• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2018کے الیکشن نے بہت سارے سوالات پیدا کر دیئے ہیں۔ سب سے اہم اور پہلا سوال تو الیکشن کی شفافیت پر ہے۔ آج پاکستانی حکمران طبقے ایک خاص قسم کا سیاسی نظام زبردستی مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس نے میڈیا کی آزادی کو مکمل طور پر سلب کر دیا ہے۔ ایک معروف اخبار نے اپنے اداریے میں حالیہ میڈیا پابندیوں کو مارشل لا دور سے بھی زیادہ سخت گردانا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ 2018ء کے الیکشن کے نتیجے میں آنے والی حکومت کی جڑیں زمین کی بجائے خلا میں پیوست ہوں گی۔
پاکستان کی ستر سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ پاکستان کو ایک آئینی اور وفاقی ریاست کے بجائے وحدانی طریقوں سے چلایا جاتا رہا ہے جس کے نتیجے میں ریاست اور اس کے عوام نے بے شمار اور ناقابل برداشت نقصانات اٹھائے ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے نتیجے میں غیر معمولی مرکزیت پسندی کا حامل وفاقی نظام عدم مرکزیت کی طرف بڑھ رہا تھا اور ایک نیا سوشل معاہدہ جس کے تحت وحدتیں باہمی رضامندی سے وفاقی تشکیلِ نو کرسکتیں جو جمہوریت اور انسانی حقوق کی بنیاد پر عورتوں اور اقلیتوں کی برابری اور طبقاتی تفریق کو ختم کرنے کی یا کم کرنے کی بنیاد بنتا۔ لیکن پچھلے کچھ عرصے سے اس عمل کو ناسمجھ میں آنے والی وجوہات کی بنا پر روک دیا گیا۔ راتوں رات بلوچستان کی حکومت پر من پسند لوگوں کو بٹھا دیا گیا اور سینیٹ کے الیکشن میں وفاق کی علامت سمجھے جانے والے اس ادارے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔ یہ عمل جو کہ بلوچستان کی اسمبلی میں تبدیلی لانے سے شروع کیا گیا اپنی پوری شدومد سے جاری ہے اور بظاہر پوری کوشش کی جارہی ہے کہ 2018ء کے الیکشن کے نتیجے میں آنے والی اسمبلی ایک مخلوط پارلیمنٹ ہو تاکہ سینیٹ کی طرز پر وفاق میں بھی حکومت قائم کی جاسکے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ 25جولائی کے الیکشن کو ایک پراسیس کے ذریعے ٹیک اوور کیا جارہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ نوازشریف کی کرپشن ناقابل برداشت ہوگئی ہے اس لیے اب اسے مزید برداشت نہیں کیا جاسکتا کیا ہی اچھا ہوتا کہ عوام ووٹ کے ذریعے نوازشریف کا احتساب کرتے ۔
یورپین سماج پر ہم جب طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ایک لمبے عرصے تک وہ معاشرہ بھی اسی طرح تنزل پذیر رہا جیسا کہ آج پاکستانی سماج ہے۔ لیکن ان ادوار میں تاریخ شاہد ہے کہ سیاست ہی بڑی تبدیلی کی محرک بنی اس کے ساتھ ساتھ دانشوروں نے بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کیں اور معاشرے میں روشن خیالی کی روایت کے سرپرست بنے۔ اس تحریک نے یورپ کو نہ صرف جمود اور گھٹن سے نکالا بلکہ عقائد اور فرسودہ روایات کا حصار بھی توڑا جس نے یورپ کی ترقی کی راہوں کو ہموار کیا۔ آج پاکستان کی ترقی کا انحصار بھی اس بات میں مضمر ہے کہ سیاسی عمل کا تسلسل چاہے وہ کتنا ہی تنزل پذیر کیوں نہ ہو جاری رہنا چاہیے لیکن اس کی راہ میں مسلسل روڑے اٹکائے جا رہے ہیں تاکہ صاف و شفاف الیکشن کے نتیجے میں عوام کو سیاست دانوں کا احتساب کرنے کا موقع ہی میسر نہ آسکے۔ یہ ایک لمبا اور صبر آزما سفر ضرور ہوتاہے لیکن اگر اس تسلسل کو چلنے دیا جائے تو جلد ہی عوام ارتقا پذیر ہو کر جنونیت، بدعنوانیت اور سماجی و اقتصادی ناہمواری پر قابو پالیں گے۔ مگر آج پھر بدقسمتی سے سیاسی عمل کو آزادی کے ساتھ مکمل ہونے دینے کی بجائے کنٹرولڈ عمل دہرایا جا رہا ہے تاکہ اس نتیجے میں بننے والے حکمرانوں کی ڈوریاں اپنے ہاتھوں میں ہی رکھی جا سکیں۔ 2018ء کے الیکشن میں صاف نظر آرہا ہے کہ نوازشریف ایک بار پھر مظلوم بن کر عوام کے سامنے اپنے آپ کو پیش کریں گے اور جلد یا بہ دیر ان کی جماعت دوبارہ اقتدار میں آجائے گی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس عمل کے نتیجے میں پاکستانی سماج بلوغت کے اس مقام پر پہنچ پائے گا جہاں آج یورپین سماج ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ ہر طبقہ اپنے نظریات اپنی فطرت کے مطابق ڈھال لیتا ہے۔ طاقت ور کی فطرت ہوتی ہے کہ وہ اپنا تسلط ہر قیمت پر قائم رکھے اور کمزور کی سرشت میں ہے کہ وہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد کرے۔ آج پاکستان کے سیاسی پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ سیاسی طور پر کمزور قوتیں اپنے حقوق کے لیے ایک صبر آزما جدوجہد کا آغاز کریں۔2018ء کے الیکشن کے نتائج کچھ بھی ہوں جمہوری قوتوں کو جو کہ اب کافی حد تک نظریاتی بھی ہو گئی ہیں مسلسل اپنا سیاسی لائحہ عمل ترتیب دیتے رہنا چاہیے تاکہ پاکستان کی آئندہ آنے والی نسلیں ایک بہتر ماحول میں زندہ رہ سکیں۔ مسلم لیگ (ن)، پختونخواملی عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی اور دوسری ترقی پسند جماعتوں کو چاہیے کہ وہ حزب اختلاف میں بیٹھ کر حکمران طبقے کے تسلط کو عوامی شعور کے ذریعے بے نقاب کرتی رہیں تاکہ معاشرہ اندرونی طور پر کھوکھلا اور بے جان نہ ہوجائے اور کسی طور پر بھی سیاسی، معاشی اور سماجی پسماندگی ایک حد سے آگے نہ بڑھ جائے اور ایک ایسا وژن اور متبادل نظام کی بنیاد ڈالی جائے جس کا محور غریب عوام کی آسودگی اور ترقی ہو۔ یاد رہے کہ گزشتہ ستر سالوں میں ریاستی قوتوں سے مزاحمت کا دائرہ سندھ اور بلوچستان تک محدود رہا ہے اور اب جبکہ پنجاب بھی اس صف میں شامل ہو گیا ہے تو امید کی جاسکتی ہے کہ اقبال کے اس شعر کی کوئی تاویل ہماری آنے والی نسلیں دیکھ سکیں!
سلطانیِ جمہور کا آتاہے زمانہ
جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین