• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی سیاسی یکجہتی ، انتخابات ناگزیر
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے، دہشت گردی کے خلاف عوام اور فوج متحد، دشمن قوتوں کے گٹھ جوڑ سے لڑرہے ہیں پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ حملہ آور سامنےآئے، کالعدم تحریک طالبان نے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی۔
دشمن کے گٹھ جوڑ کو ایک مضبوط گٹھ جوڑ ہی سے توڑا جاسکتا ہے اور یہ بات باعث اطمینان ہے کہ ارباب سیاست، پوری قوم اور ہماری آرمڈ فورسز متحد ہیں کیونکہ یہ حملہ ریاست پر ہے، 25جولائی کے انتخابات میں رخنہ ڈالنے، سبوتاژ کرنے کی کوشش شروع ہوچکی ہے۔ اب ہمیں 25جولائی کے الیکشن کو بہر صورت ممکن اور یقینی بنانا ہوگا اور اسی صورت ممکن ہے کہ دشمن کے خلا ف ہمارا گٹھ جوڑ مستحکم ہو۔ ہماری جانب سے کسی ایسے غلط اقدام کی ہرگز گنجائش نہیں جس سے پاکستان دشمن قوتوں کے عزائم کو تقویت ملے، ہمارے سیاسی قائدین کا امتحان ہے، انہیں انتخابی مہم کو مثبت اور پرامن رکھنا ہوگا، کسی طرح کی ہنگامہ آرائی کسی صورت نہ ہو تاکہ انتخابات بروقت، پرامن اورشفاف انداز میں ہوں۔ انتخابات کا التواء ہمارے ریاستی جمہوری وجود پر کاری ضرب ہوگا، کسی بھی صورت میں پاکستان کو افغانستان بنائے جانے کی سازش ناکام نہ کی تو ناقابل تلافی نقصان ہوسکتا ہے۔ کالعدم تحریک طالبان ہماری ہی سرزمین سے اٹھی اوراس پر ابتداء ہی میں ہاتھ ڈالنے میں تاخیر نے اس کی آبیاری کی، دشمن کے گٹھ جوڑ کی کٹھ پتلی یہ تحریک ہے۔ مقصد ایک ہے کہ کسی طرح پاکستان میں انتخابات کو درہم برہم کردیا جائے، اب یہ پاکستانی قوم اور سیاسی قائدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابات کےمیدان کو میدان جنگ ہرگز نہ بننے دیں، یوں اگر ہم اندر سے متحد مضبوط اور پرامن رہیں گے تو دشمن اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہیں ہوسکےگا۔
٭٭ ٭ ٭ ٭
صبر و تحمل کامیابی کا ضامن
نواز شریف نے کہا ہے، سویلین بالادستی کی جنگ میں جیل ہو یا پھانسی قدم نہیں رکیں گے۔ سویلین بالا دستی کی جنگ اپنی جگہ مگر اس وقت پاکستان میں عام انتخابات کو خطرہ ہے۔ دشمن ہمارے اندرونی اختلافات و حرکات کا ناجائز فائدہ اٹھانے پر تلا ہوا ہے، بلکہ اس نےپہلا وار کردیا ہے۔ ان کے بیانیہ کو تقویت ملے گی اگر وہ کسی قسم کی محاذ آرائی سے نہ صرف خود بلکہ اپنی جماعت کو بھی روکیں، نظریہ آرہا ہے کہ مزاحمت کی سیاست سے موجودہ صورتحال میں پاکستان دشمن عناصر فائدہ اٹھائیں گے۔ سیاست میں اونچ نیچ آتی رہتی ہے وہ پہلے بھی اس کو دیکھ چکے ہیں، سویلین بالادستی کو کوئی خطرہ نہیں۔ خطرہ ہماری ریاست کو ہے، اداروں میں ٹکڑائو نہیں ، مگر ایک سازش ہورہی ہے کہ ٹکرائو کرایا جائے اور اختلاف کو جنگ میں بدلا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ میاں صاحب اپنی روایتی بردباری اور دانشمندی سے کام لیں گے، ان کا ردعمل بجا ہے، مگر اس حد تک نہیں کہ کوئی اس سے ناجائز فائدہ اٹھالے، ہمارے لئے آج ملک گیر یکجہتی جس قدر ضروری ہے اتنی پہلے کبھی نہ تھی۔ اب معاملہ ہے پاکستان اور اس میں جمہوریت کے تسلسل کو برقرار رکھنے کا، اس لئے مسلم لیگ ن کے قائد وسیع تر ملکی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے پاکستان کی بالادستی کو اولین ترجیح دیں۔جیل جانا ان کے لئے کوئی نئی بات نہیں، پھانسی اسے ہوتی ہے جس نے کسی کاقتل کیا ہو، انہوں نے ہمیشہ جمہوری اقدار کی جنگ پرامن انداز میں لڑی ہے اور کامیاب رہے ہیں۔ اب بھی وقتی امتحان و آزمائش ہے وہ اس میں کامیابی حاصل کریں سیاسی کامیابی حاصل کرنے کا یہی طریقہ ہے۔ مزاحمتی سیاست سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، پاکستان میں کاروبار ریاست کا چلتے رہنا لازمی ہے۔
٭٭ ٭ ٭ ٭
قوم کو سیاسی تاریخ نہیں رہنمائی کی ضرورت
ہم نے دیکھا ہے کہ میڈیا پر قوم کو سیاسی تاریخ کے واقعات سنانے اور اپنی اپنی نکتہ وری کے کرشمے دکھانے پر زور ہے، جبکہ اس وقت غیظ و غضب اور باہمی اختلافات کو ٹھنڈا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا ہر لفظ، ہر بات، ہر اظہار محتاط ہونا چاہئے، سب سے اہم بات قوم کو بتانا چاہئے ووٹ کی اہمیت ہے، لوگوں کو صحیح سمت میں چلنے اور اپنی رائے دینے کی طرف راغب کیا جائے۔ ہمارے ہاں تعلیم عام نہیں، اس لئے اس خلا کو میڈیا لٹریسی پروگراموںکے ذریعے پر کرے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آج پاکستان میں جو آگاہی پھیلی ہے وہ میڈیا کے باعث ہے۔ میڈیا ہی نے سیاہ وسفید میں فرق واضح کیا اور قوم کو قومی مفاد پیش نظر رکھنے کی تعلیم دی۔ اب ہماری گزارش تمام اہل قلم اور دانشور حضرات سے یہ ہے کہ وہ1947سے لے کر آج تک کی کتھا سنانے کے بجائے وہ راستہ دکھائیں جس پر چل کر اچھے مستقبل کی روشن تاریخ مرتب کی جاسکے۔ زبان و قلم کے جوہر دکھانے کے بجائے قوم کو یہ بتایا جائے کہ وہ اپنے جوہر سے مثبت کام کس طرح انجام دے ،مثال کے طور پر مجھے اپنے اس کالم میں سیاسی واقعات ، اعداد وشمار اور سابقہ نقصانات کا مرثیہ کہنے کے بجائے اس بات کی ضرورت ہے کہ سادہ انداز میں یہ بتائوں کہ اس وقت کے تقاضے کیا ہیں، ہم نے اس ریاست کو مضبوط کیسے رکھنا ہے اور انتخابات کی کیا اہمیت ہے۔ ہم نے ووٹ ذات برادری اپنی شخصیاتی پسند ناپسند کو نہیں ملک و ملت کےوسیع تر مفاد کو دینا ہے اس کے لئے ہمیں سادہ معقول دلائل کی ضرورت ہے، غیر ضروری معلومات دینے کی ضرورت نہیں۔
’’ساڈی خیر اے‘‘
٭...چیف جسٹس، لوٹے ہوئے اربوں روپے سوئٹرز لینڈ، دبئی سے واپس لانے ہوں گے۔
ستم ظریفی ہے کہ ہم یہاں اور ہماری جیب کہیں اور، ہم کہاں ہاتھ ڈال کر پیسے نکالیں اور زندہ رہنے کا سامان خریدیں۔
٭...عمران خان، چور اعظم آرہا ہے کہتا ہے استقبال کرو۔
اس جملے کے بغیر بھی جلسہ ہوسکتا تھا، کسی سے نفرت کے بجائے پاکستان سے محبت پیدا کریں خان صاحب!
٭...ریحام خان کا انکشافات سے بھرپور انٹرویو سامنے آگیا۔
اب ووٹر کو ووٹ ڈالنے کے حوالے سے فیصلہ کرنے میں مزید آسانی ہوگی۔ ووٹر کی معلومات میں لیڈرز بارے اضافہ اچھا شگون ہے۔
٭...چیئرمین نیب، بیوروکریسی شاہ کی وفادار نہ بنے۔
یہ وفاداری نبھاتے ہوئے تو اس نے اس غریب قوم سے جفا شعاری نبھائی، ان کی افسریاں قائم رہے’’ساڈی خیر اے‘‘
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین