• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معلوم ہے کہ بلور پشتو بولنے والے بھی نہیں لیکن پشتونوں سے سیاسی وابستگی کی انکو بڑی سزا ملی ہے۔ پہلے بشیر بلور اور اب ان کا جواں سال بیٹا ہارون بلور ہلاک اور ہارون بلور کا بیٹا دانیال بلور زخمی۔ ان سمیت بارہ اور افراد بھی عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے پشاور کے جلسے پر خودکش بمبار حملے میں ہلاک ہوئے۔ کون کہتا ہے کہ دہشتگردی کی کمر توڑ دی گئی ہے۔ پشتونوں کے لئے دہشتگردی کبھی ختم نہیں ہوتی۔ کبھی وہ غیر ریاستی ہوتی ہے تو کبھی غیر ریاستی۔ ابھی کچھ روز قبل پشتون بچہ بچہ دنیا بھر میں کہہ رہا تھا ثہ دی سنگ آزادی دا۔ (یہ کیسی آزادی ہے؟) لگتا ہے دہشت گرد آزاد کیا آنیوالے انتخابات کے پس منظر میں آزاد امیدوار بنے ہوئے ہیں۔
یاد ہے دو ہزار تیرہ کے انتخابات کے دوران بھی یہی ہوا تھا جب دہشتگرد خود کش بمبار حملوں کے خطرات کے پیش نظر عوامی نیشنل پارٹی کے امیدواروں کی انتخابی مہم کی سرگرمیاں بہت ہی محدود ہوکر بالکل ختم ہی ہو گئی تھیں۔ یہاں تک کہ کراچی جہاں عوامی نیشنل پارٹی کے ہمدرد اور حمایتی بہت بڑی تعداد نہیں رکھتے وہاں اے این پی کے ایک امیدوار پر بھی دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا۔ کارکنوں پر حملے توہزاروں میں ہیں۔ الیکشن ہوں کہ نہ۔ عوامی نیشنل پارٹی ، مسلم لیک نواز، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم (مجازی) ،پختونخواہ ملی عوامی، عوامی جمہوری پارٹی کسی نہ کسی طرح انتخابات لڑنے والی چھوٹی بڑی ایسی پارٹیاں انتہائی نشانے پر آئی لگتی ہیں۔ بس بھئی بس آگے بات نہیں چیف صاحب! کہ کون کس پارٹی کا چیف پولنگ ایجنٹ بنا ہوا ہے؟ بس ایک ہی پارٹی بچتی ہے جسے میدان مارنے کو لایا جا رہا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی۔ یہ مقتل سجایا ہی اے این پی اور اسطرح کی پارٹیوں کے لئے گیا ہے۔ جمہوریت ہو کہ آمریت اسکو پروان چڑہانے کو نہ جانے کتنوں کا لہو درکار ہے۔ لیلائے وطن کے عارض رنگین کرنے کو، وہ جیسے فیض نے کہا تھا۔ جیسے فراز نے کہا تھا ’’ آج پشاور سے لاہور مہران تک تم نے مقتل سجائے ہیں کیوں غازیو!‘‘
پہلے بلوروں سے سیکورٹی واپس لی گئی اور اگلے روز ان پر خودکش حملہ ہوا۔ اب یہ بھولے عوام کس کے ہاتھ پر لہو تلاش کریں کہ شہر نے دستانے بھی نہیں پہنے ہوئے لیکن قاتل نامعلوم ہوتے ہوئے بھی معلوم لیکن کیا کیجئے کہ ہر راہ جو ادھر کو جاتی ہے مقتل سےگزر کر جاتی ہے۔ اور یہ راہ آج یا کل کی نہیں۔ یہ مقتل بہت پرانا ہے۔ نہ انکی طور نہیں ہے نہ اپنی ریت نئی۔ یہ مقتل کی راہیں شاید اس سطر کے خالق کے شعر کہنے سے بھی پہلے۔
پشتون غیر فرقہ وارانہ اور وسیع النظر روشن خیال قوم پرستی کو تو ’’راہ راست‘‘ پر لانے اور اسے سزا دینے کئی مقتل سجائے گئے ہیں۔ شروعات تو ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے سے ہوئی تھی جب کابل سے سردار دائود کے راندہ درگاہ طالب علم رہنمائوں و دیگر سیکولر قوم پرستی کی دشمنی میں امپورٹ کر کر انہیں تربیت یافتہ بنایا گیا تھا۔ زرداری نے رائو انوار کو اپنا ’’بہادر بچہ‘‘ قرار دیا تھا۔ تو بہادر بچو!دیکھو ان سب واقعات کی اوقات یا ٹائمنگ کیسا اتفاق رکھتی ہے! ایک اتفاق رائو انوار کی نقیب اللہ محسود کے قتل کیس میں ضمانت پر رہائی کاہے۔ رائو انوار جس پر چار سو چالیس شہریوں کو ماورائے عدالت قتل کرنے کا الزام ہے۔ جعلی مقابلے۔ ایک بار پھر شاید جعلی مقابلوں کا بازار گرم ہو۔
افغان جنگ سے لے کر دہشتگردی کے خلاف جنگ تک پشتون شاید روئے زمین پر سب سے زیادہ کم قسمت یا بلکہ بدقسمت قوم میں بدل گئے۔ ان پر پرانی اور نئی جنگیں تھونپی گئیں۔ پشتون سیکولر لبرل قوم پرست کو ہر حال میں روکنا مقصود تھا جو کہ ملک کے اصلی تے وڈے چوہدریوں کا خیال تھا۔ خیال کیا یقین تھا کہ کابل اور دلی سے پشتون لبرل سیکولر قوم پرست کاسیاست کا واسطہ ہے۔ لیکن اب پشتون قیادت یا پشتون سیکولر پارٹیوں نے کب سے ٹرانس افغان قوم پرستی سے اپنے راہیں جدا کر بھی لیں، یا نیوٹرل ہو بھی گئے۔ لیکن ملک کے اصلی تے وڈے چوہدری نیوٹرل نہیں ہوئے۔ انہوں نے پختون سرزمین پر گولیاں اگائیں، لہو اور لاشوں کی فصلیں کاٹیں ۔ نسلوں کے نسلوں کے کشت و خون میں پشتے لگادیئے۔ گزشتہ انتخابات میں عوامی نیشنل پارٹی کے کئی حمایتیوں کو کہتے سنا گیا کہ ’’اے این پی ہاری نہیں ہروائی گئی ہے‘‘۔ دو ہزار آٹھ میں عوامی نیشنل پارٹی کے سابق صوبہ سرحد میں حکومت تو بنی لیکن انکے تمام لیڈر، وزرا، سینیٹر و دیگر منتخب نمائندے ہمیشہ خود کش حملوں کی زد میں رہے۔ دوسرے الفاظ میںاسفندیار ولی کو زرداری سے یاری مہنگی پڑی۔ یہ کیسی حکومت تھی جس میں فاٹا میں صرف ایک ایجنسی میں قبائلی پشتونوں کے سینکڑوں قتل کروادئیے گئے۔ کچھ دن قبل بلڈی غیر سویلینز کو ایک پی ٹی آئی کا ورک کرنے کی شکایت وزیرستان سے بھی آئی۔
باقی صوبوں میں بھی الیکشن کے تناظر میںوزیرستان یا کل کے فاٹا سے کوئی زیادہ مختلف نہیں۔ لاہور کا منظر نامہ کسی بڑی جنگ کے میدان اور کسی کے لئے وہ میدان واٹر لو بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ یہی بپتا پورے پنجاب کی نظر آ رہی ہے۔ بلوچستان میں سیاستدانوں کی منڈی مال مویشیاں منتقل ہو چکی ہے۔ بس وہاں جسے پیا چاہے وہی ملک و حکومت کا مالک بنے گا۔ لیکن سندھی میں کہتے ہیں کہ بندے کے من میں ایک ہوتی ہے اور اسکے بنانے والے کے من میں دوسری۔ یاد ہے انیس سو پچاس میں تمام تر کوششوں اور تجزیوں تبصروں کے باوجود (تم شکر کرو کہ جماعت اینکر یہ نہیں پیدا ہوئی تھی)سابقہ مشرقی پاکستان (حال بنگلہ دیش) میں جگتو فرنٹ جیت کر آیا تھا۔ ہو سکتا ہے پنجاب سمیت ملک میں شیر کی کھال میں بلی یا بلی کی کھال میں شیر نکل آئے۔ لیکن اب کسی جیپ کے پیچھے دو ٹرکوں کے لگوانے کے زمانے لدگئے۔ اب قتل و غارت گری کے ذریعے انتخاب ملتوی کروانے یا اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے زمانے بھی ہوا ہوئے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین