• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا پاکستانی معاشرے کے طاقتور طبقات کے غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات (اور وہ بھی ماضی کے) پر ان کے احتساب کا وقت آ گیا ہے؟ اصغر خاں کیس پر سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کہ ”حکومت سابق آرمی چیف اور سابق آئی ایس آئی چیف کے خلاف کارروائی کرے“ سے تو یہ ہی ثابت ہوتا ہے کہ بالآخر ملک میں وہ حالات پیدا ہو گئے کہ طاقتور ترین اور احتساب سے بالا سمجھے جانے والے جرنیل قومی سیاست سے از خود باز بھی آ گئے اور ریٹائرڈ جرنیلوں نے ماضی میں جو اپنے اختیارات سے تجاوز کیا، اس پر ان کا احتساب بھی ممکن ہو گیا۔ قطہ نظر اس کے کہ اس پر افواج پاکستان کے موجودہ سربراہ اور سابق جرنیل صاحبان کا ردعمل کیا ہے، سپریم کورٹ نے ریٹائرڈ چیف آف آرمی سٹاف جنرل اسلم بیگ اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کے خلاف کارروائی کے حکم سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ جرنیلوں کا احتساب بھی ممکن ہے۔ ابھی یہ تین طرح ہی ثابت ہوا ہے۔ایک سابق آرمی اور سابق آی ایس آئی چیف کی عدلیہ میں طلبی، پھر ان کا عدالت میں حاضر ہو جانا تیسرے ان کے خلاف ابتدائی فیصلے میں حکومت کو کارروائی کا حکم۔ ابھی احتساب کے اور مراحل بھی ہیں، سب سے بڑا یہ کہ حکومت عدالتی حکم پر عملدرآمد کرتی ہے یا اسے ٹالتی ہے۔ ایک بڑی پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ حکومت نے عدالتی فیصلے کو درست تسلیم کر لیا ہے، جس سے عدلیہ پر اس کا اعتماد قائم ہو گیا ہے جو صرف دو اڑھائی ماہ پہلے صرف ڈگمگایا ہوا ہی نہیں تھا بلکہ ایک جیالے سنیٹر تو عدلیہ کی ساکھ پر بری طرح حملہ آور ہوئے تھے۔ عدلیہ اور میڈیا پر حکمران جماعت کے ایسے ہی مزید حملوں کی خبریں عا م تھیں۔ وزیراعظم کی قربانی دینے کے بعد حکومت نے سوئس حکام کو خط لکھنے کا عدالتی حکم بھی بالآخر تسلیم کر کے، اس پر عملدرآمد کر دیا ہے۔ گویا عدلیہ کے خلاف حکومتی مزاحمت دم بھی توڑ گئی ہے اور وہ عملاً بھی اس کے فیصلوں کو تسلیم کرتی جا رہی ہے۔ اصغر خاں کیس کا فیصلہ جلد آنا اور ریٹائرڈ جرنیلوں کے خلاف آنا پھر سماعت میں جج صاحبان کے ریمارکس، طاقت سے طاقتور طبقے کے خلاف آزاد عدالتی کارروائی کے لئے عدلیہ کو مطلوب مورال حاصل ہوئے جانے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اب اس کا بڑی سے بڑی قانونی کارروائی پورے اعتماد سے کرنے کا رویہ بہت واضح ہے۔ تجزیہ نگار آرمی چیف کے حالیہ غیر معمولی بیان کو بھی (حکومت کی سی) لیکن بہت محتاط اور طریقے سلیقے کی مزاحمت کا اشارہ ہی قرار دے رہے ہیں، لیکن اگلے ہی روز اصغر خاں کیس کا تفصیلی فیصلہ آ گیا اور وہ جرنیل صاحبان کے خلاف ہے جس کے ردعمل میں زد میں آئے ریٹائرڈ جرنیلوں کا لب و لہجہ عدلیہ کی جانب حکومت کے سابقہ رویئے سے مماثلت رکھتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت عدلیہ کے حکم کے مطابق ریٹائرڈ جرنیل صاحبان کے خلاف کارروائی کر سکے گی؟ یا وہ فیصلے کو انتخابی مہم میں ن لیگ کے خلاف سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے کارڈ کے طور پر استعمال کرنے تک ہی محدود رکھے گی۔ اس کا جارحانہ آغاز تو اس نے شروع کر دیا ہے۔ اگر وہ اپنے تبدیل شدہ رویئے کے مطابق عدالتی حکم پر فوری اور مطلوب عملدرآمد کرتی ہے تو اس کے خلاف موجودہ دور کے خلاف آئین و قانون اقدامات اور فیصلوں پر احتساب کے نئے دروازے نہیں کھلیں گے؟ یقینا ایسا ہی ہو گا۔ ن لیگ، پیپلز پارٹی کے جاری دور کے خلاف قانون فیصلوں اور کرپشن پر ایک قانونی جنگ شروع کرنے پر مجبور ہو جائے گی جو اسے اپنے دفاع کے لئے انتخابی مہم کے دوران ہی چھیڑنی ہو گی۔ عدلیہ جو اپنے اعتماد اور ساکھ پر بہت محتاط ہو چکی ہے، ن لیگ یا کسی بھی فرد یا ادارے کی طرف سے دائر کئے گئے حکومت مخالف کیسز میں سرگرم ہو گی۔ اصغر خاں کیس میں تو مرحوم صدر غلام اسحاق خان کا ٹرائل بھی ہو گیا، جو مختلف حیثیتوں میں اپنی دیانتداری اور اہلیت کے باعث بالعموم اچھی شہرت کے حامل رہے۔ ایسے میں پیپلز پارٹی کے (اپنے وقت میں انتہائی متنازعہ) رہنماؤں کی قبریں ٹرائل سے کیسے محفوظ رہ سکیں گی؟ ان کے ماضی کے سیاسی و حکومتی کردار، عدالتوں میں ایسے ہی زیر بحث نہیں آ جائیں گے جیسے اصغر خاں کیس کے حوالے سے مرحوم صدر غلام اسحاق کا کردار؟ قرائن بتا رہے ہیں کہ ملک کی دونوں بڑی روایتی سیاسی جماعتیں انتخابی مہم، کسی پروگرام اور عوام سے نئے عہدو پیماں پر چلانے کی بجائے بلیم گیم سے کام چلائیں گی، جو انتخابی نتائج کو منفی طور پر متاثر کرے گی، لیکن اصل جنگ تو یہ ہو گی کہ دونوں عدالتوں میں کس کس الزام کی تصدیق کراتے ہیں، پھر اسے پکڑ کر اپنے سیاسی ابلاغ میں کیسے لاتے ہیں۔ ایسے میں عمران خاں اور ان کی تحریک انصاف اپنے ”غیر آزمودہ“ ہونے کی بنیاد پر پھر مقبولیت کے ایک اور مرحلے میں داخل ہو سکتی ہے۔ بشرطیکہ اسے داخل ہونا آیا۔ اسی صورتحال میں جوڈیشری، بیورو کریٹس اور صحافیوں کے خلاف بھی احتساب شروع کرنے پر زور بڑھے گا۔ اگر یہ مطالبہ کھڑا ہو گیا تو کیا ہو گا؟ امر واقع یہ ہے کہ اس وقت غالب ملکی قوتوں میں میڈیا سرفہرست ہے جو عدلیہ کی اہمیت میں اضافہ کر کے اس کے کردار کی ادائیگی میں آسانی پیدا کرنے کا سبب بھی بن رہا ہے۔ قومی امور میں متفقہ طور پر ماضی کی سب سے اہم قوت، فوج اپنے دفاع امیج کی بحالی، عوام کے ساتھ یکجہتی اور کسی نئے الزام سے محفوظ رہنے کو ہی اپنی محتاط اور نئی اپروچ کے طور پر اختیار کئے ہوئے ہے۔ اصل سوال جج صاحبان کے احتساب کا ہے، جس سے کئی سوال پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً یہ احتساب کون کرے گا؟ کیا جوڈیشل کونسل؟ یہ تو ابھی احتسابی ادارے کے طور پر نمایاں ہوئی ہے، تجربے کار نہ عوام میں مقبول۔ قابل احتساب ججز کو کون عدالتوں یا جوڈیشل کونسل میں احتساب کیلئے لانے کا اہتمام کرے گا؟ یہ واضح نہیں۔ کیا اس صورتحال میں عدلیہ مزید تقویت حاصل کرے گی؟ بظاہر تو یہ ہی لگتا ہے۔ لیکن اگر ان کے خلاف قابل احتساب مواد میسر آ گیا تو سوشل میڈیا ججز کے احتساب کا موثر ذریعہ بن جائیگا۔ ملکی حالات اور وقت کا تقاضا ہے کہ سٹیٹس کو کی تمام قوتیں جن کی نشاندہی سیاستدان، حکمران، بیورو کریٹس، جرنیل، ججز اور صحافیوں کے طور پر کی جاتی ہے، اپنے خلاف ایک ایک دو دو بڑے بڑے علامتی کیسز کو منطقی انجام تک پہنچانے اور اس انجام کو تسلیم کرنے کو ہی اپنا ہدف بنا لیں تو جاری نظام بد کے کسی بھی فریق کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ احتساب سب کا ہو گا۔ جیسے افتخار ارسلان کیس عدلیہ کے احتساب کی ایک علامت کے طور پر سامنے آیا ہے اور عدلیہ کی ساکھ کے لئے ایک ٹیسٹ کیس بن گیا ہے۔ جہاں تک میڈیا کا تعلق ہے یہ بھی عدلیہ کی طرح اپنے فعال اور نتیجہ خیز کردار سے بالعموم عوام کی نظر میں مثبت کردار کا حامل ہے، اس کے باوجود اس کے بھی علامتی احتساب (اگر جواز بنتا ہے) کی مکمل گنجائش ہے۔ جرنیلوں کے عدالتوں میں جانے اور ان کے خلاف فیصلوں نے پارلیمنٹرینز اور بیورو کریٹس کے خلاف احتسابی کارروائی کو آسان تر بنا دیا ہے پنڈورا بکس میں تو بہت کچھ ہے سٹیٹس کو کی تمام قوتوں کا علامتی اور متوازن احتساب خوشحال، مستحکم، پرامن اور متحد و منظم پاکستان کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
تازہ ترین