• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انتخابات کا بائیکاٹ…کس نے کب کیا؟

سلیم اللہ صدیقی

جیسے جیسے پولنگ کا دن قریب آرہا ہے انتخابی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں ،قائدین ،جماعتیں ،امیدوار اپنے مقاصدمنشور اور اپنی ڈھیروں امیدیں لیے عوام کو اپنی جانب مائل کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آرہے ہیں ۔یہ سرگرمیاں اپنی جگہ لیکن اس ماحول میں بھی بعض جماعتیں اپنی کچھ تحفظات کو سامنے رکھ کر ردعمل میں بائیکاٹ کا اعلان کرچکی ہیں۔جون کے آغاز میں ہی گزشتہ کئی انتخابات میں سندھ کے شہری علاقوں سے کامیابی حاصل کرنے والی جماعت ایم کیو ایم کے لندن مقیم دھڑے کے بعد 23جون کو عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری کا اعلان کہ وہ جس نظام کے خلاف لڑتے رہے اس کا حصہ نہ بنتے ہوئے انتخابی عمل سے دور رہیں گے ،ان کی حمایت میں جے یو پی نیازی گروپ کی بھی الیکشن بائیکاٹ میں جانے کی خبرسامنے آچکی ہے۔

بقول شاعر ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا،آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔خدشات کے باوجود تاہم پاکستان کی انتخابی تاریخ میں سیاسی جماعتوں کا انتخابی بائیکاٹ میں جانا نا نیا ہے اور نہ کوئی انہونی۔یہ ہوتا رہا ہے۔اور اس کے باجود سوائے 1977 کے نتائج تسلیم بھی ہوئے ہیں۔

سات دسمبر1970 کو صدرپاکستان جنرل آغا محمد یحیی خان کے زیرنگرانی ملک بھر میں پہلی مرتبہ جماعتی بنیادوں پرقومی اسمبلی کے عام انتخاب منعقد ہوئے تھےاس موقع پر ملک کے مشرقی مغربی دونوں حصوں میں قائم 24سیاسی جماعتوں نے پوری تیاری کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیا ۔تاہم یادکرنے کی بات یہ ہے کہ انتخاب سے قریبا ہفتے قبل مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتوں عطاالرحمن خان کی پاکستان نیشنل لیگ جو کہ مزدرورں اور کسانوں کے نام پر سیاسی جدوجہد کررہی تھی ،دوسری جماعت جناب ایس اے سلیمان کی کرشک سرامک پارٹی ۔اور چین نواز کہلانی والی مولانا عبدالحمید بھاشانی کی نیشنل عوامی پارٹی نے انتخاب کے بائیکاٹ کاکیا تھا ان کی جماعت نیپ نے مشرقی اور مغربی دونوں حصوں میںقومی اسمبلی کےلیے اپنے20امیدوارکھڑے کیے تھے ان تینوں جماعتوں نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا ۔ان کا موقف تھا کیونکہ ملک کے مشرقی حصے میں سیلاب کی تباہی سے حالات موافق نہیں ہیں عوام ووٹ دینے سے قاصر رہیں گے لہذا انتخابی عمل کو کچھ دنوں کے لیے ملتوی کیے جائے۔

7مارچ1977کوپاکستان پیپلزپارٹی کے زیرنگرانی جماعتی بنیادوں پرملک بھر میں قومی اسمبلی کےلیے دوسرے عام انتخابات منعقد ہوئے۔جس میں حکمراں جماعت پاکستان پیپلزپارٹی اورحزب اختلاف کی نو جماعتوں پر مشتمل جس میں پاکستان مسلم لیگ ،جماعت اسلامی ،تحریک استقلا ل ،جمعیت علما اسلام ،جمعیت علما پاکستان ،نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی،پاکستان جمہوری پارٹی،خاکسار تحریک اور کل جموں وکشمیرمسلم کانفرنس شامل اتحاد پاکستان قومی اتحاد اور مسلم لیگ قیوم نے حصہ لیاتھا۔ پاکستان قومی اتحاد نےصوبہ بلوچستان میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اور 10مارچ کو ہونے والے ملک بھر کے صوبائی الیکشن کا مکمل بائیکاٹ کیا تھا۔اس بائیکاٹ کی کہانی کچھ یوں کہ 16جنوری 77 کو انتخابی مہم کے آغاز میں ہی حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے جے یو آئی کے سربراہ مولانا مفتی محمود نےپریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن جماعتیں اس خیال کی حامی ہیں کے بلوچستان کے ووٹرز کی اکثریت اپنے علاقوں سے نقل مکانی کرچکی ہیں اس لیے وہاں انتخابات ملتوی کیے جائیں ورنہ حزب اختلاف کی تمام جماعتیں بلوچستان میں انتخابات کا بائیکاٹ کریں گی جبکہ 9مارچ کو قومی اسمبلی کے انتخاب میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے 10مارچ کو ہونے والے ملک بھر کے صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔

اپنی حکمرانی کے آٹھویں برس آرمی چیف صدر جنرل ضیاالحق نے 25 اور28فروری1985 کوباالترتیب قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخاب منعقد کروائے تاہم دلچسپ بات یہ ہوئی کہ ایک عرصے سے بحالی جمہوریت وانتخابات سمیت دیگر مطالبات کےلیے جدوجہدکرنے والی جماعتوں پاکستان پیپلزپارٹی،تحریک استقلال،آزاد جموں و کشمیر مسلم کانفرنس،جمعیت علما اسلام،کونسل مسلم لیگ،پاکستان جمہوری پارٹی،نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی،قومی محاز آزادی،پاکستان مزدور کسان پارٹی پرمشتمل حزب اختلاف کے اتحاد ایم آر ڈی(تحریک بحالی جمہوریت ) نے اس پورے انتخابی عمل کا بائیکاٹ کیا تھا۔

واقعہ کچھ یوں ہے کہ11جنوری1985 کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر صدرجنرل ضیاالحق نےریڈیو اور ٹی وی پر خطا ب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ملک میں نئے انتخابات بالغ راے دہی اور غیر جماعتی بنیادوں پر ہوں گے۔قومی اسمبلی کے انتخابات 25 اور صوبائی کے 28فروری کو ہوں گے۔تاہم19 جنوری1985 کو حزب اختلاف کے اتحاد ایم آرڈی نے ملک میں ہونے والے غیر جماعتی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ایم آر ڈی کے کنوینر ملک محمد قاسم نے نے ایبٹ آباد میں  دو روزہ اجلاس کے بعدفیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھاکہ الیکشن 1973 کے آئین اور 1977کے انتخابی قواعد کے تحت ہوں تو ایم آر ڈی اس میں بلاتاخیر حصہ لے گی۔اس موقع پرانہوں نے انتخاب لڑنے کے خواہشمند کارکنوں کو متنبہ بھی کیا تھا کہ انتخابات لڑنے کی صورت میں خودبخود وہ پارٹی سے خارج ہوجائیںگے۔

اس موقع پر پی پی سینئر رہنما ملک معراج خالد نے ایم آر ڈی کو اپنے موقف پر نظر ثانی کےلیے کہا تھا۔ مولانا عبداللہ کی جمعیت اہلحدیث نے بھی غیر جماعتی انتخابات کے بائیکاٹ کیا تھا۔

16نومبر1988 کو صدر غلام اسحق خان کے زیرنگرانی ایک بار پھر جماعتی بنیادوں پرقومی اسمبلی کے نئے انتخابات عمل میں آئے ،خوش قسمتی سے یہ پہلا موقع تھا جب ملک کی کسی سیاسی جماعت نے انتخابی بائیکاٹ نہیںکیاتھا۔

نگراں وزیراعظم غلام مصطفیٰ جتوئی کے زیرنگرانی 24 اور 27اکتوبر1990 کوملک میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے نئے انتخاب عمل میں آئے،تاہم سیاسی ماحول میں زبردست تناو اور تلخیوںکے باوجود اس مرتبہ بھی کسی سیاسی جماعت کی جانب سے انتخابی بائیکاٹ کا فیصلہ سامنے نہیں آیا۔

نگراں وزیراعظم معین قریشی کے زیرنگرانی 6اور 9اکتوبر1993 کو نئ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات عمل میں آئے۔دو انتخابات کے وقفے کے بعد اس مرتبہ ایک بار پھر کچھ جماعتوں نے انتخاب کا بائیکاٹ کیا۔سب سے پہلے 8ستمبر 1993 کو پاکستان عوامی تحریک نے اس عمل میں لاتعلقی کا اعلان کیا ۔چیئرمین ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ موجودہ نظام انتخاب ناقص ہے لہذا ان کی جماعت کے نامزد کردہ تمام امیدوار اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لیں۔

لیکن انتخاب کے حوالے سے بڑا واقعہ قومی اسمبلی کے انتخاب کے پانچ دن قبل یکم اکتوبر1993 کو سامنے آیا جب مہاجر قومی موومنٹ نے بائیکاٹ کا اعلان کیا ۔ایم کیو ایم کا کہنا تھا کہ ہمارے امیدواروں کو انتخابی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جارہی۔تاہم قومی اسمبلی کے کامیاب بائیکاٹ کے بعداعلیٰ سطح کے حکومتی رابطوں کے بعد ایم کیو ایم نے 9اکتوبر کو ہونے والے صوبائی انتخاب میں حصہ لیا تھا۔لیکن دوسری طرف ایم کیو ایم حقیقی جس نے قومی اسمبلی کے انتخاب میں حصہ لیا تھا۔انہوں نے صوبائی اسمبلی کے انتخاب میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا۔ان کا موقف تھا کہ یہ فیصلہ کسی بڑے تصادم سے بچنے کےلیے وسیع تر مفاد میں کیا گیا ہے۔

تین فروری 1997 کو نگراں وزیراعظم ملک معراج خالد کے زیرنگرانی قومی اور صوبائی کے نئے انتخابات عمل میں آئے،اس موقع پر ایک بار پھر چند سیاسی جماعتوں نے بائیکاٹ کیا ۔انتخاب سے تین ہفتے قبل بائیکاٹ کرنے والوں میں جماعت اسلامی،جمعیت علما پاکستان ،تحریک استقلال اور غریب عوام پارٹی شامل تھی۔ان جماعتوں کا موقف تھانگران حکومت کی احتساب کے حوالے سے کارروائی غیر موثر ہے۔خدشہ ہے کہ جن لٹیروں کو اقتدار سے نکالا گیا تھادوبارہ منتخب ہوکر آجائیں گے۔پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے بھی ایک بار پھر پورے انتخابی عمل کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ۔

10اکتوبر2002 کو صدر جنرل پرویز مشرف کے زیرنگرانی جماعتی بنیادوں پرقومی اور صوبائی اسمبلی کے نئے انتخابات عمل میں آئے ۔ اور باوجود اس کے کہ ملک کی دو مقبول جماعتوں پی پی پی اور مسلم لیگ ن کے قائدپابندی کے باعث انتخاب لڑنے سے قاصر تھےکسی سیاسی جماعت نے بائیکاٹ نہیں کیا تھا ۔

18فروری2008کو صدر پرویزمشرف اور نگراں وزیراعظم محمد میاں سومروکے زیرنگرانی قومی اورصوبائی اسمبلی کے انتخابات عمل میں آئے۔تو اس انتخابات کا حزب اختلاف اے پی ڈی ایم نے بائیکاٹ کیا ہوا تھا۔ان جماعتوں کا مطالبہ تھا کہ پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے ججوں کی بحالی کے بغیر انتخابات میں حصہ لینا سب سے بڑا دھوکا ہے ۔حزب اختلاف میں شامل جماعتوں میںجماعت اسلامی،تحریک انصاف،پختون خوا ملی عوامی پارٹی،نیشنل پارٹی،نیشنل ورکرز پارٹی،بی این پی،عوامی تحریک،سندھ ترقی پسند پارٹی،خاکسار تحریک،پی ڈی پی،استقلال پارٹی،مسلم لیگ (قاسم) ،جے یو آئی سمیع الحق ،بلوچستان پارٹی شامل تھی۔ابتدا میں بائیکاٹ کرنے والی جماعتوں میں مسلم لیگ (ن) عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علما اسلام (ف) بھی شامل تھی۔تاہم انہوں نے اپنے فیصلے پر الیکشن سے قبل نظر ثانی کی تھی۔

11مئی 2013 کو نگراں وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو کے زیرنگرانی قومی اور صوبائی اسمبلی کے ملک بھر میں نئے انتخابات عمل میں آئےتو کئی جماعتیں بائیکاٹ پر تھیں۔ دو ماہ قبل 18مارچ کو پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری نے ایک بار پھر عام انتخاب کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ موجودہ کرپٹ سیاسی نظام کا حصہ بننے کو تیار نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ انتخابی دن پولنگ اسٹیشن کے سامنے دھرنے بھی دیں گے۔ پاکستان غرباء پارٹی کے چیئرمین ممتاز حسین نیازی نے بھی بائیکاٹ کا اعلان کیا۔

4مئی کو پرویزمشرف کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ نے بائیکاٹ کا اعلان کیا،ان کا موقف تھاہمارے لیڈر سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کو انتقام کا نشانہ بنیاجارہا ہے جس کے بعد بائیکاٹ کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔اس کے علاوہ بلوچستان میں ناراض بلوچ جنگجوو گروپ بائیکاٹ کیے ہوئے تھے۔

دوران الیکشن کراچی سے جماعت اسلامی ،سنی تحریک،مہاجر قومی موومنٹ،عوامی تحریک،سنی اتحاد کونسل،جے یو پی،ا ور جمہوری وطن پارٹی نے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔بی این پی عوامی اور جمعیت نظریاتی نے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ان جماعتوں کا موقف تھا کہ شہر میں الیکشن میں دھاندلی ہورہی ہے۔

تازہ ترین