• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی صحافت کے پرنٹ اور الیکٹرانک دونوں شعبوں میں سہیل وڑائچ کا مقام و مرتبہ تسلیم کیاجاچکا ہے۔ وہ تخلیقی نثر، متوازن تجزیاتی اظہاریے اور اجتماعی تہذیبی مثلث میں قیام اور کردار ادا کرتے ہیں۔
جناب سہیل وڑائچ کی تازہ ترین تصنیف ’’دی پارٹی اِز اوور‘‘ (The Party Is Over) ان کے حال ہی میں لکھے گئے تازہ ترین کالموں کا مجموعہ اور ساتویں کتاب ہے۔ اب تک مندرجہ ذیل ناموں سے ان کی چھ کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں:
(۱) غدار کون؟
(۲) قاتل کون؟
(۳) عدلیہ کے عروج وزوال کی کہانی..... ججوں کی زبانی
(۴) چھوٹے صوبے پنجاب سے ناراض کیوں؟
(۵) مذہبی سیاست کے نقادات
(۶) جرنیلوں کی سیاست
چھ کی چھ کتابوںکا مطالعہ قاری کو ان کے تخلیقی، تحقیقی اور نظریاتی معیار کی ریاضت اور لگن کاایک حیران کن امیج سامنے لاتا ہے!
’’دی پارٹی اِز اوور‘‘ کے عنوان سے ساتویں کتاب میں شائع شدہ متعدد کالموں میں کالم نگار کی ذہنی بیداری قاری کو اپنی فکری اپروچ اورگرفت سے باہر نہیں نکلنے دیتی۔ جیسے:
(۱) سیاست خان بمقابلہ عسکری خان (۲) آج کے دارالشکوہ اورعالمگیر (۳) میکاولی کی نئی کتاب ’’دی خان‘‘ (۴) حسین نواز شریف اور کانکا کا مقدمہ (۵)ڈاکٹر فردوس عاشق کی شان میں (۶) بزدل خان بمقابلہ عسکری خان (۷) سلسلہ عالیہ اکسانیہ (۸) یہاں دیو رہتا تھا (۹) باسٹھ خان، تریسٹھ خان (۱۰) سارا قصور مریم کا ہے (۱۱) منوبھائی کے بعد (۱۲) داراشکوہ ہر بار ہارتا کیوں ہے؟ (۱۳) پہاڑ اور چیونٹی!
’’دی پارٹی اِز اوور‘‘ کالم (جس پر بعد میں بات ہوگی) کے علاوہ یہ منتخب تحریریں بھی آپ کو پاکستان کےتاریخی مینار سماجی اورجمہوری استحصال کی دل فگار داستان کے الم رنگ، چہرے کے سارے بدنصیب خدوخال سے پوری طرح آشنا مضطرب کرتی چلی جاتی ہیں۔
مقتدر عالم دین مفتی منیب الرحمٰن صاحب نے کتاب میں ’’سہیل وڑائچ کی تمثیلی کالم نگاری‘‘ کا باب باندھتے ہوئے ان کے نظریاتی، تحریری، ذاتی اور ذہنی و عملی سراپے کی حد درجہ نتیجہ خیز نقشہ گری کی ہے ۔ ان کا کہنا ہے ’’وہ (سہیل وڑائچ) ٹھنڈے مزاج کے آدمی ہیں۔ متانت، وقار اورٹھہرائو کے ساتھ بات کرتے ہیں۔ نہ چیختے چلاتے ہیںاو ر نہ ہی عُجب نفس میں مبتلا بعض تجزیہ کاروں اور اینکرپرسنز کی طرح خود کو عقل کل سمجھتے ہیں۔ وہ سیاسی تجزیہ نگار ہیں اور یقیناً اپنے نظریات بھی رکھتے ہیں۔‘‘ اور مزیدیہ کہ ’’جناب سہیل وڑائچ تجزیاتی اور طبعی انداز میں ان طبقات کو تاریخ پڑھانا چاہتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ تاریخ میں کیارکھا ہے۔‘‘ 
محترم و مکرم مفتی منیب الرحمٰن صاحب کی اصطلاح سہیل وڑائچ کی تمثیل نگاری کے کالم ’’منو بھائی کے بعد‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ منو بھائی کے اس کالم میں سہیل وڑائچ صاحب ایک منظرنامہ تشکیل دیتے ہیں۔ آپ اس کا ایک رنگ ملاحظہ فرما یئے:
’’اگر دنیا میں صحافت کو انسانی شکل و جسم میں آنے کا موقع ملتا تو وہ ہوبہو منوبھائی کی شکل اورقدوقامت کی ہوتی۔ وہ مجسم صحافت اور مجسم انسانیت تھے۔ صحافت و ادب کے ہر شعبے پران کی مکمل دسترس تھی۔ خبر بنانے سے لے کر اداریہ لکھنے تک اور فیچر سے لے کر کالم نگاری تک ہر صنف صحافت پرانہیں مکمل عبور تھا۔ شاعری اور پھر ڈرامہ نگاری میں نئے ریکارڈ بناتے مگر ان سب سے بڑھ کر وہ اپنی فقیری، قلندری، درویشی ا ور صبرو قناعت کی وجہ سے بغض و غضب اور غصے و عناد سے خالی، آئیڈیل انسان تھے۔ جمہوریت، انسان دوستی اور ترقی پسندی کے جس راستے پر وہ زندگی بھر چلے وہی اس معاشرے کی فلاح کاواحد راستہ ہے!‘‘
کیا منو بھائی کی تمثیلی تصویر اس کے علاوہ اور کچھ بھی تھی؟
سہیل وڑائچ صاحب کی ساتویں کتاب کا نام ’’دی پارٹی اِز اوور‘‘ (The Party Is Over) کتاب میں موجود ایک کالم کے حوالے سے رکھا گیا۔ اس کالم میں آپ کو ان کے تجزیاتی وژن کی شاید ایک حیرت انگیز جہت سے پالا پڑتا ہے۔ آپ ان کے سیاسی ادراک کے سو فیصد درست بیٹھنے پر خراج تحسین پیش کرنا واقعتاً ان کا استحقاق سمجھنے لگتے ہیں۔ 22جون 2017کو تحریر کئے گئے کالم ’’دی پارٹی اِز اوور‘‘ میں کالم نگار کا سیاسی وژن یہ تھا: ’’ایسا پہلے بھی ہوا ہے اور اب پھر ہونے جارہا ہے۔ قرائن و آثار بتا رہے ہیں کہ موجودہ وزیراعظم نواز شریف کے لئے ’’دی پارٹی اِز اوور‘‘ کی آواز لگ چکی ہے۔ اسکرپٹ میں کوئی تبدیلی نہ آئی تو جولائی اور اگست میں آخری رسومات ہوں گی۔‘‘
گو کالم نگار نے ان سطور کے بعد پاکستان کے عوامی طور پر طاقتور ترین منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کا اسی عنوان ’’دی پارٹی اِز اوور‘‘ کے پس منظر میں تذکرہ کیا ہے۔ یہ 5جولائی 1977 سے دو تین یا تین چارماہ پہلے کا واقعہ ہے جب ذوالفقار علی بھٹو نے غالباً پاکستان کی قومی اسمبلی سے آخری بار خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: ’’وہ کہتے ہیں Party is overمگرمیں اعلان کرتا ہوں "Party is not over" یہ اعلان ایک منتخب وزیراعظم کی جانب سے عوام کے ووٹ سے منتخب حکمرانی کی عزت و وقار کا استعارہ تھا لیکن جس کی خبر بھٹو صاحب کو ملی تھی وہ ان کے انجام تک پہنچتے پہنچتے بظاہر درست ثابت ہوگئی۔ بظاہر اس لئے کہ بھٹو صاحب جسمانی طور پر نہ بچ سکے۔مگر پاکستان پیپلزپرٹی کے سیاسی اثاثے کے بل بوتے پر نہ صرف زندہ رہی بلکہ منتخب قومی اقتدارکا منصب بھی سنبھالا اور ضیاء الحق تاریخ کے ہاتھوں مسترد ہوا۔
بہرطور کالم ’’دی پارٹی اِز اوور‘‘ کالم نگار سہیل وڑائچ کے سیاسی وژن کی واقعیت کو ہمیشہ کے لئے ریکارڈ پر رکھے گا۔ آج جولائی 2018جارہا ہے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد احتساب عدالت کے متوقع فیصلے سے ایک روز پہلے گرفتارکرلئے جاتے ہیں۔ ’’دی پارٹی اِز اوور‘‘ نوشتہ ٔ دیوارہے!
البتہ کالم نگار سہیل وڑائچ صاحب کا اپنی ساتویں کتاب کے کالم ’’پہاڑ اور چیونٹی‘‘ کا اختتامیہ بھی کسی کے لئے نوشتہ ٔ دیوار ہی ہے۔ وہ اپنے کالم ’’پہاڑ اور چیونٹی‘‘ کا اختتام یہاں پہ کرتے ہیں:’’دعا یہی کرنی چاہئے کہ چیونٹی اور پہاڑ کا ساتھ محبت اور تحفظ کا ہو ظلم کا نہ ہو۔ محبت رہے گی تو دونوں چلتے رہیں گے مقابلہ ہوا تو چیونٹیوں کا بیڑہ تو غرق ہوگا مگر پہاڑ بھی کھوکھلا ہو جائے گا۔‘‘
لگتا ہے جناب سہیل وڑائچ کی ساتویں کتاب کا کالم ’’دی پارٹی اِز اوور‘‘ پاکستان کا وہ ساتواں در ہے جس کے کھلنے سے کسی سیلاب کے اندیشے ناممکن نہیں!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین