• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خود کو بہادر ثابت کرنے کیلئے خطرہ مول نہ لیں

خود کو بہادر ثابت کرنے کیلئے خطرہ مول نہ لیں

الیکشن 2013کے مقابلے میں پاکستان میں امن و امان کی صورت حال میں خاصی بہتریواقع ہو ئی ہےاور دہشت گر دی کے خلاف جنگ میں آپریشن ردالفساد کے خاطر خواہ نتائج سامنے آئےہیں لیکن دہشت گردی کے عفریت سے ابھی مکمل طور چھٹکارانہیں ملا ہے ۔

الیکشن2013کی انتخابی مہم نسبتاًخوف کے ماحول میںہوئی اور کچھ پارٹیوں نے الیکشن میں شکست کا بہانا بھی انتخابی مہم کو بھرپور انداز میں نہ چلانا تراشا اور اس کا جواز دہشت گردی کے خوف کو قرار دیا تھا لیکن آپریشن ردالفساد کی وجہ سےالیکشن 2018 کی انتخابی مہم کے دوران اس خوف میں واضح طور پر کمی دیکھی جا رہی تھی اور گزشتہ روز تک کوئی نا خوشگوار واقع پیش نہیں آیا تھا۔

آرمی آپریشن ردالفساد نے ملک بھر میں واضح اور نمایاں طور پر کامیابیاں حاصل کیں اور خوف کی فضاء کوکم سے کم سطح پر پہنچادیا،دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے جسےمکمل طور پر ختم نہیں کیا جاسکتا خاص طور پر خود کش حملوں کو دنیا کی بڑی سے بڑی سیکیورٹی مکمل طور پر ختم نہیں کر سکتی البتہ اس عفریت کو کم سے کم سطح کی حد تک لایا جاسکتا ہے جس کے لئے اچھی اور بہتر سیکیورٹی تو ضروری ہے ہی لیکن ان اشخاص کیلئے جن کو پہلے ہی دھمکیوں کا سامنا ہو انہیںسخت احتیاط کی ضرورت ہے۔

خاص طور پرضرورت اس امر کی ہے کہ سیاست دان اپنے آپ کو بہادر ثابت کرنے کیلئے کوئی خطرہ مول نہ لیں،سیکورٹی انتظامات میں کسی قسم کی غفلت کا مظاہرہ نہ کریں ۔یہ اس لئے بھی ضروری ہےکہ دہشت گرد سیکورٹی حکام کواس مقصد کے تحت نشانہ بناتے ہیں کہ وہ اس حفاظتی دیوار کو توڑ سکیں جو سیکیورٹی اہلکار وں نے قائم کر رکھی ہے ،دہشت گردوں کامقصد خوف اور دہشت کی فضا ء کا قیام بھی ہوتا ہےجس کے بعد ان کےلئے وارداتیں کرنا آسان ہو جائے۔

اطلاعات کے مطابق گزشتہ روزپشاور کے علاقے یکہ توت میں عوامی نیشنل پارٹی کے انتخابی جلسےکے دوران خودکش بم دھماکےمیں صوبائی اسمبلی کے امیدوار اور بشیر بلور کے صاحبزادے بیرسٹر ہارون بلور سمیت21افراد شہیداور65سے زائد زخمی ہوئے۔خودکش بم دھماکا اس وقت ہوا جب اے این پی کے امیدوار ہارون بلور کارنر میٹنگ میں پہنچنے کے بعد کارکنوں سے گلے مل رہے تھے ۔

پولیس کے مطابق کارکنان ہارون بلور کی آمد پر آتش بازی اور نعروں سے ان کا استقبال کر رہے تھے، خودکش دہشتگرد کارنر میٹنگ میں پہلے سے موجود تھاجس نے ہارون بلور کو گلے لگاتے ہوئے خودکو دھماکے سے اڑالیا ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہخود کش حملہ آور جس نے8کلوگرام بارودی مواد اپنے جسم سے لپیٹا ہوا تھا وہ بھرے پنڈال میں کیسے جا پہنچا ؟اوراس نے خاص اس وقت دھماکا کیا جب وہ ہارون بلور سے بغل گیر ہورہا تھا۔

یہ صورت حال خطرناک بھی ہے اور پریشان کن بھی، بدقسمتی سے ہم نے ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کیاسیاست دانوں خاص طور پر ایسے سیاست دانوں جن کو پہلے سے دھمکیاں مل رہی ہیں اور دہشت گروں کا خاص ہدف ہیں ان کو بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے جبکہ سیکورٹی کے ذمہ دار ان کو ان دھمکیوں کے بعد نئے ایکشن پلان کی ضرورت ہے جس کے تحت معصوم جانوں کو محفوظ بنایا جا سکے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی میں ہونے والے واقعات جس میں اس وقت کے وزیر داخلہ احسن اقبال کو ایک کارنر میٹنگ میں گولی کا نشانہ بنا یا گیا،ملزم جس انداز میں طویل عرصے تک میٹنگ کی اگلی صفوں میں بیٹھ کر حملے کا منتظر رہا اور پھر موقع ملتے ہی گولی چلا دی ، اس سے لگتا ہے وہ تیاری کر کے آیا تھا ، افسوس ناک واقعے کے بعد وفاقی یا صوبائی حکومت نے یا پھر ان کی جگہ ذمہ داریاں سنبھالنے والی نگراں حکومتوں نے کون سے ایسے حفاظتی اقدامات کیے، جن کے ذریعے ایسے واقعات کو روکا جا سکے۔یہ واقعہ دہشت گردی کی باقاعدہ واردات تھی یا ملزم کا انفرادی فعل یہ تو تحقیقاتی اداروں پر تفتیش کے نتیجے میں واضح ہو گیا ہو گا۔

تاہم اس کے محرکات سامنے لانے کی ضرورت ہے تاکہ سیاستدان اور عوام جان سکیں کہ خطرات کہاں کہاں ہیں اور ان کے اعادے سے بچنے کے لیے کیسے کیسے حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہو گی۔نیکٹا حکام نے جن سیاستدانوں کے متعلق متعلقہ حکام کو آگاہ کیا ہے انہیں سیکورٹی کے خطرات لاحق ہیں ان کے نام تو سامنے نہیں آئے،عین ممکن ہے خفیہ خطوط میں نام بھی بتائے گئے ہوں تاہم یہ معلومات منظر عام پر آنے کے بعد سیاست دان اپنے طور پر اور سرکاری سیکورٹی کے ادارے بھی ان کی حفاظت کے لیے ایسے انتظامات کریں کہ دہشت گردوں کو ان کے مذموم مقاصد میں کامیابی نہ ہو۔

اس مقصد کے لیے ملک کی سیکورٹی کی مجموعی فضاء کو مزید بہتر بنانا ضروری ہے،کیونکہ خوف کی فضا ء ایک مرتبہ پھر بڑھ گئی تو دہشت گردوں کے حوصلے بلند ہوں گے اور دہشت گر دوں کوکسی بھی جگہ واردات کرنا آسان ہوجائے ہو گا۔

تازہ ترین