• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غالب نے کہا تھا :
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو
پڑیئے اگر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار
اور اگر مر جایئے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
درویش علی اس خطے کا باسی ہے جہاں انسان کی پہچان اس کے عقیدے یا نسلی تفاخر سے ہے۔ جہاں آئین، جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادیوں کی ذرہ برابر حیثیت و اہمیت نہیں۔ عزت و تقدس کا معیار کچھ اور ہی ہے بار ہادل میں علامہ اقبال کا یہ خیال جاگزیں ہوا کہ ، ہے ترکِ وطن سنت محبوب الٰہی، تو بھی دے صداقت نبوت پر گواہی ، مگر پھر مرشد برحق سرسید نے آ کر روک لیا کہ نہیں اس سے بڑی بزدلی و نالائقی اور کوئی نہ ہوگی کہ تیرے ہم وطن غیر انسانی حالات میں جی رہے ہوں اور تو ترکِ سکونت کرتے ہوئےکہیں اور بہتر مقام پر جا بسے۔
مشکلات کے پہاڑ بھی ٹوٹ پڑیں تو بھی اپنی نئی نسلوں کے لئے راہیں تراشنی ہیں اس وقت اس دھرتی پر جنم لینے والے عظیم مرد درویش باچاخاں یاد آر ہے ہیں جنہوں نے انسانی زندگی کی عظمت و حرمت منوانے کے لئے جاں گسل جدوجہد کی اور پھر اپنی پختون قوم کے اذہان میں فلسفہ عدم تشدد کی اہمیت انڈیلتے اس دنیا سے چل بسے مگر آج یہاں اس مرد حریت کے پیروکاران کو بیدردی سے گاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہے ان کا بھرتا بنایا جا رہا ہے۔پہلے بشیر احمد بلور دہشت گردی کا ٹارگٹ بنے تو آج ان کے فرزند بیرسٹر ہارون بلور کو ساتھیوں سمیت خود کش حملے میں شہید کردیا گیا۔
گزشتہ دنوں درویش یہ شکایت لے کر مزار قائد پر گیا تو وہاں آنسوئوں اور آہوں میں بھیگی ہوئی یہی صدا آئی کہ یہ میرا پاکستان نہیں ہے میں نے یہ کب کہا تھا کہ عقیدے یا سوچ کے اختلاف پر دوسرے کو بھون دو۔میں نے بحیثیت قانون دان کب جبری قوانین اور کینگرو کورٹس کی حمایت میں کبھی کوئی ایک لفظ بولا تھا، میں جب تک زندہ رہا سویلین بالادستی منوانے کے لئے جدوجہد کرتا رہا، آئینی و جمہوری حقوق کے لئے لڑتا رہا، اقلیتوں کے حقوق کو تحفظ دینے کے لئے میں نے جتنی بھی جدوجہد کی اس میں اپنے سیاسی مخالفین کے لئے میں نے کب معیار سے گری ہوئی نازیبا زبان استعمال کی۔ میں نے کبھی جھوٹ اور منافقت کا کردار اپنایا بلکہ پاکستان قائم ہوتے ہی دستور ساز اسمبلی کے اولین اجلاس میں سب پر قطعی واضح کردیا کہ کسی کا کوئی بھی عقیدہ ہے وہ اس کا ذاتی معاملہ ہے ریاست یامملکت کا اس سے کوئی واسطہ یا سروکار نہیں ہوگا۔
اے اہل وطن قائد کی آنکھیں بند ہوتے ہی یہاں کیا کیا کھیل نہیں کھیلے گئے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ آئین، جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادیوں پر یقین رکھنے والے آخر کب تک نظریہ جبر پر یقین رکھنے والوں کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے۔ جان ایسی فالتو چیز تو نہیں ہوتی جسے بغیر سوچے سمجھے یاپرکھے جابروں اور ظالموں کی نذرکر دیا جائے۔ آخر ہمیشہ اہل حق ہی کیوں مریں یا جیلیں کاٹیں؟کربلا سے شروع ہونے والی یہ شام غریباں اب بدلنی چاہیے، وقت کے یزیدوں، آئین شکنوں کو بھی اب قانون کے شکنجے میں آنا چاہیے۔ مفادات کا پجاری غلط کہتا پھرتا ہے کہ ایک بڑا آدمی پہلی بار قانون کی گرفت میں آیا ہے اس شخص کو کم از کم وطن عزیز کی مختصر تاریخ کا مطالعہ ہی کرلینا چاہیے تھا ۔ ایبڈو کے تحت کتنے سیاستدان نااہل قرار پائے اور جیلوں میں بھیجے گئے، کیا حسین شہید سہروردی بڑے آدمی نہیں تھے وہ جبری ہتھکنڈوں سے نااہل قرار پائے اور جیل بھی بھیجے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کوپھانسی پر چڑہا دیا گیا۔ تمامتر چالبازیوں کے باوجود دو مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہونے والی محترمہ بے نظیر بھٹو کیا بڑی سیاستدان نہیںتھیں، یہی عدالتیں کن کے احکامات پر انہیں جیلوں کی صعوبتیں جھیلنے پر مجبور کرتی رہیں۔ اس کے برعکس دوسری طرف کوئی ایک مثال پیش کریں ، وہ جس نے آئین شکنی ہی نہیں کی تھی اس مملکت خداداد کو بھی دو لخت کیا تھا کیا کسی کو جرأت ہوئی کہ اسے بھی جیل بھیجتا۔
نوشیرواں عادل کے جانشینوں کی خدمت میں کیا اتنی عرض کی جاسکتی ہے کہ بڑے اداروں میں براجمان ہستیوں کو احتسابی عمل سے کیوں ماورا ء رکھا گیا ہے؟ان کے اثاثوں کو آخر ان کی تنخواہوں کے حساب سے کیوں نہیں دیکھا جاسکتا؟ اور وہ پیشہ ور سیاستدان جس کا اس کے اپنے بقول کوئی ذریعہ آمدن نہیں ہے وہ جہازوں میں کیسے اڑتا پھرتا ہے تین سو کینال کے وسیع و عریض گھر میں کیسے عیاشیاں کرتا پھرتا ہے، باتیں وہ ریاست مدینہ کی کرتا ہے، کعبے تم کس منہ سے جائو گے غالب، شرم تم کو مگر نہیں آتی۔
درویش کی ذاتی رائے تھی کہ بقول جاوید ہاشمی نواز شریف کو زبردستی وطن واپس نہیں آنا چاہیے تھا چاہے وقتی طور پر ان کی پارٹی الیکشن نہ جیت پاتی یا کم از کم اپنی بیٹی مریم نواز کو اس کی ماں کے پاس تیمارداری کے لئے چھوڑ آتے۔ یہاں یہ امر بھی واضح رہے کہ نوازشریف کا ووٹ کی حرمت پرمبنی بیانیہ کوئی وقتی ابال یا ہنگامی ایشو نہیں ہے یہ ہماری سات دہائیوں پر محیط تاریخ کا قرض اور فرض ہے جو نواز شریف بحیثیت منتخب قومی قائد چکا رہا ہے۔ لوگ اس کے بھائی یا بھتیجے کی بات کرتے ہیں درویش کی نظروں میں پوری قوم ایک دن اس بیانیے پر لبیک کہے گی۔ اگر پاکستان نے بحیثیت ایک جمہوری مملکت دنیا کے نقشے پر رہنا ہے تو پھر اس بیانیے کو اپنائے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ منتخب پارلیمینٹ کی بالادستی کا واضح مطلب ہے کہ تمام چھوٹے بڑے اداروں کو منتخب سیٹ اپ کے سامنے سرنگوں ہونا پڑے گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین