انسانی فطرت کے گہرے لاشعور میں ان گنت خواہشات اور آرزوئیں مچلتی رہتی ہیں، جیسے سمندر کی تہہ میں موتی اورہیرے چمکتے ہیں۔ خواہش اور آرزو زندگی کی علامت، جستجو اور جدوجہد کا جذبہ اور انسانی زندگی کو متحرک رکھنے کا باعث بنتی ہیں۔ آرزوئیں اور خواہشات ختم ہوجائیں تو انسان مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں کھو جاتا ہے، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ جب تک انسان کی آنکھ کھلی ہےاوروہ زندہ ہے، تب تک آرزوئیں جنم لیتی رہتی ہیں اور انسان ان کا پیچھاکرتا رہتا ہے۔ میرے نہایت محترم دوست پروفیسر مرزا منور مرحوم اپنا ایک قطعہ کبھی کبھار سنایاکرتے تھے۔ آپ بھی پڑھ لیں کیونکہ میں آپ کو سنا نہیں سکتا؎
آرزو سے ہے گرمی خاطر
آرزو ہے چراغ سینے کا
آرزو خام ہی سہی اے دوست
آرزو آسرا ہے جینے کا
گویا ایک لحاظ سے آرزو آسرا ہے جینے کا۔ چنانچہ خواہشات اور آرزوئیں، بینائی ہو یا انسان بینائی سے محروم ہو، انسانی لاشعور میں جنم لیتیں اور پروان چڑھتی رہتی ہیں۔ نتیجے کے طور پر انسان ان کا پیچھا کرتا رہتا ہے اور انہیں عملی جامہ پہنانے یا انہیں شرمندہ تعبیرکرنے کے لئے جدوجہد کرتا رہتا ہے۔ بعض آرزوئیں محض سراب ہوتی ہیں اور کبھی حاصل نہیں ہوتیں، جس طرح بہت سے خواب کبھی حقیقت نہیں بنتے اور بعض خواہشات کوشش اورمحنت سے پایہ ٔ تکمیل کو پہنچ جاتی ہیں۔ ان کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہر شخص اس تجربے سے گزرتا اور اس ذائقے سے لطف اندوزہوتا رہتا ہے۔ خوابوں کا ٹوٹنا اور خواہشات کا تشنہ ٔ تکمیل رہنا اور بعض اوقات اس وقت ریزہ ریزہ ہو جانا جب لب بام محض دو چار ہاتھ رہ گیا تھا، انسان کو وقتی طور پر مایوس کرتا، اس کا دل توڑتا اور صدمے کی کیفیت سے دوچار کرتاہے لیکن قدرت کا نظام بھی عجب ہے، جوزخم دیتا ہے وہی زخم پر پھاہا رکھ کر اسے مندمل بھی کردیتاہے ۔ جو مایوسی لاتاہے، وہی اس کیفیت سے نکالتا بھی ہے۔ زندگی بھر یہی سلسلہ جاری رہتا ہے حتیٰ کہ زندگی کی شام چھا جاتی ہے اور پھراچانک آنکھیں ہمیشہ کے لئے بند ہو جاتی ہیں۔
مطلب یہ کہ خواہش اور آرزو انسانی فطرت کا حصہ ہیں اور اگر انسان میں خواہش اور آرزو کی تپش نہ ہوتی تو زندگی برف کا تودہ بن کر رہ جاتی اور حرکت سے محروم رہ جاتی۔ مشاہدے اورتجربے سے پتا چلتاہے کہ اکثر اوقات یہی خواہش اور آرزو ’’ہوس‘‘کاروپ دھارلیتی ہے اور انسان کو ایک ایسی راہ پر ڈال دیتی ہے جس کا کوئی کنارہ اور کوئی حد نہیں۔ آپ غور کریں تو راز کھلے گا کہ یہ کارنامہ نفس کا ہے جو انسان کے اندر گھات لگائے بیٹھا رہتاہے۔ نفس کا کام ہی انسان کو قناعت، ایمانداری، خوف ِ خدا اور سکون ِ قلب سے محروم کرنا ہے۔ خواہش حلال اور خوف ِ خدا کی حدودکے اندررہتی ہے جبکہ ہوس ان دیواروںکو مسمار کرکے جھوٹ، فراڈ، دوسروں کے حقوق پامال کرنے اورہر ناجائزطریقہ سے خواہش کی تکمیل کو زندگی کامقصد بنا دیتی ہے۔ انسانی نفس خواہشات کے حصول کے لئے باطن میں چنگاریاں بھڑکاتا اور آگ جلاتا ہے اور پھر انسان کی آنکھوں پرپٹی باندھ کر اسے حلال و حرام، جائز و ناجائز کی تمیز سے محروم کردیتاہے۔ میں نےان گنت کاروباری حضرات حتیٰ کہ ڈاکٹروں، پروفیسروں، قلمکاروں، صحافیوں اور دانشوروں کو خواہش کی وادی سے نکل کر ہوس کی پُرفریب گھاٹی میں قدم رکھتے دیکھا ہے اور پھر دولت کے انبار لگانے اور دولت کی بھوک کو مٹانے کے لئے جھوٹ، دھوکہ دہی اور لالچ کے ہاتھوں میں کھیلتے دیکھا ہے۔ ان کی اس زندگی کو بھی دیکھا جو محض سادہ خواہشات کی زندگی تھی۔ جس میں اصولوں، سچ، قناعت اور ایمانداری کے تحت رزقِ حلال کے لئے جدوجہد جاری تھی اور اس زندگی کو بھی دیکھا جب وہ نفس کے فریب میں آ کر ہوس میں مبتلا ہوئے اور اصولوں سے انحراف کرکے جھوٹ، دغا، خوشامد، حکمرانوں کی قربت، دوسروں کے حقوق کی پامالی اور ہر ناجائز طریقے سے دولت کمانے کی دُھن کا شکار ہو گئے۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ جب انسان پر ہوس کا خبط سوار ہوتا ہے تو وہ اسے کامیاب زندگی سمجھتا ہے اور گزشتہ ایمانداری کی زندگی کو ناکام زندگی کہنا شروع کردیتا ہے۔ انہیں یہ سمجھانا ناممکن ہو جاتا ہے کہ دراصل یہ نفس کی چالیں ہیں جنہوں نے آپ کو ہوس میں مبتلا کرکے دولت، عیش و عشرت، محلات، معاشرے میں اعلیٰ مقام اور شان و شوکت کے فریب میں مبتلا کردیا ہے۔ سیدھی راہ سے بھٹکانا، رزق حلال اور سچ سے ہٹا کر رزق حرام اور جھوٹ کی شاہراہ پر ڈالناہی نفس کا کام ہے اور اس مقصد کے لئے نفس ایسے ایسے حیلے بہانے تراشتا ہے اور ایسی ایسی دلیلیں گھڑتا ہے کہ دیکھنے اور سننے والا دنگ رہ جاتا ہے۔ بالآخر اگر کبھی انسان خواب ِ فریب سے بیدارہوتو اسے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سکونِ قلب اور اطمینانِ ضمیر سے محروم ہوچکا ہے اور ایسی دوڑ میں شریک ہوچکا ہے جس کاکوئی انجام نہیں۔ میں نے بے شمارسیاستدانوں، حکمرانوں، افسروں، صحافیوں، لکھاریوں، کاوباری شخصیات، دکانداروں، ٹھیکیداروں اور اعلیٰ عہدیداروں وغیرہ کو ہوس سے اندھاہوتے اور ’’ہل من مزید‘‘ کی آگ میں جلتے دیکھا ہے۔ بقول علامہ اقبال ہوس چھپ چھپ کر سینوں میں بت بنا لیتی ہے اور انسان ہوس کے ہاتھوں اندھا ہو کر خواہشات کے ان بتوںکو پوجنا شروع کردیتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہوس کے مارے سیاستدانوں، درباریوںاور حاکموں نے اپنی ہوس کی تکمیل کے لئے ملک تک توڑ دیئے، قوموںکےسودے کردیئے اورقریبی رشتے داروں کے ساتھ ساتھ دوست تک مروا دیئے۔
جب ہوس بے لگام ہو جائے، اس کی تشنگی ختم ہونے سے انکار کردے اورانسان خواہشات کے الائو میں جلنے لگے تو سمجھ لیں کہ ہوس شہوت میں بدل چکی ہے۔ جب انسان اربوںکما کر ، دنیا بھر میں قیمتی جائیدادیں خرید ، اپنے اثر ورسوخ سے یتیموں اوربیوائوں کی جائیدادوں پر قبضہ کرکے ، قومی وقار کا سوداکرکے اور ٹیکسوں اوررشوت سے اربوں کما کر بھی خواہش کو لگام نہ دے تو سمجھ لیں کہ وہ دولت کی شہوت کا مریض بن چکا ہے۔ شہوت کے بھی کئی درجے ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو ’’حسن‘‘ کی شہوت ہوتی ہے اور خوبصورت چہروں کے تعاقب میں دن رات گزار دیتے ہیں، کچھ کو دولت کی شہوت ہوتی ہے اور وہ سوتے جاگتے دولت بنانے کی ترکیبیں سوچتے رہتےہیں اور کچھ کو کھانے کی شہوت ہوتی ہے۔ ان کا معدہ بھر بھی جائے تو آنکھ نہیں بھرتی۔ میںنے ایک رئیس سیاستدان کو دیکھا کہ ان کی میز پر ہر قسم کے ان گنت کھانے چنے گئے تھے جبکہ کھانے والے فقط دو افراد تھے۔ ایک وہ خود اور دوسرامہمان۔ وہ بمشکل قسم قسم کے کھانوں میں سے چھ سات ڈشوں سے کھانا کھا سکے جبکہ بہت سی ڈشیں ان کی محض منتظررہیں۔ ان کا معدہ بھر گیا لیکن آنکھ کی بھوک مٹنے کانام نہیں لیتی تھی۔ وہ جہاں بھی جاتے مختلف کھانوں کے ماہر باورچیوںکی تلاش میں رہتے۔ گویا انہیں کھانے کی شہوت نے بےبس کر رکھا تھا۔
اسی طرح کئی ادیبوں، لکھاریوں، کاروباریوں اور سیاستدانوں کو شہرت کی ہوس اور پھر شہوت میں مبتلا ہوتے دیکھا۔ بعض ڈاکٹروں کے پاس بحیثیت مریض اور بعض نامور وکلا کے پاس بحیثیت سائل جانے کا موقع ملا تو ان کی آنکھوں سے ’’فیس‘‘ (Fee) کی شہوت ٹپکتے دیکھی۔ موضوع طویل ہے لیکن دوستو! حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول یاد رکھو کہ ’’ضرورت تو بھکاری کی بھی پوری ہو جاتی ہے لیکن خواہش بروزن ہوس بادشاہ کی بھی پوری نہیں ہوتی‘‘اپنی خواہشات کو لگام دے کر رکھو اور انہیںاخلاقی دائرے تک محدود رکھو ورنہ اگر نفس کے غلام بن گئے تو ہوس کی کوئی حد نہیں۔ ہوس انسان کو جیتے جاگتے اندھا کردیتی ہے اور ضمیر کو لوریاں دے کر سلا دیتی ہے۔ اللہ پاک ہمیں اپنی امان میں رکھے۔