• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں کنٹینرز کی تاریخ کچھ زیادہ قدیم نہیں۔ پاکستان ریلوے کی تباہی کے بعد یہاں چلتے پھرتے کنٹینرز کو فروغ ملا ۔اس سے پہلے زیادہ تر سامان کی ترسیل مال گاڑیوں سے ہوتی تھی۔ رفتہ رفتہ کنٹینر مافیا کی گرفت مضبوط ہوتی گئی۔فونڈریوں میں انجن پگھلتے رہے۔ ریلوے مال گاڑیاں بند کرتا رہا۔ اعلیٰ افسران خسارہ بڑھاتے رہے ۔کنٹینر مافیا زندہ باد کے نعروں سے فضا گونجتی رہی۔ پاکستانی سیاست میں بھی کنٹینرز نے ایک خاص اہمیت حاصل کرلی ہے۔ہم نے کنٹینرز کا جو استعمال نکالا ہے وہ کنٹینرز بنانے والوں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ آج پھرکنٹینرزکی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ لاہور ایئرپورٹ کی طرف جانے والے تمام راستوں پر پھر کنٹینر لگا دئیے گئے ہیں۔ کل کسی کے لئے کنٹینر لگانے والے آج خود کنٹینرز کا سامنا کریں گے۔ شہباز شریف نے ہرامیدوار سے کہا ہے کہ اُس کے حلقہ انتخاب سے کم ازکم پانچ سوافراد ضرور لاہور پہنچیں۔ ہر کونسلر کو پچاس لوگوں کی ذمہ داری دی گئی ہے اور ہر چیئرمین کو تین سو لوگ ساتھ لانے کےلئے کہا گیا ہے۔ نون لیگ توقع رکھتی ہے کہ آج تقریباً دو لاکھ افراد نواز شریف اور مریم نواز کے استقبال کے لئے لاہور آئیں گے۔ رکاوٹیں کھڑی کرنے پرپنجاب کی نگران حکومت کو نون لیگ کی لیڈرشپ نے دھمکیاں بھی دی ہیں۔ ایاز صادق کی دھمکی پر انہیں گرفتار کیا جانا ضروری سمجھا جارہا ہے۔ وہ تمام لیڈرشپ جنہوں نے نون لیگ کے داماد کے ساتھ مل کر راولپنڈی میں ریلی نکالی تھی ان پر مقدمات درج ہوچکے ہیں۔ اِس جر م میں راولپنڈی کے دو اہم لیڈروں کا نااہل ہونا یقینی لگ رہا ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز کی حمایت میں بد امنی پھیلانے والوں کی گرفتاریوں پرسنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے ۔دفعہ ایک سوا چوالیس لگادی گئی ہے۔ دو سو کے قریب نون لیگ کے کارکن اس وقت تک گرفتار کئے جا چکے ہیں۔ شہباز شریف، ایاز صادق، سعد رفیق، حمزہ شریف وغیرہ کی گرفتاری پر سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے۔ منی لانڈرنگ کا کیس کھلنے پر آصف زرداری کے حکم پر خورشید شاہ نے ایاز صادق سے رابطہ کیا تو ایاز صادق نے نواز شریف کے استقبال میں پیپلز پارٹی کی شرکت کا مطالبہ کیاکہ میثاقِ جمہوریت پر عمل درآمد کیا جائے جسے پیپلز پارٹی نے مسترد کردیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثارکےاعتمادِ ذات سے بھرے ہوئے اِ س پُر یقین جملے نے امیدوں کا ایک بجھا ہوا چراغ پھر سے روشن کر دیا کہ سوئٹزرلینڈ اور دبئی سے لوٹے ہوئے اربوں روپے واپس لانے ہوں گے۔ کہتے ہیں ایک سال پہلےفریال تالپور نے کچھ لوگوں سےدو ارب ڈالر واپس کرنے کی بات کی تھی جب کہ دوسری طرف سے پانچ ارب ڈالر واپس کرنے کا کہا گیا تھا۔ کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر نواز شریف بھی پانچ ارب ڈالر واپس کردیں تونیب اُن کے ساتھ اب بھی باقی مقدمات میں پلی بارگین کر سکتا ہے۔ نون لیگ کےمرکزی قائدین نے فیصلے سے پہلے بھی جیل کی سزا سے بچنے کیلئے نواز شریف کو نیب کے ساتھ پلی بارگین کرنے کا مشورہ دیا تھامگر بربادیوں کے اصل مشورے تو آسمانوں پر ہورہے تھے۔ پاکستانی قوم کی اکثریت کا خیال ہے کہ آٹھ ہزار پھانسی کے منتظر قیدیوں میں سے جو ایک قیدی کو نکال کر لٹکا دیا گیا تھا۔ وہی پھانسی شریف خاندان کی تباہی کا سبب بن رہی ہے۔
آج لاہور میں چالیس پچاس ہزار لوگوں کے جمع ہونے کا امکان ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ چالیس پچاس لاکھ بھی ہوں تو اِس سے نواز شریف اور مریم نواز کی سزاکم تو نہیں ہو سکتی۔ عدالتیں جلسوں اور جلوسوں کو دیکھ کر فیصلے نہیں کیا کرتیں۔ آصف علی زرداری کو بھی بے نامی اکائونٹس کا جواب دینا ہوگا۔ اگرچہ چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کہہ چکے ہیں کہ ’’کرپٹ عناصر برباد ہوجائیں گے، ملک چھوڑ دیں گے جس کے پاس چھ مرلے کا فلیٹ نہیں تھا آج اُس کے پاس دبئی میں ٹاورز ہیں۔ انہیں اِس کا حساب دینا ہوگا۔ ملک کی بربادی کا سبب بننے والے اب شاہانہ انداز میں نہیں رہیں گے‘‘۔ مگر دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کے پس منظر آصف علی زرداری اور نوازشریف دونوں جان چکے ہیں کہ انہیں بیرون ِ ملک اپنی دولت کو محفوظ رکھنے کی جنگ پاکستان میں لڑنی ہے اب یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ دولت جسے پاکستانی عدالتیں غیرقانونی قرار دے دیں، اسے آسانی سے کسی ملک کے بینک میں رکھ سکیں۔ نواز شریف اور مریم نواز کی واپسی کی بنیادی وجہ بھی یہی قرار دی جارہی ہے۔ یعنی اب نواز شریف یا آصف علی زرداری کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ہو یا نہ ہو اِس سےکوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ بات بھی واضح کردوں گا کہ ابھی تک یہ بات یقینی نہیں ہے کہ کل نواز شریف اور مریم نواز ہرحال میں لاہور پہنچیں گے۔ یہ دن بدل بھی سکتا ہے۔ وہ کسی وقت بھی اپنی فلائٹ تبدیل کرسکتے ہیں۔ ابو ظہبی کے راستے سے لاہور آنے کی پلاننگ بھی اِسی لئے کی گئی ہے کہ وہاں پہنچ کر دیکھا جائے کہ لاہور کی کیا صورتِ حال ہے اگر ملک بھر سے ان کی توقع کے مطابق عوام پہنچ گئے ہیں تو پھر جایا جائے وگرنہ فلائٹ منسوخ کردی جائے۔
ایک اور اہم ترین بات یہ ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور بھارت پاکستان میں اپنے مقاصد کے حصول کےلئے اپنی مرضی کی حکومت چاہتے ہیں۔ ایسی حکومت جو ذہنی طورپر افواجِ پاکستان کے خلاف ہو کیونکہ پاکستانی فوج کو کمزور کئے بغیر یہ ممالک جنوبی ایشیا میں جو تبدیلیاں چاہتے ہیں وہ ممکن نہیں ہیں۔ دوسری طرف سابق وزیراعظم نے فوج پر ’’پولیٹکل انجینئرنگ‘‘ کا الزام لگا دیا اور کہا کہ میں فوج کی الیکشن میں دخل اندازی برداشت نہیں کروں گا۔ الیکشن کو صاف شفاف کرانے کی ذمہ داری افواج پاکستان کو الیکشن کمیشن نے دی ہے۔ اسے ایک نااہل اور سزایافتہ شخص کیسے روک سکتا ہے۔ امیدواروں میں لوگوں کو لانے کےلئے کروڑوں روپے تقسم کر دئیے گئے ہیں۔ ویسے موسمی حالات بتانے والے بھی اس وقت نون لیگ کا ساتھ نہیں دے رہے ان کے مطابق جس وقت نواز شریف کے جہاز نے لینڈ کرنا ہے اُس وقت لاہور میں اتنی تیز بارش ہو گی کہ نواز شریف کا جہاز لاہور ایئر پورٹ کی بجائے کسی اور ایئرپورٹ پر لینڈ کرنا پڑے گا۔ آج کے روز جس طرح کی بارشوں کی پیشین گوئی کی گئی ہیں اگر وہ سچ ثابت ہوئیں تو نون لیگ کی عزت بچ جائے گی کہ بارش کی وجہ سے استقبال کےلئے زیادہ لوگ لاہور نہیں پہنچ سکے وگرنہ یہ استقبال نون لیگ کے تابوت کے لئے آخری کیل بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ یعنی آسمان پوری طرح عمران خان کا ساتھ دے رہا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین