• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر ملک کے ایک سابق اورطاقتور وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو جعلی اکائونٹس کے ایشو پر مکمل اندھیرے میں رکھا جاتا ہے حتیٰ کہ جب یہ کیس طاق کی زینت بنا دیا گیا وہ اس سے آگاہ نہ تھے اس سے یہ سنگین سوالات اٹھتے ہیں کہ کن ہدایات پر اس کیس کو2015سے التوا میں ڈالا گیا۔ بدھ کو چوہدری نثار علی خان نے بتایا کہ انہیں ایف آئی اے نے کبھی ایسی انکوائری کے بارے میں بتایا اور نہ ہی التوا کے حوالے سے آگاہ کیا ۔ وزارت داخلہ کو ایف آئی اے کی جانب سے انکوائری پر پیشرفت جو باقاعدہ رپورٹس دی جاتی ہے ان میں بھی اس کا کہیں ذکر نہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کے بارے میں اب یہ انکوائری دوبارہ کھول دی گئی ہے ان کے تمام 29 جعلی اکائونٹس کے ذریعے 35 ارب روپے کی مبینہ منی لانڈرنگ کے الزام میں سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے اپنے وکلا کے ذریعے جواب ایف آئی اے میں داخل کرائے ہیں۔ دسمبر 2017 میں اسٹیٹ بینک نے مشتبہ منتقلیوں کی رپورٹ (ایس ٹی آر) میں 29 جعلی اکائونٹس کا انکشاف کیا تھا جس کے بعد اس کیس کو رواں سال جنوری میں دوبارہ کھول دیا گیا۔ یہ انکوائری مبینہ سیاسی وجوہ کے باعث دو سال تک التوا کا شکار رہی۔ یہ بھی دیکھنا ہے ہو گا کہ خود اسٹیٹ بینک نے اس کیس میں کس حد تک دلچسپی لی اور ان تمام برسوں میں کیا اقدامات اٹھائے؟ یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ اس انکوائری کے دوبارہ کھولے جانے سے اس کے یکطرفہ ہونے کا تاثر زائل ہوجائے گا۔ اس کاانحصار انکوائری کی رفتار اور اس کے نتائج پر ہو گا۔ ان تمام برسوں کے دوران ایف آئی اے کی انکوائری ایک جعلی اکائونٹ میں پیشرفت سے آگے نہیں بڑھی کیونکہ ایف آئی اے کے مطابق تینوں بینکوں نے مبینہ طور پر تعاون سے انکار کر دیا تھا یا کوئی ریکارڈ ہی حوالے نہیں کیا۔ اب ایک بینکار حسین لوائی کی گرفتاری کے بعد جو آصف زرداری کے بے حد قریب بتائے جاتے ہیں آئندہ ہفتوں میں تحقیقات کے نئے موڑ لئے جانے کا امکان ہے۔ آصف زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کے نام زرداری لمیٹڈ کے باعث سامنے آئے ہیں اور منتقلی بظاہر کوئی بڑی نہیں ہے لیکن جعلی اکائونٹس کے حوالے سے دیگر کچھ لوگوں کے نام اور کمپنیاں بعد کے مراحل میں ان دونوں کے لئے مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں۔ ایف آئی اے کے کچھ متعلقہ افسران پر مزید کارروائی آگے نہ بڑھانے کیلئے دبائو ہے۔ ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس پر خاندان کے ارکان کا بھی دبائو ہے۔ ایک بھائی کو چھوڑ کر پورا خاندان درپہ ہے کہ میں انکوائری سے علیحدہ ہو جائوں کیونکہ اس کے انہیں سنگین نتائج بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔ انہو ں کہا کہ ان کے ایک بھائی نے حوصلہ دیا ہے اور وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ماضی میں بھی افسران کو دبائو کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے تبادلے بھی ہوئے۔ ایف آئی اے کو اس بات پر خوشی ہو گی اگر چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ ک تین رکنی بنچ پاناما کی طر ز پر جے آئی ٹی کی تشکیل دے۔ ان تحقیقات سے متعلق ایف آئی اے کے سینئر حکام نے جے آئی ٹی بنانے کی حمایت کی ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ یہ غیر معمولی انکوائری ہے جس میں بڑے نام اور کمپنیاں ملوث ہیں۔ ایسے اسکینڈلز میں گہرائی تک جانے کے لئے خصوصی اختیارات کی ضرورت ہو گی۔ توقع کے عین مطابق پیپلز پارٹی نے دو وجو ہ سے اپنے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ اول چونکہ آصف زرداری اور فریال تالپور کے نام ای سی ایل میں ڈالے گئے۔ دوسرے تین نام انہیں کھلتے ہیں جن میں ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے بشیر میمن، ڈائریکٹر ایف آئی اے کراچی منیر شیخ اور تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ نجف مرزا شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ پیپلز پارٹی کے مخالفین ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا پیپلز پارٹی جے آئی ٹی بنانے کی بھی مخالفت کرتی ہے یانہیں۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ مذکورہ تین شخصیات کی مخالفت ضروری کی جائے گی جس کی وجہ سیاسی ہے نہ پیشہ ورانہ بلکہ ذاتی ہے۔ ایف آئی اے نے جنوری 2018ایس ٹی آر کی روشنی میں تحقیقات دوبارہ کھولی ہے۔ لیکن رفتار سست ہے کیونکہ ایف آئی اے کو نیب جیسے اختیارات حاصل نہیں ہیں۔ دوسری انکوائری میں ملوث بینکوں نے تعاون سے انکار کیا۔ تیسرے کارروائی مزید آگے بڑھانے میں سیاسی رکاوٹیں حائل ہیں۔ آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ کس کے زبانی حکم پر تحقیقات کو التوا میں ڈالا گیا۔ خصوصی چوہدری نثار علی خان جیسے طاقت ور وزیر داخلہ کی موجودگی میں۔ بڑے نام سامنے آنے کے بعد حتٰی کہ اسٹیٹ بینک نے بھی دو سال قبل کارروائی آگے نہیں بڑھائی اور معاملہ التوا میں ڈال دیا۔ ایف آئی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ معاملہ التوا میں ڈالنے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ جائیداد اور دیگر کاروبار میں ملوث نامی گرامی شخصیات کے نام موجود تھے۔ یہ کیس ایسے وقت دوبارہ کھولا گیا ہے جب سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی بیٹی مریم اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو احتساب عدالت سے سزائیں سنائی جاچکی ہیں۔ گزشتہ برسوں میں سیاست اور جرائم کے گٹھ جوڑ کے سنگین الزامات لگے۔ لیکن کراچی آپریشن کے نتیجے میں ایسے کچھ کیسز بھی سامنے آئے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی موجودگی میں اپیکس کمیٹی اجلاسوں میں نرم لفظوں میں خبردار بھی کیا جاتا رہا۔ اس کے بعد فشریز کوآپریٹو سوسائٹی، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ، کے ڈی اے اور دیگر محکموں میں گرفتاریاں ہوئیں۔ ایک صف اول کے منی چینجر گروپ کے مالک کو بھی پکڑا گیا۔ ان تمام تحقیقات کے دوران جعلی اکائونٹس کی موجودگی کا انکشاف ہوا۔ جس کی اسٹیٹ بینک نے اپنی ایس ٹی آر میں تصدیق کی۔ اب اگر سپریم کورٹ ان جعلی اکائونٹس کی تہہ تک پہنچنے کیلئے جے آئی ٹی تشکیل دیتی ہے تو اربوں کی منتقلیوں کا کھوج لگایا جاسکتا ہے۔ چوہدری نثارعلی خان نے اپنی وزارت داخلہ کے دور میں کراچی آپریشن کو دہشتگردی کے تدارک سےلے کر منی لانڈرنگ کی تحقیقات تک وسعت دینے کی اجازت دی تھی۔ لیکن 2015 میں کارروائی شروع کئے جانے کے بعد ایف آئی اے نے پر اصرار طورپر معاملہ التواء میں ڈال دیا۔ انتہائی مشکوک معاملہ یہ تھا کہ کچھ کھاتے کھلے اور چند ماہ میں بند بھی کر دیئے گئے۔ آصف زرداری اورفریال تالپور کے نام اس طرح سامنے آئےکہ ایک منتقلی زرداری لمیٹڈ کے نام سے ہوئی۔ جب ایک جعلی اکائونٹ کے ریکارڈ کی چھان بین کی گئی تو ایسے دیگر کو اربوں کا حساب دینا ہے جے آئی ٹی بنائے جانے کا امکان موجود ہے کیونکہ پیپلزپارٹی نےپہلے ہی ایف آئی اے کے مذکورہ تین افسران پر اعتراضات کئے ہیں۔ اب انتخابات میں 15 دن رہ گئے ہیں۔ ان تحقیقات کا حتمی نتیجہ سندھ میں کئی حکومت کی تشکیل تک آ نہیں سکتا۔ لیکن سپریم کورٹ کےنظررکھنے کی صورت میں جعلی اکائونٹس کیس کا حتمی نتیجہ ہم دیکھ سکیں گے۔

تازہ ترین