• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں افراد کی طرح بعض ادارے بھی نرگسیت کا شکار ہیں۔ نرگسیت احساس کمتری کی بدترین شکل ہے۔ یوں تو تکبر بھی احساس کمتری ہے لیکن تکبر میں جہالت کے باوجود مردانگی پائی جاتی ہے۔ نرگسیت تو ہے نری مفعولیت۔ ہماری پارلیمنٹ نرگسیت کی بدترین مثال ہے۔ مشکل یہ ہے کہ افراد کے نفسیاتی علاج کیلئے شفاخانے موجود ہیں لیکن اجتماعی نفسیات اور اداروں کو لاحق عارضے کا کوئی علاج نہیں، پارلیمنٹ بزعم خود ریاست میں سپریم یا بالادست ہونے کی دعویدار ہے اور اپنے دعوے کو وقت بے وقت دہراتے رہنے کی عادت میں مبتلا ہے۔ ان کی بالادستی کو کبھی کسی ادارے یا فرد نے چیلنج نہیں کیا۔ پارلیمنٹ کے بعد یہ مرض ذرائع ابلاغ پر بھی بری طرح حملہ آور ہو گیا ہے۔ ذرائع ابلاغ نے برخود غلط خود کو رائے عامہ سمجھنا شروع کر دیا۔ یوں خود کو ریاست کا چوتھا ستون قرار دے کر بالادستی کی دوڑ میں شامل ہو گیا حالانکہ ذرائع ابلاغ رائے عامہ نہیں بلکہ رائے عامہ تشکیل دینے کا آلہ ہیں۔ رائے عامہ کے ناقص آلات نے رائے کا تو کچھ نہیں بگاڑا لیکن نیم خواندہ سیاستدانوں کو الّو بنانے کا ہنر سیکھ لیا ہے۔ وہی ’’اُلّو‘‘ جو ان کا محسن، مربی اور ان داتا بھی ہے۔ اپنے محسنوں کو گھڑی پل لبھانے کیلئے ان کی عمریں تباہ کر دیں۔ ایک سے ایک اچھا بھلا سیاستدان ان کے بھرّے میں آکرتباہ ہوا۔ رائے عامہ کے لگڑبگڑوں کا تازہ شکار عمر بھر زخم چاٹے گا۔ ان کی ذہانت کی داد دیجئے کہ سونے کا انڈہ دینے والی مرغی جیل بھیج کر اپنے ہاتھوں گنوا دی۔
پشاور کا ضمنی الیکشن شروع ہونے میں چند گھنٹے باقی تھے۔ شام 7بجے ٹیلی ویژن پر ایک ماہر نباض نے اپنے ممدوح کو خوش کرنے اور ہم چشموں کو نیچا دکھانے کیلئے فرمایا میں خود پشاور سے ہوکر آیا اور مسلسل رابطے میں ہوں۔ مسلم لیگ (ن) بیس ہزار ووٹ کی اکثریت سے جیت رہی ہے۔ دوسرے نمبر پر فضل الرحمٰن ہیں۔ اب تیسری اور چوتھی پوزیشن کیلئے تحریک انصاف اور اے این پی میں مقابلہ ہوگا۔ اگلی شام پروگرام شروع ہونے کے وقت تک تحریک انصاف بائیس ہزار ووٹ سے جیت چکی تھی اور ’’جناب شیخ‘‘ کی پارٹی کا کوئی نمبر تھا ہی نہیں۔ تیسرا نہ چوتھا۔
آسمان نے رنگ بدلا تو مقدر بگڑنے لگے۔ براستہ پانامہ بلائیں نازل ہوئیں تو درویش صفت صدر پاکستان ممنون حسین نے بروقت خبردار کیا کہ یہ خدا کی طرف سے آیا ہے۔ اس میں دیکھتے جایئے کون کون پکڑ میں آئے گا۔ بڑے بڑے زد میں ہوں گے۔ کوئی چھ مہینے، سال، کوئی دو سال۔
مرض لاحق ہو تو ڈاکٹر چاہئے۔ گھر کے درودیوار میں دراڑ آئے تو انجینئر طلب کیجئے۔ انجن جواب دے یا مشینری خراب تو مکینک، سنجیدہ نوعیت کی قانونی اور سیاسی پیچیدگیوں نے آن گھیرا تو اپنے ہم جھولیوں میں واحد ’’سیاسی عبقری‘‘ نے بہتیرا سمجھایا، راہ دکھائی۔
ہرآن مشکل بڑھ رہی تھی، جانبر ہونے کی امیدیں کم ہوتی جارہی تھیں۔ بچ نکلنے کی ساری راہیں آہستہ روی اور خاموشی سے دبے پائوں نکل جانے میں تھی۔
لڑا دے ممولے کو شہباز سے
بے چارہ ممولا، عقاب کے آگے ڈال دیا۔ چڑھ جا بیٹا سولی پہ رام بھلی کرے گا۔ سلامتی کی راہ دکھانے کے بجائے اسے بانس پر چڑھاتے رہے۔ نوابزادہ نصراللہ نے کہا ’’جتنا مرضی بانس پر چڑھائو لیڈر نہیں بنے گا‘‘ تو بانس پر چڑھانے والے ہمارے دوست ایڈیٹر نے جواب دیا ’’نواب صاحب، ہمارے بانس میں کچھ خرابی ہے جس کو چڑھائو بانس اوپر نکل جاتا ہے اور لیڈر نیچے وہیں کا وہیں‘‘۔
کہا، ڈٹ کے مقدمہ لڑیئے، اپنے ہم چشم سیاستدانوں کو ہاتھ دینے اور ان کی باتیں سننے کی ضرورت کیا ہے؟ چنانچہ عدالت کی راہ دکھائی، حالت خراب ہوئی تو ’’تھنک ٹینک‘‘بولے مقدمہ ہارے تو ہار مضبوط بنا دے گی، اقتدار سے گئے تو خطرناک، نا اہل ہوئے تو بہت خطرناک، جیل ہوئی تو گویا انقلاب نے دستک دی اور جیل کی دیواروں کو توڑ کر’’مائوزے تنگ‘‘ نہیں تو امام خمینی ضرور برآمد ہو جائے گا۔ اس سیلاب میں کچھ باقی نہ بچے گا۔ فوج، عدالت، اپوزیشن نہ کوئی اور ’’سنجیاں گلیاں اور مرزا یار‘‘
نااہل کو سوچنے کا موقع دیئے بغیر کہا، صاحب پدھاریے،کروڑوں کا مجمع، جلوس، استقبال، بھائی سب سے بڑے صوبے کا بادشاہ، خادم خاص ملک کا حکمران، سب ادارے تابع فرمان، پھر بھی کوئی جلسہ ہوا، جلوس نکلا، نہ ہاہا کار مچی۔ اب کیا ہو گا؟ جب چڑیاں چگ گئی کھیت۔ ابھی تک جعلی سروے، فرضی تجزیوں کے، کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں۔
جناب عالی، انتخاب سر پہ کھڑے ہیں، پندرہ دن میں انتخابی نتائج ہاتھ میں ہوں گے۔ پنجاب کے سوا کسی صوبے میں آپ کا گزر نہیں، پنجاب کے ایک چوتھائی اضلاع میں امیدوار نہیں ہیں یا ٹکٹ واپس کر دیئے گئے۔ ماضی قریب کی تاریخ سے سبق سیکھا جاسکتا تھا۔ جونیجو کو نکالا، ضیاء الحق بھی گئے اور بینظیر کو 1988ء میں 207کے ایوان میں 94نشستیں حاصل ہوئیں۔ بینظیر کو غلام اسحاق نے فارغ کیا، انتخاب ہوئے تو اس کی 93نشستیں 44رہ گئیں اور نواز شریف وزیر اعظم بن گئے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے صدر سے بغاوت کی، ڈکٹیشن لینے سے انکار کیا، راتوں رات مقبولیت کی بلندی پر پہنچ گئے۔ مشرق و مغرب نے ساتھ دیا، ذرائع ابلاغ نے قصیدے پڑھے، انتخابات ہوئے تو بینظیر کی 45نشستیں بڑھ گئیں اور نواز شریف کی ساری مقبولیت کے باوجود 38نشستیں کم ہوئیں اور بے نظیر وزارت عظمیٰ کی گدی پر بیٹھ گئیں۔ فاروق لغاری نے بینظیر حکومت برطرف کی، برطرفی کے بعد پیپلز پارٹی کی وہ درگت بنی کہ پورے پاکستان میں پارٹی کا صفایا ہوگیا۔ صرف دیہی سندھ سے 18ممبران اسمبلی کامیاب ہو سکے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے مہربانی کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر بنایا حالانکہ اپوزیشن لیڈری بھی جاتی نظر آرہی تھی۔
نواز شریف الیکشن لڑنے کیلئے نااہل ہیں، جانشین بیٹی، ممبر اسمبلی داماد بھی اور خود قائد کو سزائیں سنائی جا چکی ہیں اور نااہلی کے بعد سارا خاندان جیل جانے کو ہے۔ چھوٹے بادشاہ شہباز شریف کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے، اپنی من مانی کے برے نتائج سامنے آرہے ہیں۔ اربوں روپے کے گھپلے اژدھا بن کر منہ کھولے نگل جانے کو بڑھ رہے ہیں اور تھنک ٹینک ہیں کہ ابھی تک فتح و کامرانی کی خبر دیتے ہیں۔
1985ء سے اب تک جس کو اقتدار سے نکالا گیا۔ آنے والے انتخاب میں اسے عبرتناک شکست ہوئی۔
2008ء کے انتخاب میں جو حالت مسلم لیگ (ق) کی تھی۔2013ء میں وہی حالت پیپلز پارٹی کی ہوگئی۔ اب 2018ء کے انتخاب میں (ق) اور پیپلز پارٹی جیسا انجام مسلم لیگ نواز کا منتظر ہے۔ ابھی بھاری مینڈیٹ والے اقتدار کو گئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں،سر کے بل آنے والے امیدواران اسمبلی سر پٹ بھاگ کھڑے ہوئے ہیں۔
تحریک انصاف کی ’’ہوا چل پڑی ہے‘‘ اور روز بروز تیز تر ہوتی جا رہی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ سیاسی فضا زیادہ واضح ہو جائے گی۔ کپتان کا جادو سر چڑھ کہ بول رہا ہے۔ نا اہل قائد اور جانشین کو سنائی گئی سزائوں کے بعد مسلم لیگ کی ابتر صفوں میں بھگدڑ مچ گئی ہے۔ جلسوں میں حاضری کا فرق آنے والے انتخابی نتائج کی خبر دیتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ انتخاب میں تحریک انصاف کو پنجاب اور خیبر پختونخوا میں واضح برتری حاصل ہو جائیگی۔
تحریک انصاف آج واحد قومی جماعت ہے جو چاروں صوبوں میں عوام کے اندر موثر تعداد میں موجود ہے۔ ملک بھر کے 272قومی اسمبلی کے حلقوں میں اس کے امیدوار خود میدان میں ہیں یا اس کے اتحادی، 35سال سے اقتدار کے مزے لوٹنے والی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کو اپنے گھروں میں چیلنج درپیش ہے۔ اقتدار کی باریاں لینے والے خود تو گئے کام سے اور عمران خان کو ’’جیپ‘‘ سے ڈرایا جا رہا ہے۔ خاطر جمع رکھیں، جیپ سے عمران خان کو کوئی خطرہ نہیں۔ اسمبلی میں عمران خان کو واضح اکثریت حاصل ہو جائے گی۔ جنوبی پنجاب کے آزاد ممبران اسمبلی کا قدرتی انتخاب تحریک انصاف ہوسکتی ہے نہ کہ مسلم لیگ نواز۔ جس کے ٹکٹ کو حقارت سے ٹھکرا کہ وہ آزاد الیکشن لڑنے آئے ہیں۔ ویسے بھی شمال کے آزاد اور جنوب کی جیپ کا باہمی رشتہ ہے نہ ناطہ، دونوں کو الگ الگ فیصلے کرنا ہوں گے۔شمال اپوزیشن بنے گا اور جنوب حکومت کا حصہ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین