• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شکوہ‘ گلہ یاغصہ صرف چند جنرلوں کے خلاف عدالتی فیصلوں کا نہیں ‘ بنیادی عوامل کچھ اور بھی ہیں ۔آرمی چیف کا بیان ان سب کا احاطہ کرتا ہے۔ فوج کہتی ہے کہ اس نے رویہ بدلا لیکن اس بدلے ہوئے رویے کی تعریف نہیں ہورہی ہے ‘ الٹا اس سے ماضی کا حساب چکایا جارہا ہے ۔ جنرل کیانی نے 2008ء کے انتخابات سے فوج کو دور رکھا اور جنرل اسلم بیگ شاید درست کہتے ہیں کہ اگر وہ مداخلت کرتے تو آج بھی پرویز مشرف صدر اور پرویز الٰہی وزیراعظم ہوتے ۔ شاید نہ چیف جسٹس بحال ہوتے اور نہ ایوان صدر میں آصف علی زرداری جلوہ افروز ہوتے۔ اسی طرح انہوں نے سویلین محکموں سے فوجی افسران کو واپس بلایا اور یہ ہدایت جاری کی کہ جو جرنیل سیاستدان بن گئے ہیں ‘ ان کو فورسز کی تقریبات میں سیاستدان کی حیثیت سے بلایا جائے۔ لیکن فوج کو گلہ ہے کہ اس کی اس روش کوسراہنے کی بجائے الٹا سول سوسائٹی ‘ سیاستدانوں ‘ میڈیا اور عدلیہ پرویز مشرف کے دور کا حساب برابر کرنے لگے۔ وہ سیاستدان جو ماضی میں فوجیوں کے بوٹ پالش کرتے ہوئے ایوان ہائے اقتدار تک پہنچے تھے‘ بھی اپنے امیج کی بحالی کی خاطر جمہوریت کے چیمپئن بن کر فوج اور اس کے اداروں پر تبرا بھیجنے لگے ۔ بحالی سے قبل چونکہ اعلیٰ عدلیہ بھی ہمیشہ فوج کے مہرے کے طور پر استعمال ہوتی رہی اور ججوں کی اکثریت ان لوگوں کی تھی جو پرویز مشرف سے پی سی او کے تحت حلف لے چکے تھے‘ اس لئے وہ بھی سنجیدہ فیصلے دینے کی بجائے احساس گناہ مٹانے کے لئے سماعتوں کے دوران فوج اور اس کے اداروں کے خلاف انقلابی کمنٹس دیتے رہے ۔ میڈیا کے بعض سرخیل جن کی صحافت ایجنسیوں کے گملوں میں کاشت ہوکر تناور درخت بن چکی اور جو عمر بھر اسٹیبلشمنٹ کی فرسودہ اور تباہ کن ہندوستان اور افغان پالیسیوں کے وکیل رہے ‘ بھی اپنے امیج کی بحالی کی خاطر فوج اور اس کے اداروں کو آنکھیں دکھانے لگے ۔ سیاسی قیادت نے اپنے آپ کو افغان اور کشمیر پالیسیوں کی تبدیلی کا اہل ثابت کیا اور نہ بلوچستان یا قبائلی علاقوں سے سیکورٹی فورسز کی واپسی کا راستہ ہموار کیا لیکن نہ وہ بلوچستان میں سیکورٹی فورسزکی کارروائیوں کواون (Own) کررہی ہے اور نہ فاٹا میں ۔ بلوچستان میں ایف سی کے رویے پر بھی تنقید ہوسکتی ہے لیکن کیا اس کا کردار وزیراعلیٰ بلوچستان اور ان کی کابینہ کے کردار سے زیادہ شرمناک ہے؟ اب وزیراعلیٰ اور ان کے وزراء کے کرتوتوں کا تو کوئی ذکر نہیں کررہا لیکن وہ ایف سی جو سیاسی قیادت کے حکم پر یا پھر اس کی نااہلی کی وجہ سے بلوچستان میں بیٹھی ہے‘ کو روز گالیاں پڑرہی ہیں ۔ قبائلی علاقے جہاں فوجی مررہے ہیں‘ میں ہونے والی بے انتہاکرپشن کے کروڑوں روپے ایوان صدر سے لے کر گورنرہاؤس تک پہنچ رہے ہیں لیکن افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر اور قبائلی علاقوں کے چیف ایگزیکٹو محترم آصف علی زرداری نے آج تک قبائلی علاقوں کے کسی ایک انچ پر بھی قدم نہیں رکھا۔ پورے پاکستان اور بالخصوص فاٹا ‘ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں جو اودھم مچا ہے‘ وہ ہماری ناقص افغان اور کشمیر پالیسیوں کی وجہ سے ہے ۔ اسفند یار ولی خان قومی اسمبلی کی خارجہ امور کمیٹی اور مولانا فضل الرحمان کشمیر کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے وفاقی وزراء کی مراعات لے رہے ہیں ۔ وہ دونوں بتائیں کہ ان حوالوں سے ان کی کیا کارکردگی ہے؟ سوات آپریشن کو مکمل ہوئے عرصہ گزر گیا لیکن آج تک صوبائی حکومت انتظام اپنے ہاتھ میں لے سکی اور نہ وہاں حسب وعدہ اپنا عدالتی نظام نافذ کرسکی ۔ صوبے کی اعلیٰ سیاسی شخصیت نے کروڑوں کے کمیشن کی خاطر دارالقضاء کے لئے عالیشان عمارت تو صوبائی حکومت کے ذریعے خرید لی لیکن آپریشن کے دوران گرفتار ہوئے ہزاروں افراد میں سے ابھی تک پچاس بندے بھی عدالتوں میں پیش نہیں کئے جاسکے۔ سیکورٹی فورسز کی صفوں میں غصہ اصلاً ان چیزوں کا ہے اور انہی ایشوز کی بنیاد پر فوجی قیادت پر اندر سے دباؤ بڑھ رہا ہے ۔ جہاں تک ریٹائرڈ جرنیلوں کے مقدمات کا تعلق ہے تو اس حوالے سے فوج کا شکوہ یہ ہے کہ سیاستدان اپنی ماضی کو تو بھلاکر نئے سفر کی بات کررہے ہیں لیکن فوج کے ماضی کو بھلانے پر تیار نہیں ۔ ا سے شکوہ ہے کہ خود عدلیہ تو کہہ رہا ہے کہ اس کے ماضی کو یاد نہ کیا جائے اور وہ مصر ہے کہ پی سی او کے تحت حلف ہو یا پھر جنرل مشرف کو وردی میں انتخاب لڑنے کی اجازت ‘ سب چیزوں فراموش کردیا جائے لیکن فوجی شخصیات کی ماضی کو کرید رہا ہے ۔اسے شکوہ ہے کہ جس نیب اور ایف آئی اے پر ارسلان افتخار کے کیس کے معاملے میں اعتماد نہیں‘ جرنیلوں کے معاملات کو ان کے سپرد کیا جارہا ہے ۔ اس معاملے میں یہی شکوہ ان کو میڈیا سے بھی ہے ۔ وہ کہتی ہے کہ آئی جے آئی سے لے کر ایم ایم اے تک‘ ہر معاملے میں میڈیا کے بعض لوگ ملوث رہے ۔ افغانستان ہو یا کشمیر‘ ہر معاملے میں یہ لوگ کارندے رہے لیکن اب اپنے ماضی کو بھلا کر وہ صرف جرنیلوں کے ماضی کو ٹٹول رہے ہیں ۔ عدلیہ‘ سیاستدانوں اور میڈیا کو چاہئیے کہ وہ مذکورہ حوالوں سے فوج کے خدشات اور شکایات کو توجہ دے لیکن بعض حوالوں سے فوج کو بھی اپنے رویے پر نظرثانی کرنی ہوگی ۔ مثلاً ملک میں یہ تاثر عام ہے کہ ہر ریٹائرڈ آفیسر کے خلاف کارروائی کو فوج اپنے خلاف حملہ تصور کرتی ہے ۔ مثلاً جنرل جاوید اشرف قاضی اور جنرل سعیدالظفروغیرہ کا معاملہ کہاں سے ادارے کا معاملہ بن گیا۔ جنرل جاوید اشرف قاضی نے ایک سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کی ہے ۔ وہ فوج کے نمائندے کے طورپر نہیں بلکہ ایک فرد کی حیثیت سے وزیربنے تھے ۔ آج وہ جنرل کیانی کے نہیں بلکہ چوہدری شجاعت حسین کے زیرکمانڈ ہیں ۔ یوں ان کے معاملے میں اداروں کو ملوث کرنا خود اداروں کے لئے نقصان دہ ہوگا۔ آج جنرل قادر بلوچ مسلم لیگ (ن) میں ہیں ۔ کل وزیریا مشیر بن کر اگر وہ کسی بدعنوانی کے مرتکب قرار پائے تو کیا ہم تب بھی ان سے اس بنیاد پر بازپرس نہیں کریں گے کہ وہ ایک ریٹائرڈ جنرل ہیں؟ فوج کو اس حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کردینی چاہئے کہ کس کس فرد اور کس کس کیس سے متعلق اس کو تشویش ہے اور کس معاملے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ عسکری اداروں کو چاہئے کہ وہ اپنے ریٹائرڈ لوگوں کوبھی کنٹرول کرلیں ۔ جنرل حمید گل روزانہ سینہ تان کر کہا کرتے تھے کہ انہوں نے آئی جے آئی بنائی اور اسے عدالت طلب کیا جائے ۔ اب اگر اس کو طلب کیا جاتا ہے تو اس میں کسی اور کا کیا قصور ؟۔ دنیا جانتی ہے کہ خود جنرل حمید گل اور جنرل اسلم بیگ وغیرہ ‘جنرل پرویز مشرف کوکن القابات سے یاد کرتے ہیں ؟۔ جب ان کے فرمودات فوج کی توہین نہیں تو پھر خود ان دونوں کے کردار پر اعتراض فوج کی توہین کہاں سے بن جاتی ہے ؟ جہاں تک اضغر خان کیس کا تعلق ہے تو اس کی تفصیل یوں کہ ایک ریٹائرڈ میجر جنرل یعنی نصیراللہ بابر نے یہ معاملہ اٹھایا ۔ ایک ریٹائرڈ جنرل یعنی اسددرانی نے اپنی کمانڈ کے خلاف بیان حلفی جمع کرایا ‘ ائرفورس کے ایک سابق سربراہ ائرمارشل (ر) اصغر خان عدالت میں گئے ۔ ایک اور ریٹائرڈ جنرل اسلم بیگ اور ایک ریٹائرڈ بریگیڈئر نے وہاں بیانات جمع کرائے اور آرمی چیف کے ٹیلی فون کال سے بحال ہونے والے چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے دو سابق آرمی آفیسرز اور افواج پاکستان کے ایک سابق سپریم کمانڈر کو آئین شکنی کا مرتکب قرار دے دیا۔ اب اگر میڈیا اس فیصلے کا ذکر کرتا یا اس پر تبصرہ کرتا ہے تو اس کا کیا قصور ؟۔ سچ تو یہ ہے کہ ہر ادارے نے اپنی اپنی جگہ غلطیاں کی ہیں اور ہر ایک آج بھی اپنی اپنی جگہ کسی نہ کسی حد تک اپنے حدود سے تجاوز کررہا ہے ۔ اسلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ مباحثوں کی بجائے اداروں کے مابین حقیقی مکالمے کا اہتمام کیا جائے اور مذکورہ تمام حوالوں سے ایک دوسرے کے خدشات اور توقعات کو سمجھا جائے تاکہ ہم ایک اور حادثے سے بچ جائیں بلکہ ایک نئے سفر کا آغاز ہوسکے ۔ابھی تک صرف مباحثے ہورہے ہیں اور میں التجا مکالمے کی کررہا ہوں ۔ مباحثہ طول پکڑے گا تو فساد ہوگا اور اداروں کے مابین مکالمہ ہوگا تو اصلاح احوال کا راستہ نکلے گا۔
تازہ ترین