے پر چلنے کے ساتھ ساتھ تلوار کی دھار پر بھی چلنا پڑے گا۔ اسٹاک مارکیٹ کی مسلسل مندی میں بڑے بڑے اشارے پوشیدہ ہیں۔

شدت پسندی، دہشت گردی اور فرقہ واریت کے بھنور میں گھرا پاکستان، اپنوں اور غیروں کی سازشوں کے طفیل دوراہے پر کھڑا ہے، مگر عوام اس ملک کے مستقبل اور خطرات سے لاتعلق ہو کر اپنے مسائل کا رونا رو رہے ہیں۔ ان کا رونا اس واسطے بھی عجیب ہے کہ وہ خود ہی اس کے ذمے دار ہیں۔ ووٹ کو بریانی کی پلیٹ کے عوض بیچنے کے لیے کوئی ایران یا توران نہیں آیا، ہم ہی تھے بھائی، ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ ووٹ کی طاقت سے مقدر بھی بدلتا ہے اور حالات بھی۔ ہم وہی غلطی دہرانے جا رہے ہیں، جو کئی مرتبہ پہلے بھی سرزد ہوئی۔ ہم جب تک کھمبوں کو ووٹ دیتے رہیں گے، ذاتی مفاات کو قومی مفادات پر ترجیح دیں گے، آنکھیں بند کر کے، جذباتی فیصلے کریں گے، ہوش مندی کو قریب نہیں آنے دیں گے، ارب پتی اور کھرب پتی امیدواروں کو غریبوں کا ہمدرد سمجھ کر منتخب کریں گے، تو پھر کیا ہوگا۔ 

ہمارے شہر اور دیہات ویسے کے ویسے ہی رہیں گے۔ عالمی برادری میں ہمارا کوئی مقام نہیں ہو گا اور کوئی طالع آزما ہمارا سودا کر بیٹھے گا۔ ماضی کے تجربات شاہد ہیں کہ لمحوں کی خطا، صدیوں پر بھاری ہوتی ہے۔ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والی اہم سیاسی جماعتیں اہم قومی مسائل پر خاموش کیوں ہیں۔ خارجہ پالیسی، دفاع اور مالیات جیسے اہم ترین معاملات پر ان کا موقف سامنے کیوں نہیں آ رہا۔ جمہوری ملکوں میں حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی جماعتیں بھی اپنا ’’روڈ میپ‘‘ ہمیشہ تیار رکھتی ہیں کہ انہیں بالفرض اقتدار میں آنے اور حکومت بنانے کا موقع ملا تو وہ اس اہم ترین ذمہ داری کو کس طرح نبھائیں گی۔ قائد حزب اختلاف کی سربراہی میں باقاعدہ ایک شیڈو کابینہ بنائی جاتی ہے، جو مختلف شعبوں میں مہارت رکھنے والے پارٹی ممبرز پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ ’’شیڈو منسٹرز‘‘ کہلاتے ہیں۔ پتا نہیں پاکستان میں اس جمہوری روایت پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا؟

کہا جاتا ہے کہ انتخابات کے ذریعے جمہوریت مضبوط ہوتی ہے۔ عوام میں سیاسی شعور بیدار ہوتا ہے۔ جمہوری ادارے مستحکم ہوتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کا دور آمریت ختم ہونے کے بعد2018ء کے انتخابات، تیسرے عام انتخابات ہوں گے۔ 2008ء اور2013ء میں عوام نے دو مختلف سیاسی جماعتوں پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا اور انہیں حکومت بنانے کے قابل سمجھا۔ ان دونوں انتخابات میں اچھا خاصا سیاسی گند صاف ہو چکا ہے۔ عوام میں شعور آیا ہے اور وہ اپنے نمائندوں کی کارکردگی کا تجزیہ اور احتساب کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔ یہ ان ہی انتخابات کا کرشمہ ہے کہ عوام، امیدواروں کو کڑے تنقیدی عمل سے گزار رہے ہیں۔ گزشتہ کارکردگی کا حساب مانگ رہے ہیں، شاید اسی وجہ سے ہر سیاسی جماعت پرفریب نعروں سے گریز کر رہی ہے، لیکن ایک عجیب بات یہ بھی نظر آ رہی ہے کہ گزشتہ عام انتخابات کے برعکس انتخابی گہما گہمی اور جوش و خروش دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ عوام سیاسی جماعتوں کی کارکردگی سے مایوس ہو چکے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ انداز فکر جمہوریت اور جمہوریت عمل کے لیے نقصان دہ ہے، دیکھا جائے تو اس کی اصل وجہ سابقہ جمہوری حکومتوں میں ہونے والی کرپشن ہے۔ 

عوام گومگو کے عالم میں ہیں کہ ان کا انتخاب کیا ہونا چاہئے۔ دیکھا جائے تو اب معاشرے کی حرکیات تبدیل ہو چکی ہیں۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا نے عوامی شعور کو خاصا بلند کر دیا ہے۔ ایک عام فرد بھی اب اس قابل ہے کہ قول و فعل کی کسوٹی پر اعمال کو پرکھ سکے، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ دیگر عوامل بھی عوام کے طرزعمل کو متاثر کر رہے ہیں، ان میں سرفہرست بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے۔ ادارہ شماریات کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کھانے پینے کی اشیاء گزشتہ چار برسوں کے مقابلے میں زیادہ مہنگی ہو گئی ہیں۔ پیٹرول کی قیمت ایک ماہ کے دوران دو مرتبہ بڑھائی گئی۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گھٹ گئی اور ایک ڈالر 125روپے کے قریب جا پہنچا۔ افراط زر کی شرح5.21فیصد ہو گئی۔ 1977ء کے عام انتخابات میں قومی اتحاد میں شامل نو سیاسی جماعتوں نے نعرہ لگایا تھا کہ مہنگائی کم کی جائے گی اور قومی اتحاد برسراقتدار آنے کے بعد قیمتیں1970ء کی سطح پر واپس لے آئے گا۔ یہ نعرہ بڑا ہی دلفریب مگر معروضی حقائق کے خلاف تھا، قیمتیں کم نہ ہوئیں اور مہنگائی کا گراف بلند ہوتا چلا گیا۔ 

اس وقت بھی مہنگائی عروج پر ہے، مگر تمام سیاسی جماعتوں نے اس اہم ترین مسئلے کو انتخابی مہم کا حصہ بنانے سے گریز کرتے ہوئے نہ جانے کیوں خاموشی اختیار کر لی ہے۔ سردست موجودہ انتخابی مہم ماضی کے ان پرکشش انتخابی نعروں سے محروم ہے، جو ووٹر میں جوش و ولولہ بیدار کرنے کا سبب بنتے تھے اور جن سے انتخابی جلسے، جلوس کی رونقوں میں اضافہ ہوتا تھا۔ اب تو انتخابی مہم کا سارا بوجھ سوشل میڈیا نے سنبھال رکھا ہے اور تقریباً سب ہی سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا سیل ’’چومکھی‘‘ لڑنے میں مصروف ہیں۔

تازہ ترین