• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قطع نظر اس بحث کے کہ پانی اور بجلی کی فراہمی بڑھانے کے لئے ریاست کے کون سے اداروں کو قانونی سطح پر اقدامات اٹھانے چاہئیں یہ جان لینا ضروری ہے کہ کیا پاکستان میں ان کی ضرورت ہے بھی یا نہیں۔ مزید برآں اس مسئلے کو تکنیکی سیاق و سباق میں جانچ کر یہ بتانا فائدہ مند ہوگا کہ اگر ڈیم اشد ضروری ہیں تو ان کی تعمیر کے لئے کس طرح کا راہ عمل اختیار کیا جا سکتا ہے۔ ابھی تک پانی اور بجلی کے سلسلے میں جو بیانیہ میڈیا اور عدالتوں میں پیش کیا گیا ہے اس میں بہت سے سقم ہیں جن کی نشاندہی کرنا ضروری ہے۔
پاکستان کے میڈیا میں یہ بیانیہ غالب ہے کہ ملک میں پانی کی شدید قلت ہے ۔ اس بیانیے میں یہ مضمر ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اسے زراعت میں خود کفیل رہنے کے لئے موجود پانی ناکافی ہے۔ سب سے پہلے تو اس مغالطے کو دور کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ اس طرح کی سوچ پرپچھلی صدی کی چھٹی دہائی کی فکر غالب ہے کیونکہ اس دور میں پاکستان کی قومی آمدنی میں زرعی شعبے کا حصہ 75فیصد سے زیادہ تھا۔ تب ملک کی پچاسی فیصد آبادی دیہات میں رہتی تھی اور اس کا سارا دارومدار زراعت پر ہوتا تھا۔ اب ملکی پیداوار میں زرعی شعبے کا حصہ بیس یا بائیس فیصدتک محدود ہو گیا ہے اور پنجاب کی حد تک شہری آبادی 67فیصد تک بڑھ چکی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پچھلی کچھ دہائیوں میں غیر زرعی شعبوں کی پیداوار میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور عوام کو روزگار کے مواقع بھی نئے ابھرنے والے شعبوں میں میسرہوئے ہیں۔ اگرچہ اب بھی آبادی کے بہت بڑے حصے کا انحصار زرعی شعبے پر ہے لیکن اس پہلو کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ مستقبل میں زرعی شعبے میں روزگار کے وسیلے محدود تر ہوتے جائیں گے۔
اگراس جاری و ساری غلط بیانیے کو تسلیم بھی کر لیا جائے کہ پاکستان کی مستقبل کی خوشحالی کا انحصار زرعی شعبے پر ہے تو پھر بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ پاکستان میں پانی کی شدید قلت کو دور کرنے کے لئے نئے ڈیم تعمیرکر ناناگزیر ہیں۔ ورلڈ بینک کے ماہر ولیم ینگ نے گیارہ نومبر 2017کو ایک مقالے میں لکھا تھا کہ پاکستان میں پانی کی قلت کی ِمتھ (دیو مالائی کہانی) بنیادی طور پر بے بنیاد ہے۔ انہوں نے پانچ عوامل پر مشتمل دلیل دیتے ہوئے یہ دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان پانی جیسے وسیلے میں مالا مال ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پانی وافر مقدار میں موجود ہے لیکن اس کا استعمال بد نظمی کا شکار ہے۔ انہوں نے تجاویز دی تھیں کہ کس طرح نئی ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں میسر پانی سے ہر ضرورت پوری کی جا سکتی ہے۔ قومی دولت کا بہت بڑا حصہ نئے ڈیموں پر صرف کرنے سے پہلے ولیم ینگ کی تحقیق کا بغور مطالعہ کر لینا چاہئے : یہ طے کر لیں کہ کیا ہمیں میسر پانی کے استعمال کی نئی ٹیکنالوجی پر سرمایہ کاری کرنا چاہئے یا نئے ڈیم تعمیر کرنا چاہئیں۔
اب اگر پاکستان میں وافر پانی کے ولیم ینگ کے دعوی کو رد بھی کردیا جائے تو ہمیں مکمل تحقیق کے بعد ڈیم تعمیر کرنے کا فیصلہ کرنا چاہئے تاکہ ہم وہ غلطیاں نہ دہرائیں جن کاارتکاب نیلم جہلم پروجیکٹ میں کیا گیا۔ نہ صرف یہ کہ یہ منصوبہ مکمل ہونے کا نام نہیں لیتا بلکہ اس پر لاگت بھی کئی ارب ڈالر بڑھ چکی ہے۔ اس سلسلے میں کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ غلط مفروضوں کی بنیاد پر بنایا گیا تھا کیونکہ یہاں پانی کا بہاؤ کافی نہیں تھا ۔ خیر اس بحث کو ایک طرف رکھتے ہوئے ہمیں دیکھنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ پاکستان میں کونسے مجوزہ ڈیم معاشی اعتبار سے قابل عمل ہیں اور اس سلسلے میں ہماری ترجیحات کیا ہونی چاہئیں۔
اگر عملی سطح پر دیکھا جائے تو ہمیں سب سے پہلے داسو پروجیکٹ کو مکمل کرنے پر پوری توجہ دینا چاہئے۔ داسو کی منظوری کئی دشوار گزار راستوں سے گزر کر کئی سال کے عرصے میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔ اس منصوبے کے بنیادی لوازمات طے پا چکے ہیں۔ اہم ترین امر یہ ہے کہ اس منصوبے کے لئے مطلوبہ پانچ سے چھ بلین ڈالر کا بندوبست کیا جا چکا ہے۔ یہ منصوبہ پانچ سے چھ سال میں مکمل ہوکر پاکستان میں بجلی کی فراہمی میں خاطر خواہ اضافہ کرے گا۔ لیکن اس منصوبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کی وجہ سے اس پر کام رک چکا ہے یا بہت ہی سست روی سے جاری ہے۔ اس پروجیکٹ کے لئے زمین کی خریداری سے لے کر دوسرے عملی اقدامات پر مستعدی سے کام نہیںکیا جا رہا۔ بعض ماہرین تو مایوسی کے عالم میں یہ بھی کہتے سنائی دیتے ہیں کہ یہ منصوبہ کھٹائی میں ڈال دیا گیا ہے۔
داسو کے علاوہ پاکستان کی ریاست دیامیر بھاشا ڈیم پر بھی کام کی ابتدا کر چکی ہے۔ اگرچہ اس ڈیم کے لئے کچھ زمین وغیرہ بھی حاصل کی جا چکی ہے اور اس کا ڈیزائن بھی مکمل طور پر تیار ہو چکا ہے لیکن اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ اس پر تقریباً 15بلین ڈالر کی خطیر رقم کی سرمایہ کاری درکار ہے۔ یہ منصوبہ پندرہ سال میں مکمل ہوگا اور اگر اس کے لئے بہترین شرطوں پر بھی قرض حاصل کر لیا جائے (جو فی الحال ناممکن نظر آتا ہے) تو سود ملا کر اس کی لاگت 25 بلین ڈالر کے لگ بھگ ہو گی۔ تا حال کوئی عالمی ادارہ اس منصوبے میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے تیار نہیں اور مستقبل قریب میں بھی اس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ یہ منصوبہ چندے سے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پائے گا۔اسی طرح سے منڈا یا مہمند ڈیم ہے جو سائز میں کافی چھوٹا ہے اور کسی حد تک قابل عمل بھی ہے لیکن ہماری اطلاع کے مطابق ریاست کی ایک ایجنسی اس کا بلا مقابلہ ٹھیکہ لینے کی کوشش میں ہے جو مناسب طریق کار نہیں۔
زراعت اور پانی کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے کچھ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر نئے ڈیم بنا کر مزید زمین کو زیر کاشت لانا ہے تو یہ سود مند حکمت عملی نہیں ہے۔ اگرچہ نئی زمینیں آباد کرنے میں کچھ حلقوں کا مفادہو سکتا ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان پہلے ہی آبیانے اور فصلوں پر سبسڈی دینے پر مجبور ہے جو نئی زمینیں آباد کرنے سے مزید خسارے کی صورت میں ظاہر ہوں گی۔ مزید برآں غور کیجیے کہ پاکستان میں جا بجا گندم کے ڈھیر پڑے ہوئے ہیں جن کو برآمد بھی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ جس لاگت پر پاکستان اناج اگاتا ہے وہ عالمی منڈی سے کہیں زیادہ ہے۔یہی حال دوسری دو فصلوں یعنی چاول اور گنے کا ہے،ان کی پیداواری لاگت بھی عالمی منڈی سے کہیں زیادہ ہے۔اس سلسلے میں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ زیر کاشت زمینیں بڑھانے سے کس مقدار میں روزگار میں اضافہ ہو سکتا ہے؟ ماہرین کا خیال ہے کہ زمینوں کی نئی آبادکاری سے، روایتی فصلیں (گندم، گنا اور چاول)اگا کر ، روزگار میں بہت محدود اضافہ ممکن ہے۔ اس پہلو سے یہ غور کرنا ہوگا کہ کیا 25بلین ڈالر ایک ڈیم کی تعمیر پر خرچ کئے جائیں یا ریاست ان شعبوں میں سرمایہ کاری کرے جو مستقبل میں بڑے پیمانے پر روزگار کا ذریعہ بنیں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین