• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
محترم چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری صاحب اور آرمی چیف جنرل کیانی صاحب نے آئین اور قانون کی بالا دستی کی بات کی ہے۔ ان دونوں شخصیات کو اس پر بات کرتے سن کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ بات پاکستان میں پہلی مرتبہ کی گئی ہو اور ان کے فرامین سے پہلے کسی کوآئین اور قانون کی اہمیت کا علم ہی نہ ہو۔ اگر آئین کی پاسداری کی اہمیت پر روشنی ڈالنا مقصود تھا تو بہت مختصر مگر موثر انداز میں بھی بات کی جا سکتی تھی۔ بہتر ہوتا اگر انگریزی ادب کے عظیم مضمون نگار سر فرانسس بیکن کی نصیحت … ”ایک بسیار گو جج اپنے منصب پر نہیں جچتا ہے“… پر توجہ دی جاتی۔ اگر میری بات ناگوار نہ گزرے تو کہنا چاہوں گا کہ بیکن کے جس مضمون ”Of Judicature“ کا میں نے حوالہ دیا ہے، اُسے تمام ہائی کورٹس، خاص طور پر سپریم کورٹ ، کی داخلی گزرگاہوں پر آویزاں کر دیا جائے تاکہ وہاں سے گزرنے والے اس سے دانائی حاصل کر سکیں۔ سرفرانسس بیکن کا کہنا ہے․․․ ”جج صاحبان کو یاد رکھنا چاہیے کہ اُن کا کام قانون سازی نہیں بلکہ قانون کی تشریح کرنا ہے۔ اُن کی طرف سے قانون سازی کی کوشش کرنا چر چ آف روم کا حکومت چلانے کے مترادف ہے“․․․ ہم شاید اس ”منزل “ کے قریب ہیں کیونکہ ہر روز جاری کئے جانے والے عدالتی فرامین مذہبی احکامات کے مترادف ہونے کا تاثر دیتے ہیں۔ انگریزی نثر کو جدت اور توانائی عطاکرنے والے مضمون نگار اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں…”منصفین کو علم ہونا چاہیے کہ سلیمان کے تخت کے اطراف میں بیٹھے ہوئے شیر اس کی حفاظت کرتے تھے ، اسی طرح جج صاحبان شیروں کی طرح حکومت کا تحفظ کرتے ہیں ، مگر شیر بہرحال تخت پر جاگزیں نہیں ہوتے۔ وہ ریاست کے امور میں مداخلت نہیں کرتے۔“آج کے دور میں تخت کے نیچے ہونے کا صاف مطلب آئین کے تحت ہونا ہے۔ اب آئین کے مطابق سپریم کورٹ مطلق العنان نہیں بلکہ حکومت کے بنائے گئے آئین کے تابع ہے۔ ہم میں سے بہت سوں نے کسی نہ کسی سطح پر عدلیہ کی بحالی کی معرکتہ لآرا تحریک میں اپنا کردار ادا کیا تھا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم نے عدالت کو کوئی الہامی قوت عطاکرنے کے لیے جدوجہد کی تھی ؟
آئی ایس ایس پی آر کا حالیہ بیان یہ تاثر دیتا ہے کہ فوجی قیادت عدلیہ کی طرف سے اپنی حدود سے تجاوز کرنے پر چراغ پا ہے۔ اس کا کہنا ہے…” کسی کی طرف سے اپنے آئینی کردار سے تجاوز کرنے کی کوشش ہم سب کے لیے نقصان دہ ہوگی۔“یہ بات کوئی تعجب خیز نہیں ہے کیونکہ این ایل سی، رائل پام اور اصغر خان کیس کے فیصلے نے دفاعی قیادت کو پریشان کر دیا ہے۔ حالیہ پریس ریلیز کو بھی آئین کی پاسداری کا رنگ دیا کیا گیا ہے لیکن جنرل صاحب جانتے ہیں کہ اگر کسی حقیقی جمہوریت رکھنے والے ملک کا آرمی چیف ایسے بیانات جاری کرتا تو وہ اب تک گھر جا چکا ہوتا کیونکہ آئین آرمی چیفس کو آئین کی بالا دستی پر لیکچر دینے کی اجازت نہیں دیتا۔ تاہم پاکستان میں ایسی مثالی صورت ِ حال نہیں پائی جاتی ہے۔یہاں ایک طویل عرصے تک فوج کی حکمرانی رہی ہے اور یہاں آج بھی قومی سلامتی کے اہم امور پر فیصلہ کن حکم فوجی قیادت کا ہی چلتا ہے۔ یہ وہ ملک ہے جہاں فوجی جنرل اسی پیرائے میں اُس وقت تک بات کرتے رہیں گے جب تک یہاں کی سیاسی قیادت ذہنی بلوغت حاصل نہیں کرلیتی اور جمہوریت مستحکم بنیادوں پر استوار نہیں ہوجاتی۔ اگر سیاسی جماعتیں قومی سلامتی پر بہتر اور زیادہ منطقی پیرائے میں بات کرنے کی اہل ہوں تو دفاعی اداروں کی طرف سے یکطرفہ طور پر مستعمل معنی تبدیل ہوجائیں گے۔ تاہم افسوس، زیادہ تر سیاست دان قومی سلامتی جیسے امور پر بھی چیخ وپکار کرنا ہی جانتے ہیں، اُن کے پاس استدلال پر مبنی کوئی پالیسی نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ فوجی قیادت نہایت آسانی سے اُن سے اپنی بات منوا لیتی ہے۔ سابقہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل پاشاصاحب کو دومرتبہ پارلیمنٹ کے ان کیمرہ اجلاس میں بلایا گیا۔ دونوں مواقع پر اُنھوں نے جس مہارت سے پارلیمنٹ کو ”چلایا“ ، کوئی ماہر ہدایت کار بھی ایسا نہیں کر سکتا تھا۔ دوسرے موقعہ وہ تھا جب بن لادن کے ایبٹ آباد کے ٹھکانے پر امریکی کمانڈوز حملہ آور ہوئے تھے۔ مگر اُنھوں نے جس فقید المثال نغمگی سے اس واقعہ کو حب الوطنی کے سروں میں سمو دیا، اس سے بیشتر، خوش قسمتی سے تمام نہیں، ارکان پارلیمنٹ وجد میں آگئے۔ مدت پوری ہونے کے بعد اگر پاشاصاحب میدان ِ سیاست میں قدم رکھ لیں تو بہت کامیاب ہوں گے کیونکہ بہت عمدہ مقرر ہیں۔
اب زیر ِ بحث مسئلے کی طرف آتے ہیں: ہمارے مسائل پہلے ہی صحرائے گوبی کی وسعت اور ہیبت کو چیلنج کررہے تھے ، اب کچھ فلسفیانہ مسائل بھی بگولوں کی طرح سر اٹھارہے ہیں۔ سپریم کورٹ کی بالا دستی کا احساس(کم و بیش ہر روز) دلاتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ محترم چیف جسٹس قوم کی اخلاقیات کے نگہبان بن چکے ہیں۔ سنیئر سرکاری افسران کے تربیتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اُنھوں نے فرمایا…”ایسا لگتا ہے کہ قومی سطح پر اہم امور کی انجام دہی کے لیے درکار مربوط کوششوں کا فقدان ہے۔“بین السطور یہ ہے کہ اب یہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی ذمہ دار ی ہے کہ آئین اور قانون کے نگہبان ہونے کے ناتے وہ ”اہم امور“ وہ خود سرانجام دے لیں ہمیں یہ تو سوچنا چاہئے کہ عدلیہ کو یہ کردار کس نے سونپا ہے ؟کیا اس کا یہ آئینی فریضہ ہے کہ وہ قومی سطح کے معاملات ، یا ان کو سرانجام دینے میں کوتاہی، پر بیانات دئیے جائیں ؟دوبارہ بیکن کا حوالہ یاد کریں کہ جج صاحبان کا کام قانون کی تشریح ہے، قانون سازی نہیں ہے۔ عدالت کی طرف سے آئین کی نگہبانی کی سند اتنی ہی کافی ہے کہ وہ اب یا مستقبل میں کبھی ہونے والی فوجی مداخلت کی توثیق نہ کرے۔ ویسے تو ہماری تاریخ ایسے سانحات سے لبریز ہے مگر زیادہ ماضی میں نہ بھی جائیں تو چند سال پہلے عدلیہ نے جنرل مشرف کی طرف سے جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی توثیق کر دی تھی اور اُس بنچ میں موجودہ چیف صاحب بھی شامل تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اب وقت بدل گیا ہے اور موجودہ عدلیہ کارویہ ماضی کی نسبت مختلف ہے…․․․ کم از کم لگتا تو ایسا ہی ہے۔ پھر بھی ماضی کے کاموں پر ندامت محسوس کرنا بری بات نہیں ہے ۔ ہمارے ہاں تو ہر ادارے نے جی بھر کے اپنا ”کردار“ ادا کیا ہے، اس لئے اگر پتھر پھینکنا ناگزیر ہے، تو مناسب یہی ہے کہ یہ ایسا آہستگی سے کیا جائے۔ ماضی میں دفاعی اداروں کے افسران نے ملک کا بہت نقصان کیا ہے، چنانچہ اس موضوع کو نہ ہی کریدا جائے تو بہتر ہے ، لیکن خدارا، ایک بات کو فراموش نہ کیا جائے کہ اُن کی موثر معاونت کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ جج صاحبان اور سیاست دان ہی تھے۔ اگر عدلیہ یہ سمجھتی ہے کہ عدلیہ کی بحالی کی تحریک سے اُس کی ساکھ بحال ہوچکی ہے تو فوج نے بھی بہت سی قربانیاں دی ہیں اور شہدا کا خون اتنا بھی ارزاں نہیں ہوتا کہ ماضی کی غلطیوں کی تلافی نہ کر سکے۔ ایک بات یاد رہے کہ کوئی فوج ، چاہے وہ زمانہ ٴ امن میں بیرکوں میں ہو، یہ پسند نہیں کرتی کہ اُس پر تنقید کے نشتر چلائے جائیں، اور ہماری فوج تو اس حالت میں ہے کہ مشرقی سرحد سے لے کر سیاچن کی برف پوش چوٹیوں تک اور مغربی دشوار گزار علاقوں میں کئی سال سے نہایت مشکل اپریشنز میں مصروف ہے۔کیا یہ مناسب ہے کہ ایک فوج جو حالت ِ جنگ میں ہو ، اُس کو ماضی کے کسی کام کی وجہ سے شرمندہ کیا جائے ؟
یہ درست ہے کہ احتساب ہوناچاہئے، مگر پھر سب کا ہونا چاہیے…اس معاملے میں کسی سے بھی اغماض نہ برتاجائے۔ اگر فوج کے جنرلوں کو ماضی کے گناہوں کی پاداش میں کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے تو یہ ایک اچھی اور صحت مند روایت ہے ، لیکن پھر کوئی بھی مقدس گائے نہیں ہے… سیاست دان، ملکی دولت لوٹ کر دولت کے انبارلگانے والے، جج ، سرمایہ دار، سب کا احتساب ہونا چاہیے۔ اس مملکت ِ خداداد میں۔ اور ہم یہ کہتے نہیں تھکتے، میں کیا کچھ نہیں ہوتا رہا، چنانچہ اس حمام میں کسی کو بھی ”استثنا“ حاصل نہیں ہونا چاہے۔ جنوبی افریقہ نے جتنے مشکل حالات بردشت کیے ہیں، ہم اُس کا تصور بھی نہیں کرسکتے ، لیکن جب سیاہ فاموں کو نیلسن منڈیلا کی قیادت میں آزادی نصیب ہوئی تو وہ عمررسیدہ رہنما ماضی کے زخموں کو کریدنے کی بجائے ان پر مرہم رکھنے کے لئے رواداری اور افہام و تفہیم کی تبلیغ کرنے لگا۔ دوسری طرف ہمارا ظرف دیکھیں، اگر ہمیں طاقت اور اختیار نصیب ہوجائے تو ہماری مجاہدانہ یلغار کے سامنے کسی سکندر،کسی رستم (بلکہ کسی معقولیت) کی کیا اوقات !اس بیان کایہ مطلب نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے کئے گئے اچھے اقدامات بھلا دیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری صاحب نے وہ کام بھی کیے ہیں جن کے بارے میں دوسرے سوچنے سے بھی گھبراتے ہیں، لیکن دانائی اسی میں ہے کہ اپنی حدود کا خیال رکھا جائے۔ تقریباً ہر روز جج صاحبان کی طرف سے قومی امور پر بیانات سننا یہ تاثر دیتا ہے کہ وہ ملک چلانے والی پالیسی ساز اتھارٹی بن چکے ہیں۔ ہمیں جنرل صاحبان کی حکمرانی کا طویل تجربہ ہے، نااہل قیادت کا جادو بھی یہاں سرچڑھ کر بولتا رہاہے (یہ فیض جاری رہے گا) اور اب ”اخلاقیات “ کو میدان ِ کارزار میں دیکھ کر لگتا ہے کہ شیخ سعدی کے ہاتھ میں سعد بن زنگی کی شمشیر ِ برہنہ آگئی ہے۔ جب رومن شہنشاہ سیزر پر ہر طرف سے تعریف و توصیف کے ڈونگرے برسائے جارہے تھے تو پاس کھڑے ایک غلام نے شہنشاہ کے کان میں چپکے سے سرگوشی کی․․․”یاد رکھو سیزر، تم ایک فانی انسان ہو۔“ افسوس، ہمارے انبوہ میں کوئی بھی ”رومن غلام“ جیسی جرات ِ رندانہ نہیں رکھتا ہے․․․ہر طرف شور و غل مچانے والے ناقد یا خطیب ہیں مگر معقولیت کی بات کرنے والا کوئی نہیں ہے۔
تازہ ترین