• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کئی راتوں سے امیتابھ بچن میرے خوابوں میں آرہا ہے۔ آپ مجھے امیتابھ کا صرف فین مت سمجھیں۔ میں امیتابھ کا دوست ہوں۔ اس وقت آپ کے دماغ میں جوکچھ چل رہا ہے وہ میں بخوبی سمجھ سکتا ہوں۔ آپ یہی سوچ رہے ہیں ناکہ دو ناراض ،خفا اور لڑاکو ممالک کے لوگ آپس میں دوست کیسے ہوسکتے ہیں؟ ان کو بھی حکومتوں کی طرح ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا چاہیے۔ ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنی چاہیے۔ الزام تراشی کرنی چاہیے۔ ایک دوسرے کو کوسنا چاہیے۔ یہی سوچ رہے ہیں نا آپ؟ بیچارے لاغر انسان کی مجبوری یہ ہے کہ بظاہر اس کی دو دنیائیں ہوتی ہیں، ایک باطنی دنیا اور دوسری ظاہری دنیا۔ انسان کی ایک تیسری دنیا بھی ہوتی ہے۔ وہ خوابوں کی دنیا ہوتی ہے۔ میں امیتابھ سے خوابوں میں ملتا ہوں۔ اس میں مجھے خو ش ہونے یا پھر خوش فہمی میں گرفتار ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ قطعی ضروری نہیں ہے کہ آپ جس شخص کو اپنے خوابوں میں دیکھتے ہیں ۔ یک طرفہ محبت کی طرح خواب بھی ہمارا نجی اور ذاتی، یعنی پرائیویٹ معاملہ ہوتا ہے۔ آپ کسی کے خوابوں میں ٹانگ اڑا نہیں سکتے ۔
میں آپ کو کئی بار بتاچکا ہوں کہ میں جب پیدا ہوا تھا تب بوڑھا نہیں تھا ۔ میں بھی آپ کی طرح بچہ پیدا ہواتھا۔ بچپن کے بعد مجھ پر لڑکپن آیاتھا ۔ لڑکپن کے بعد میں نوجوان ہواتھا ۔ یہ میری نوجوانی کی بات ہے۔ پورے برصغیر پر مدھو بالا کا جادو چل رہاتھا ۔ وہ تھی بھی بے انتہا خوبصورت۔ قادر کی قدرت کی بے مثال تخلیق تھی ۔مدھو بالا کے بارے میں دیو مالائی قصے برصغیر کےطول وعرض میں گردش کرتے رہتے تھے۔ ان غیر معمولی قصوں کی بازگشت اب بھی سنائی دیتی ہے۔ آج کل سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر مدھو بالا کے حوالے سے ایک قصہ گردش کررہا ہے۔ اس قصے کے مطابق جناب ذوالفقار علی بھٹو طالب علمی کے زمانے سے مدھو بالا پر فریفتہ تھے۔ اس سے ملنے کے متمنی تھے۔ پاکستان کے وزیر داخلہ بنے تب بھی ذوالفقار علی بھٹو مدھو بالا کے طلسم خیال میں گم رہتے تھے۔ یہ قصہ پڑھنے کے بعد مجھے احمقانہ خیال آیا کہ شملہ معاہدہ کے دوران اندراگاندھی اگر ذوالفقار علی بھٹو کو مدھو بالا کی ایک جھلک دکھا دیتی تو شاید ذوالفقار علی بھٹو عوض میں پورا پاکستان اندرا گاندھی کے حوالے کرکے خود صحرا نورد بن جاتے ۔ چاہتوں کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔ مجھے ٹھیک سے یاد نہیں آرہا۔ کون تھا وہ دیوانہ جس نے محبوب کے گال پر تل کا نشان دیکھ کر سمر قند اور بخارا دان کرنے کا ارادہ کرلیا تھا؟
تب میں بھی مدھو بالا کے خواب دیکھتا تھا ۔ وہ خوابوں میں پہروں میرے ساتھ رہتی تھی۔ مجھ سے باتیں کرتی تھی۔ ایک مرتبہ مدھوبالا نے کہا تھا ۔’’ کیا تم مجھ سے محبت کرتے ہو؟ ‘‘
میں نے کہا تھا ۔’’ بے انتہا محبت کرتا ہوں‘‘۔
مدھو بالا نے کہا تھا ۔’’ کیا تم میری خاطر اپنی سب سے پیاری چیز قربان کرسکتے ہو؟‘‘
میں نے فوراً کہہ دیا تھا۔’’ تمہاری خوشنودی کی خاطر میں اپنی سب سے پیاری چیز قربان کردوں گا‘‘۔
بہت سوچ بچار کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ میرے پاس ایک زندگی کے سوا اور کوئی پیاری چیز نہیں ہے۔ میں مدھو بالا کے لیے اپنی زندگی قربان کردوں گا۔ اپنا فیصلہ مجھے اچھا لگاتھا۔ میں نے مرنے اور دنیا چھوڑنے کی ٹھان لی۔ دنیا کو خیرباد کرنے سے پہلے میں نے اپنے رول ماڈل بچو بھائی سے آخری بار ملنا ضروری سمجھا۔ ان کو بتائے بغیر میں کوئی کام نہیں کرتا۔ عمر کی سنچری مکمل کرنے کو ہیں۔ میرا فیصلہ سننے کے بعد بچو بھائی نے مجھے خوب ڈانٹتے ہوئے کہا۔’’ ابے بوڑم خواب خواب ہوتے ہیں۔ آنکھ کھلتے ختم ہوجاتے ہیں۔ اور تو ایک خواب میں سنی ہوئی بات پر مرنے کوتیار ہے؟ بڑا احمق ہے تو۔‘‘ میں نے ٹس سے مس نہ ہوتے ہوئے کہاتھا ۔
’’ تاریخ گواہ ہے خوابوں نے دنیا پر بڑے اثرات چھوڑے ہیں۔ مدھو بالا کی خوشنودی کی خاطر میں اپنی جان قربان کردونگا، دنیا میری محبت کی مثالیں دیا کرے گی‘‘۔
بچو بھائی جہاں دیدہ ہیں۔ بچو بھائی نے کہا۔’’ دیکھ بالم، انسان تب تک خواب دیکھتا ہےجب تک وہ زندہ ہوتا ہے۔ تونے اگر اپنی جان دے دی تو پھر تو مدھو بالا کے خواب کیسے دیکھے گا؟ مرے ہوئے لوگ خواب نہیں دیکھتے ۔‘‘
بچو بھائی نے اپنے فلسفے سے مجھے مدھو بالا کی خوشنودی کی خاطر اپنی جان دینے سے منحرف کردیا۔ اور میں مرنے سے بال بال بچ گیا ۔ بقول بچو بھائی کے ہم جب تک زندہ ہوتے ہیں تب تک خواب دیکھتے ہیں۔ ایک عرصہ سے میں امیتابھ بچن کو خواب میں دیکھ رہا ہوں۔ امیتابھ کی بیشمار اچھی فلموں میں مجھے شہنشاہ بہت اچھی لگی تھی ۔ یہ ایک نڈر پولیس آفیسر کی کہانی ہے۔ وہ بڑی دلیری سے بااثر قاتلوں اور مجرموں کو پکڑتا ہے اور انہیں ثبوتوں کے ساتھ عدالتوں میں پیش کرتا ہے۔ مگر تیز طرار وکیل با اثر مجرموں کو باعزت بری کراکے لے جاتے ہیں۔ ایسے میں امیتابھ رات کی تاریکیوں میں دوسرا روپ دھار لیتا ہے اور بااثر مجرموں اور بدکردار اشرافوں کو ٹھکانے لگاتا رہتا ہے۔ اپنے آپ کو شہنشاہ کہلاتا ہے۔ ایک جملہ فلم میں کئی بار دہراتا ہے۔ ’’ ہم مجرموں کو خود پکڑتے ہیں۔ جہاں چاہیں عدالت لگا کر مقدمہ چلاتے ہیں اور مجرموں کو سزا دیتے ہیں۔ نام ہے شہنشاہ‘‘۔
آج کل امیتابھ پاکستان آیا ہوا ہے۔ میرے خوابوں میں آنے کے لیے امیتابھ کو ویزے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ہم سب ایک دوسرے کے خوابوں میں بغیر کسی پاسپورٹ، بغیر کسی ویزا کے آجا سکتے ہیں۔ نہ امیگریشن والے تنگ کرتے ہیں اور نہ کسٹم حکام ہماری جھڑتی لیتے ہیں۔ آنے والے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے آج کل امیتابھ بچن پاکستان آیا ہوا ہے۔ وہ وزارت عظمیٰ کامتمنی ہے۔ ٹرک پر سوار ہوکر وہ ملک بھر کے دورے کررہا ہے۔ کہتا پھر رہا ہے، میں ملک کے سب سے بڑے کرپٹ سیاستدان کو پکڑوں گا ۔ اپنی عدالت لگائوں ۔ میں خود ان پر مقدمہ چلائوں گا ۔ میں ہی فیصلہ سنائوں گا ۔ میں ہی اس کو سزا دونگا ۔ نام ہے میرا شہنشاہ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین