• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایسے موقع پر جب پاکستان اپنی تاریخ کا نیا موڑ مڑ رہا ہے، پارلیمینٹ جیسے تیسے اپنے پانچ سال پورے کر رہی ہے اور عام انتخابات انگریزی محاورے کے مطابق ایک بازو کے فاصلے پر ہیں، سیاسی جماعتوں کے مابین الفاظ کی جنگ میں تندی و تیزی تو فطری ہے لیکن اس موقع پر ریاستی اداروں میں تصادم کا تاثر اندیشہ ہائے دور دراز کا باعث بن گیا، دلوں کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں، کیا ہم کسی نئے بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں اور کیا تاریخ کے اس نازک مرحلے پر پاکستان کسی نئے بحران کا متحمل ہو سکتا ہے؟
نیشنل مینجمنٹ کورس سے جناب چیف جسٹس کا خطاب جی ایچ کیو میں سینئر فوجی افسران سے آرمی چیف کی گفتگو سے دو گھنٹے پہلے ہو چکا تھا لیکن میڈیا تک بعد میں پہنچا جس سے یہ تاثر ملا، جیسے آرمی چیف کے مصرع طرح پر چیف جسٹس صاحب نے گرہ لگا دی ، بلکہ پوری غزل کہہ دی ہے۔ ظاہر ہے یہ لکھی ہوئی تقریر تھی جو بہت پہلے تیار ہو چکی تھی۔ اسی طرح آرمی چیف نے جو گفتگو کی، اسے بھی چیف جسٹس کی تقریر کا جواب الجواب قرارنہیں دیا جا سکتا کہ اس اہم گفتگو ،جسے پالیسی بیان بھی کہا جا سکتا ہے ، کے نکات اور الفاظ کا تعین بھی پہلے سے ہو چکا ہو گا۔کسی نے کب کہا؟ اس سے قطع نظر، دونوں نے جو کچھ کہا، وہ اپنی جگہ اہم تھا۔ یہ کہتے ہوئے کہ فوجی قیادت اور سپاہ میں تقسیم کی کوششیں برداشت نہیں کی جا سکتیں، فوجی سربراہ کا اشارہ کس طرف تھا؟ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ جرم ثابت ہونے سے پہلے ملزم کو مجرم نہیں ٹھہرایا جا سکتا اور یہ بھی کہ افراد کی غلطیوں پر اداروں کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں۔ تو کیا ان کا اشارہ اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کی طرف سے سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل درانی کے خلاف کارروائی کے حکم کی طرف تھا۔ لیکن سپریم کورٹ نے تو واضح طور پر لکھا ہے کہ 1990ء کے انتخابات میں سیاستدانوں کو رقوم کی تقسیم کا معاملہ ان دونوں کا ذاتی فعل تھا جس سے ان کے اداروں، پاک آرمی اور آئی ایس آئی ،کا کوئی تعلق نہیں تھا (اگرچہ یہ بات سمجھنا اور ہضم کرنا، بہت سوں کے لیے بہت مشکل ہے)اور یہ جو ملزم اور مجرم میں فرق کی بات ہے تو کیا اس میں اشارہ لاہور میں ریلوے کی زمین کی سستے داموں لیزاور این ایل سی کے معاملات میں ریٹائرڈ جرنیلوں کے خلاف الزامات کی تحقیقات پر، میڈیا کے رویے کی طرف تھا؟ریلوے کی زمین کے سیکنڈل کی تحقیقات نیب کر رہا ہے، جبکہ این ایل سی سکینڈل کا معاملہ خود فوج نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے؟
آرمی چیف کی گفتگو کا بیشتر حصہ ایسا ہے جس سے کسی طور اختلاف نہیں ہو سکتا۔ قومی مفاد کا تعین کسی ایک ادارے کا کام نہیں، یہ قومی اتفااق رائے ہی سے ممکن ہے(اس سے پہلے ”قومی مفاد“ کے تعین میں بنیادی رول عسکری اداروں کا رہا ہے) آرمی چیف کا یہ اعتراف بھی قابل تحسین ہے کہ ماضی میں سب سے غلطیاں ہوئیں۔ادھر چیف جسٹس صاحب کی اس بات سے بھی کسے اختلاف ہو گاکہ آج کے دور میں قومی استحکام صرف میزائلوں اور ٹینکوں پر منحصر نہیں۔ (اس کے لیے کئی دیگر عوامل بھی ضروری ہیں)
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ان پونے پانچ برسوں میں سیاسی عمل اگر ڈی ریل نہیں ہوا اور جمہوریت کی گاڑی جیسے تیسے چلتی رہی ہے تو اس کے کریڈٹ کا ایک حصہ ہماری عدلیہ اورمسلح افواج کی قیادت کو بھی جاتا ہے۔ چیف جسٹس بار بار یاد دہانی کراتے رہے کہ آئین اور جمہوریت کو پامال کرنے والا نظریہ ضرورت بہت گہرا دفن ہو چکا، اب عدلیہ کسی پی سی او کی توثیق نہیں کرے گی۔زیادہ دن نہیں ہوئے جب انہوں نے کوئٹہ میں اپنے خطاب میں کہا تھا کہ اسلام آباد افواہوں کی زد میں ہے لیکن ہم ہر صورت میں آئین کا تحفظ کریں گے۔ اس سے اگلے روز انہوں نے اسلام آباد میں باقاعدہ بنگلہ دیش ماڈل کا نام لیا اور کہا کہ پاکستان میں اس کی کوئی گنجائش ، کوئی امکان نہیں۔ ادھر آرمی چیف بھی آئین اور جمہوریت سے اپنی وابستگی کا واشگاف اظہار کرتے رہے ہیں۔ آئی ایس آئی کو رحمن ملک کی وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کی مزاحمت، کیری لوگر بل پر کور کمانڈرز میٹنگ میں تحفظات کا اظہار اور اس کے لیے باقاعدہ آئی ایس پی کی پریس ریلیز، میمو گیٹ پر، حکومتی موقف کے برعکس آرمی چیف اور ڈی جی اآئی ایس آئی کے بیانات کے باوجود مسلح افواج کی قیادت اپنے رویے سے جمہوری عمل کے لیے تقویت کا باعث رہی ہے۔ نواز شریف کے تاریخی لانگ مارچ کے موقع پر بھی آرمی چیف نے جس طرح اپنا وزن عدلیہ بحالی کے حق میں ڈال دیا، اس کا اعتراف نہ کرنا بھی زیادتی ہو گی۔
ملک میں جمہوری عمل کے تسلسل میں اہم ترین حصہ نواز شریف کی زیر قیادت حزب اختلاف کے ذمہ دارانہ اور دانشمندانہ کردار کا بھی ہے۔دونوں چیفس کے حالیہ بیانات سے پیدا ہونے والی تشویشناک فضاء میں نگاہیں ایک بار پھر نواز شریف کی طرف اٹھیں، اس موقع پر ان کا متوازن بیان ماحول کو خراب تر کرنے کی بجائے فضا کو معمول پر لانے کا باعث بنا ہے۔ انہوں نے ایک طرف افواج پاکستان کو قومی سلامتی اور دفاع کی علاامت قرار دیتے ہوئے اسے مضبوط و مستحکم کرنے کی بات کی اور اس میں رخنہ ڈالنے، اسے تقسیم کرنے کی ہر کوشش کو ملکی مفاد کے منافی ٹھہرایا تو دوسری طرف آئین و قانون کی سربلندی کے لیے عدلیہ کے کردار کی کھلے دل سے تحسین کی۔ انہوں نے آئین کی تشریح سے متعلق عدلیہ کے اختیار کو حتمی قرار دیتے ہوئے اسے کمزور کرنے کو آئین و قانون کیلئے اور ملک کو جنگل بنا دینے کے مترادف قرار دیا۔ بعض دانشور اس بیان کو سول ملٹری ریلیشن کے حوالے سے میاں صاحب کے موقف میں تبدیلی قرار دیتے ہیں (ہمارے ایک دوست نے تو اسے یوٹرن بھی قرار دیدیا) سول ملٹری ریلیشن سے متعلق میاں صاحب کا موقف اور کردار ایک الگ موضوع ہے ، ہمارے خیال میں تو ان کا اختلاف مسلح افواج سے نہیں، اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی رول سے ہے۔ انہیں جرنیلوں سے نہیں بلکہ ان مٹھی بھر طالع آزماؤں سے شکایت رہی ہے جو خود کو آئین سے بالا تر سمجھتے رہے ۔وہ قومی سلامتی کے معاملات میں بھی فوجی قیادت سے مشاورت کے نہیں بلکہ اس کی ڈکٹیشن کے خلاف رہے ہیں۔
تازہ ترین