• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الیکشن کمیشن نے الیکشن ڈیوٹی کے لیے متعین فوج کے لیے ایسا ضابطہ اخلاق کیوں بنایا جو ڈر ہے کہ اس کو ہی متنازع بنا دے ۔ پہلے ہی ن لیگ اور پیپلز پارٹی ان کے افسران پر مداخلت اور دبائو ڈالنے کے الزام لگارہے ہیں۔ حالانکہ فوجی ترجمان نے گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فوج کسی بھی قسم کی سیاسی جوڑ توڑ میں شامل نہیں اور جو بھی الزامات لگائے جا رہے ہیں وہ بے بنیاد ہیں۔ اس پریس کانفرنس کے بعد ن لیگ اور پی پی پی کی طرف سے وہی الزامات دُہرائے گئے ۔ان حالات میں انہیں انتخابی عمل کے دوران سختی سے صرف اور صرف سیکورٹی معاملات تک محدود رکھنا چاہیے تھالیکن انہیں وہ اختیارات بھی دیدیئے گئے جن کا تعلق انتخابی عمل سے تھا جس سے انہیں بلا وجہ متنازع بنائے جانیکا خطرہ پیدا ہوگیا۔ گزشتہ انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں نے منتیں کر کے عدلیہ کی نگرانی میں انتخابات منعقد کرائے لیکن انتخابات کے بعد تحریک انصاف اور پی پی پی نے ججوں پر ہی دھاندلی کے الزامات لگا دیئے حالانکہ سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل کمیشن میں یہ ثابت ہوا کہ دھاندلی کے الزامات میں کوئی حقیقت نہ تھی۔ کبھی کبھار تحریک انصاف کی طرف سے فوج پر بھی دھاندلی کا الزام لگایا گیا باوجود اس کے کہ 2013 میں تو فوج کو ہر پولنگ اسٹیشن میں تعینات بھی نہیں کیا گیا تھا۔ اب کی بار فیصلہ ہوا کہ ہر پولنگ اسٹیشن پر دو اہلکار پولنگ اسٹیشن کے اندر اور دو باہر تعینات ہوں گے۔ اس میں بھی کوئی حرج نہ تھا اگر ذمہ داری صرف اور صرف سیکورٹی کے متعلق ہوتی۔ الیکشن کمیشن نے اب تو انہیں کچھ ایسے بھی اختیارات دے دیئے جن کا تعلق خالص انتخابی عمل سے ہے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کیے گئے ضابطہ اخلاق اور متعلقہ نوٹیفیکیشن کے مطابق پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر موجودیہ اہلکار کچھ خاص حالات میں الیکشن عمل کے نہ صرف نگراں ہوں گے بلکہ پریزائیڈنگ افسر اور دیگر الیکشن اسٹاف کی بھی نگرانی کریں گے۔ اگرچہ قانون کے مطابق ریٹرننگ افسران پورے پولنگ اسٹیشن کا انچارج ہوتا ہے اور سیکورٹی اہلکاروں کو اُن کے ماتحت رکھا گیا ہے لیکن الیکشن کمیشن کے سیکورٹی اہلکاروں کے لیے ضابطہ اخلاق کے مطابق الیکشن عمل یا ووٹوں کی گنتی کے عمل میں کوئی بے ضابطگی یا غلط حرکت دیکھنے پر وہاں موجود یہ سیکورٹی اہلکار یہ معاملہ پریزائڈنگ افسر کے علم میں لائے گا اور اگر بے ضابطگی کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو وہ اپنے انچارج افسر کو فوراً اطلاع دے گا۔ انچارج افسر جس کو مجسٹریٹ درجہ اول کے سمری ٹرائل اور دوسرے اختیارات بھی حاصل ہوں گے وہ اپنے اختیارات کے مطابق کارروائی کرے گا اور متعلقہ ریٹرننگ افسر کو اطلاع دے دے گا۔ الیکشن کے لیے متعین ان اہلکاروں کو آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت تعینات کیا جائے گا اور اُنہیں انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997 کے سیکشن 4 اور 5 کے تحت کارروائی کا بھی اختیار حاصل ہو گا۔ یعنی اُن کی اختیار کے استعمال کی صورت میں کسی کارروائی کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن نے سیکورٹی اہلکاروں کو یہ تمام اختیارات بغیر سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر دیئے۔ چند بڑی سیاسی جماعتوں نے پہلے ہی ان اختیارات پر اعتراض اٹھا دیئے اور کہا کہ انتخابی عمل میں الیکشن کمیشن کو کسی دوسرے کو اپنے ساتھ شامل نہیں کرنا چاہیے۔ الیکشن کمیشن نے ضرور صاف نیت سے ان کو ماضی کے برعکس اس بار زیادہ اختیارات دیئے ہوں لیکن الیکشن کمیشن شاید یہ بات بھول گیا کہ انتخابی عمل میں جنتا زیادہ کردارانہی کو دیا جائے گا اُتنا ہی اُس کو تنازعات کا سامنا کرنا پڑے گا چاہیے الیکشن کتنے ہی صاف اور شفاف کیوں نہ ہواور ایک ایسے ماحول میں جب پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پہلے ہی اس سے تعلق رکھنے والے چند افراد پر سیاسی مداخلت اور جوڑ توڑ کے الزامات لگا رہی ہوں تو پھر کسی بھی طور ایسی صورتحال پیدا نہ کی جائے جس سے اس اہم ترین قومی ادارہ کو تنازعات کا سامنا کرنا پڑے۔ بلکہ بہتر تو یہ ہو گا کہ ان کی قیادت سیاسی جماعتوں کی شکایات کا جائزہ لے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ کوئی فرد اس ادارے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ کرے۔ فوج کو پاکستان کے دفاع اور دہشتگردی جیسے ناسور کے خاتمہ جیسے اہم ترین چیلنجز کا سامنا ہے اس لیے خدارا اسے انتخابی معاملات سے جتنا ہو سکے دور رکھا جائے۔ ابھی گزشتہ رات ہی اے این پی کے رہنما ہارون بلور کو ایک دہشتگرد حملہ میں پشاور میں شہید کر دیا گیا۔ ہارون بلور کے والد بشیر بلور کو بھی دہشتگرد حملہ میں آج سے کوئی چھ سال قبل شہید کیا گیا تھا۔ یہ نہ صرف بلور فیملی اور اے این پی بلکہ پورے پاکستان کے لیے ایک بڑا سانحہ ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ شہداء کو جنت الفردوس میں جگہ اور بلور فیملی کو صبر عطا فرمائے۔ آمین۔ اگرچہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت، فوج، پولیس، ایف سی اور سیکورٹی ایجنسیوں کی کوشش سے پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں کافی کمی واقع ہوئی لیکن پشاور واقعہ نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ ابھی اس سلسلے میں کافی کام کرنا باقی ہے جس کے لیے اہم ترین کردار فوج کا ہے۔اس نے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں بے پناہ قربانیاں دیں اُسے انتخابی معاملات میں گھسیٹنا اور متنازعہ بنانا نہ تو پاکستان کی خدمت ہے اور نہ ہی ادارے کی۔ اس معاملہ پر الیکشن کمیشن کودوبارہ غور کرنا چاہیے۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین