• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ن لیگ اپنے مسلم لیگ ہونے کا تشخص تو برسوں پہلے کھو چکی، جب میاں نواز شریف کی دوسری وزارت عظمیٰ میں کتنے ہی جیالے اور نظریاتی لیفٹیے جبے اتار، دربار و سرکار میں شامل ہو کر اللّے تللّوں کے مستحق قرار پائے۔ عوض میں وہ انہیں (وزیر اعظم)’’صراط مستقیم‘‘ دکھا کر مرد حر بنانے کی سعی کرتے رہے، اور وہ بتدریج بن کر الٹا نتیجہ دینے والے انقلابی اقدامات کی مہم جوئی میں مبتلا ہوگئے، لیکن یہ ظاہر نہ ہونے دیا کہ وہ’’نظریاتی‘‘ ہوگئے۔ یہ اعلان تو انہوں نے برسوں بعد ببانگ دہل تب کیا جب وہ قانون کی عدالت میں اپنی وزارت عظمیٰ اور مسلم لیگ(ن ہی سہی) کی سربراہی کا دفاع کرتے کرتے وزارت عظمیٰ اور پارٹی سربراہی دونوں سے ہی محروم ہو کر تاحیات عوامی نمائندگی کا حق ہی کھو بیٹھے۔ واضح رہے انہوں نے ان پے درپے محرومیوں پر جب جماعتی اکابرین میں اپنے نظریاتی ہونے کا انکشاف علی الاعلان کیا تو خصوصی مدعو کئے گئے اپنے نئے اتحادی اچکزئی صاحب مخاطب ہوئے اس امر کی تصدیق کرائی کہ وہ اب نظریاتی ہوگئے۔ یہ معنی خیز تھا کہ مسلم لیگی ووٹروں کے قائد نے اپنے اچانک نظریاتی ہونے کی تصدیق مسلم لیگی نظریے کے تاریخی نظریاتی مخالف جناب اچکزئی سے کرائی، جسے سیاسیمسکراہٹ کے ساتھ نئے اتحادی مولانا فضل الرحمٰن انجوائے کرتے رہے۔
اس پس منظر میں ن لیگ کا مسلم لیگی بھرم بھی بھسم ہوگیا اور میاں صاحب اپنے کسی نئے نظریے سے انسپائر ہوتے معصوم سیاسی دختر کو ہمنوا بنا کر(یا محترمہ خود بن کر) ’’ووٹ کو عزت دلانے‘‘ کے لئے میدان میں اتر گئے کہ انتخابی مہم شروع ہوگئی جس کے اختتام پر پولنگ کے روز میاں صاحب اور صاحبزادی نے’’ عوامی عدالت‘‘ سے سپریم کورٹ اور آنے والے نیب کورٹ کے امکانی فیصلوں کو بذریعہ ووٹ ریورس کرنے کی ٹھان لی۔ انہوں نے کوئی پروانہ کی کہ سیاسی نظام، آئین و قانون اور جمہوریت کے تقاضے کیا ہیں؟۔ انہیں سمجھ ہی نہ آئی کہ وہ تو جو ہیں وہ ہیں۔ زمانہ کتنا بدل گیا۔ ریاستی نظام ، آئین و قانون اور جمہوری عمل کو اس دور میں روکا نہیں جاسکتا،نہ ریورس کیا جاسکتا ہے ،جب ملک قیوم لاہور ہائی کورٹ کا جج اور سیف الرحمٰن نیب کا چیئرمین تھا۔ہماری سیاسی تاریخ کی اس کھلی کتاب کی موجودگی میں ن لیگ کے ن لیگ رہنے کا قانونی، سیاسی و جمہوری اور اخلاقی جواز بھی ختم ہوگیا تھا۔ سو عملاً پارٹی اب شین لیگ ہے جس کے سربراہ اب ش سے شہباز ہیں، جو اب تک باپ جیسے بھیا کے انداز سیاست کو اختیار کرنے کے لئے تیار تھے نہ ہی ا نہیں وہ’’خلائی مخلوق‘‘ نظر آرہی تھی جو مشکلات میں گھرے بھیا انہیں دکھانا چاہتے ہیں۔ شہباز شریف خود کو بڑے بھائی کی وفا کا پیکر منوانا چاہتے ہیں لیکن ’’بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ‘‘ ۔ ش سے شہباز شریف اب مفاہمت کا جوا ا تار کر انتخابی مہم بڑے بھائی جان کے انداز میں چلانے کے لئے پینترا بدلتے معلوم دیتے ہیں۔
شہباز صاحب کا ہوش تو متنازعہ ہوسکتا ہے لیکن جوش ان کا غیر متزلزل ہے۔ صورتحال کی حقیقت کو بخوبی جانتے ہوئے بھی انتخابی مہم میں ووٹروں کو عزت باٹتے فرماتے ہیں،25جولائی کو ’’نیب کافیصلہ دریا برد ہوگا‘‘۔اس کا دوسرا مطلب ہے کہ ووٹ کی مدد سے اور ووٹر کو’’عزت‘‘ یا شہ دے کر نیب اور عدلیہ کے فیصلے ریورس کرادئیے جائیں گے۔ یوں کرپشن کا دریا یوں ہی بہتا رہے جیسے اختتام حکومت تک بہتا رہا اور جیسا رواں رخصت ہوئے عشرہ بدترین جمہوریت میں رہا۔ نہیں نہیں ایسا اب ہرگز نہ ہوگا کہ ’’ووٹروں کو چند ہفتےکی عزت دے کر‘‘ ان سے احتسابی عمل ختم کرکے ظفر حجازی نیب اور قیومی عدلیہ کی بحالی کا سرٹیفکیٹ لے لیا جائے۔ یہ خلاف آئین و قانون و جمہوریت ہی نہیں بلکہ ان سےمتصادم ہے۔ سو ش لیگ قیادت کا یہ جعلی جوشیلابیانیہ، مملکت میں’’قانون کے مکمل اور قانون کے یکساں ہوتے اطلاق‘‘ کو کسی طور نہیں روک سکتا، کہ ووٹرز کی دوران انتخابی مہم ڈیروں اور گلی کوچے میں سیاسی عزت کا ڈھونگ رچا کر، ان کے حقو ق غصب کرکے قومی اثاثوں کو کرپشن کے دریا میں بہا کر، سات سمندر پار پہنچا کر، جائز دولت کے طور جتانے کا دور لد گیا۔ یقین نہ آئے تو زیر حراست فواد حسن فواد سے پوچھ لو کہ اب بھی وہ ہوسکتا ہے؟ جو ہوتا رہا۔پاکستان ایسے ہی لٹ سکتا ہے؟ جیسے لٹتا رہا۔ یہ زمانہ بیت جانے کی تصدیق لندن میں ہی سہی، پاکستانی کشکول معیشت کے آرکیٹیکٹ مرد بیمار اسحاق ڈار بھی کردیں گے۔ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ عدلیہ اور نیب کےآئینی کردار، میڈیا کی ا سپاٹ لائٹ جرنلز م کی پریکٹس اور قوم کی بھرپور تائید جو ووٹر ز سے تمام تر دردمندانہ اپیلوں کے باوجود نیب کورٹ کے فیصلے پر خاموشی نیم رضامند ی کی صورت اور انسداد کرپشن کی علمبردار عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایون فیلڈ پر اپرٹی پاکستان کے حوالے کرنے کے لئے برطانوی حکومت کو خط لکھ کر پاکستانی عدالتی فیصلے کے درست ہونے کی تصدیق نہیں کردی؟۔
اب جبکہ ملک بھر کے ووٹرز (بشمول نظریاتی اور غیو ر ن لیگی) پولنگ ڈے سے بہت پہلے’’آسمانی نزول‘‘ تادم نیب کورٹ کا فیصلہ‘‘ باوقار خاموشی اور صبر و استقلال سے جمہوری عمل کے ساتھ ساتھ جاری احتسابی عمل کی مصدقہ تائید کرچکے تو آئین و قانون کی روشنی میں ہونے والے فیصلوں کو من مانی تشریح سے دریا برد کیسے کیا جاسکتا ہے؟ قانون کی تشریح جن کا آئینی اختیار ہے، انہوں نے کردی، تاہم آزادی ِاظہار رائے کا آئینی حق استعمال کرتے شہریوں پر تنقید کے دروازے کھلے ہیں، اگر پولنگ ڈے پر ووٹ کاسٹنگ کے نتائج کو عدلیہ کے فیصلوں کی دریا بردی کا سگنل ہی ماننا ہے تو پھر جیلوں کے دروازے کھول کر جیل توڑو۔ گلی گلی شین لیگی ووٹروں کی عدالتیں لگائو اور جس نے جو کرنا ہے انتشار پھیلانے کی طاقت اور سکت سے کرلے۔ کاش!کروڑوں پاکستانیوں میںپاپولر 35سال کے اقتدار کے مزے لیتے جناب نواز شریف ہر دم منہ کھولے مشیروں اور درباریوں کے جھرمٹ سے نکل کر اپنے نظریاتی ووٹرز اور ان کے نمائندوں کو عزت دیتے جو’’ووٹ کی عزت‘‘ کی حقیقی اور عملی شکل تھی تو شاید پاناما لیکس، ’’آسمانی نزول‘‘ نہ بنتا اور ادا ہوتے کفارے کے طفیل مت نہ ماری جاتی اور بچت کی راہ نکل آتی ، جو نکل سکتی تھی لیکن ن لیگ نے پی پی کی باری کی تقلید میں انتخابی مہم میں اس پر لگائے تمام الزامات کو سمیٹ کر اس سے بڑھ کر دھماچوکڑی مچانے کی ٹھانی اور مچائی اور تو اور حکمران خاندان کے شاہی رویے سے نون لیگ پر نثار، چودھری نثار اورزعیم قادری جیسے کتنے ہی پیکران وفا ووٹروں کی طرح عزت نہ پاسکے۔ مرد بیمار تو پوری قوم کے ہاتھوں میں برسوں کے لئے کشکول تھما کر علاج کے لئے لندن سدھار گئے۔ لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے پروجیکٹ بھی مشکوک اور متنازعے رہے حتیٰ کہ نندی پوری پروجیکٹ کا تو ریکارڈ بھی جلا دیاگیا۔ کرپشن کو بتدریج اکھاڑ پھینکنے والا موجودہ گورننس کا جدید نظام ای گورننس موجود ملکی وسائل سے بآسانی قائم ہوگیا تھا لیکن اس کی طرف خلوص نیت سے کوئی بھی تو بنیادی کوشش نہ کی گئی، نتیجتاً پھر بھی کرپشن کے بھانڈے تو پھوٹ گئے اور بیچ چوراہے پھوٹ رہے ہیں، جو بابو گرفتار ہورہے ہیں ان کی کرپشن، ان کا خلاف آئین و قانون، کردار اوردرباریوں کے زبان زدِ عام اللّے تللّے عوام کے شعور اور رائے کو بیدار نہیں کررہے تھے؟ آپ کو سمجھ نہیں آئی یا آپ نے سمجھ کر اس کی پروا نہ کی تو اسی طرح ہوگیا جو ہورہا ہے، یہ افسوسناک اور عبرتناک ہے۔ اس پر مٹھائیاں باٹنا بھی ناروا ہے۔ یہ عبرت اور سبق کا مقام ہے جسے آنے والا لے گا اور پڑھے گا تو خود بھی سکھی رہے گا اور قوم بھی، لیکن اب بھی ایسی دیدہ دلیری کہ اعلیٰ مقاصد کی جدوجہد کے حصول کو کھلے عام سماجی پسماندگی کے زور پر دریا برد کرنے کی بڑھکیں ماری جائیں ۔ اللہ کا نام لیں اور اٹھتے بیٹھتے اسے یاد کرتے رہیں، وماعلینا الالبلاغ۔

تازہ ترین