• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احتساب عدالت کاشریف فیملی کے خلاف فیصلہ آنے کے بعد ملکی سیاسی منظرنامہ تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے احتساب عدالت کے فیصلے کو انتقامی کارروائی قرار دیا ہے مگر اس کے باوجود ملک کے سنجیدہ قومی و سیاسی حلقوں میں اس فیصلے کو سراہا گیا ہے۔ یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ ملک میں اس وقت آزاد عدلیہ موجود ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز پاکستان کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے۔ جب تک ملک میں کرپشن ختم نہیں ہوگی اُس وقت تک حالات سدھر نہیں سکتے۔ مسلم لیگ (ن) کے بعد اب پیپلزپارٹی کو بھی احتساب کے شکنجے میں لایا جارہا ہے۔ سپریم کورٹ کا 35ارب روپے کی منی لانڈرنگ کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری سمیت ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کو طلب کرنا اور اُن کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے احکامات خوش آئند ہیں۔ اب یہ بھی تاثر زائل ہوگا کہ کسی ایک خاندان یا پارٹی کاہی احتساب نہیں ہو رہا بلکہ احتساب کا دائرہ کار وسیع ہوچکا ہے۔ جس نے بھی قومی خزانے کو لوٹا ہے اُس کا کڑا احتساب ہونا چاہئے، چاہے اُس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو۔ بدقسمتی سے جنرل پرویز مشرف کے دور میں نیب کے ادارے کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا۔ سابق ڈکٹیٹر نے اپنے سیاسی مخالفین کو نیب کے ذریعے دبایا اور اپنے اقتدار کو طول دیا مگر دوسری طرف مشرف دور کے وزرا کی کرپشن پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ نیب کا ادارہ ماضی میں
متنازع ہوگیا۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال کو نیب کا سربراہ بنانے سے صورتحال کافی حد تک بدل چکی ہے۔ اب نیب کی کارکردگی پہلے سے بہتر ہوگئی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی وزیر اعظم کو کرپشن کے جرم میں نااہل قرار دیا گیا اور اُسے احتساب عدالت سے سزا سنائی گئی۔ عدلیہ اور نیب کے اداروں کے متعلق پہلے یہ شکوک وشبہات پائے جاتے تھے کہ بااثر افراد اپنی دولت کے بل بوتے پر چھوٹ جاتے ہیں اور ان کو سزا نہیں ملتی جس کی وجہ سے قومی ادارے غیر موثر ہوتے جارہے تھے۔ اب نیب نے پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں کے کرپٹ افراد کے خلاف کارروائی کاا ٓغاز کرکے ایک اچھا اقدام کیا ہے مگر اس سلسلے کو رکنا نہیں چاہئے۔ پاناما لیکس اسکینڈل میں نواز شریف فیملی کے علاوہ دیگر 436پاکستانی شامل تھے، ان کے خلاف نیب کو فوری حرکت میں آنا چاہئے۔ اسی طرح دبئی لیکس، پیراڈائز لیکس اور قرضے معاف کرانے والوں کا بھی کڑا احتساب وقت کا اہم تقاضا ہے۔ مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ جے آئی ٹی پر خوشیاں منانے والی مسلم لیگ (ن) اب عدالتی فیصلوں کے خلاف بیان بازی کررہی ہے۔ 13جولائی کو جمعہ کے روز سابق وزیر اعظم نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز نے پاکستان آنے کا اعلان کیا ہے۔ ان سطور کی اشاعت کے روز آج جمعتہ المبارک کی شام وہ لاہور ایئرپورٹ پہنچیں گے۔ اسی تناظر میں ممتاز صحافی و کالم نگار سہیل وڑائچ کی کتاب ’’دی پارٹی اِز اوور‘‘موصول ہوئی ہے۔ اس کتاب کی ٹائمنگ بڑی اہم ہے۔ چونکہ چند روز تک پاکستان میں الیکشن ہونے والے ہیں، ایسے موقع پر اس کتاب کے منظر عام پر آنے سے سیاسی و صحافتی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ ’’دی پارٹی اِز اوور‘‘ سہیل وڑائچ کے ایک سال کے منتخب کالموں کا مجموعہ ہے۔ انہوں نے بہترین کالموں ’’بدلتے نظریاتی چولے‘‘، ’’اثاثے واپس لائیں‘‘، ’’میاں شریف بنام نوازشریف‘‘، ’’یہ کیسی جمہوریت ہے‘‘، ’’یہاں دیو رہتا تھا‘‘، ’’پہاڑ اورچیونٹی‘‘ کو کتاب کا حصہ بنایا ہے۔ ان کا خاصا یہ ہے کہ وہ بڑے خوبصورت انداز میں نظام حکومت اور جمہوریت کے خلاف سازشوں کو آشکار کرتے ہیں۔ میرا کتاب کے مصنف کے ساتھ اسلامی جمعیت طلبہ کے زمانے سے تعلق ہے۔ میں نے ہمیشہ ان کو تحقیقی صحافت کرتے دیکھا ہے۔ اپنی نئی کتاب ’’دی پارٹی اِز اوور‘‘ کا انتساب انہوں نے میاں عامر محمود کے نام کرکے صحافتی دیانتداری کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ خود لکھتے ہیں کہ اگرچہ یہ روایت نہیں ہے لیکن اس کے باوجود وہ اس کتاب کا انتساب میاں عامر محمود کے نام کررہے ہیں کیونکہ انہوں نے ہی کالم نگاری کی ترغیب دی تھی۔ میرے خیال میں اس کتاب کو پاکستان کے ہر تعلیمی ادارے کی لائبریری میں ہونا چاہئے۔ صحافت اور سیاست کے طالبعلموں کو ’’دی پارٹی اِز اوور‘‘ کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے۔ کیا 2018کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی سیاست ختم ہوجائے گی یا پھر وہ سیاسی طور پر محدود ہوجائے گی اور وہ 2023کے انتخابات میں پھر ابھرے گی؟ اس کا فیصلہ پاکستانی قوم 25جولائی2018 کے انتخابات میں کرے گی۔ واقفان حال کا کہناہے کہ احتساب عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت شدید دبائو کا شکار ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ نفسیاتی طور پر آئندہ عام انتخابات میں اپنی شکست تسلیم کرچکی ہے۔ چونکہ مسلم لیگ (ن) کی گزشتہ پانچ سالہ کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔ اس لئے اب یہ کہا جارہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) آئندہ عام انتخابات میں پنجاب اور مرکز میں زیادہ سیٹیں حاصل نہیں کرپائے گی اور مستقبل میں وہ اپوزیشن میں رہ کر اپنا کردار ادا کرے گی۔ واقفان حال کا مزید کہنا ہے کہ ماضی میں جس سیاسی جماعت نے بھی پورے پانچ سال حکومت کی وہ دوبارہ برسراقتدار نہیں آئی۔ 2002میں مسلم لیگ (ق) کی حکومت تھی مگر 2008میں مسلم لیگ (ق) کو حکومت نہیں ملی بلکہ پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوئی، اسی طرح 2013کے الیکشن میں پیپلزپارٹی بھی ایک صوبے تک محدود ہوگئی۔ اب مسلم لیگ (ن) کے بارے میں یہی کہا جارہا ہے کہ وہ بھی 25جولائی کے انتخابات کے بعد اقتدار کی بجائے اپوزیشن کی بنچوں پر بیٹھے گی۔
عام انتخابات میں صرف 12دن باقی رہ گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے 25جولائی تک بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کو معطل کرنے کا اقدام قابل تحسین ہے۔ اس اقدام سے شفاف اور غیرجانبدار انتخابات کے انعقاد کی راہ ہموار ہوگی۔ ماضی میں یہ ہوتا رہا ہے کہ عام انتخابات کے موقع پر بلدیاتی اداروں کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا۔ حتیٰ کہ بلدیاتی فنڈز اور وسائل کو اپنے من پسند امیدواروں کی کامیابی کے لئے بے دردی کے ساتھ خرچ کیا گیا۔ الیکشن کمیشن نے اس بار پری پول رگنگ کا بروقت نوٹس لیا ہے لیکن انتخابات کو منصفانہ بنانے کے لئے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ لاہور سمیت پورے ملک میں انتخابی ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں۔ الیکشن کمیشن کو اس جانب بھی متوجہ ہونا چاہئے۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے امیدوار اپنے حلقوں میں کروڑوں روپے صرف تشہیری مہم پر خرچ کررہے ہیں۔ مین شاہراہوں اور بلڈنگز پر دیوقامت ہورڈنگ بورڈز لگائے گئے ہیں۔ پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں سے الیکشن کمیشن کو اس سلسلے میں شکایات بھی ملی ہیں مگر اس کا تدارک نہیں ہوپا رہا۔ لاہور میں این اے129 اور این اے 131میں عبدالعلیم خان اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے بینروں اور دیگر تشہیری مواد کی بھرمار کرکے انتخابی قواعد و ضوابط کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف کے مرکزی قائدین اگر ضابطہ اخلاق پرعمل درآمد نہیں کریں گے تو وہ کیسے شفاف انتخابات کی توقع رکھ سکتے ہیں؟ الیکشن کمیشن نے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے تشہیری مہم پر متعین اخراجات کے حوالے سے قواعدوضوابط بنائے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کو الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کرنا ہوگا بصورت دیگر انتخابی بے ضابطگیوں کو روکنا ممکن نہ ہوگا۔ الیکشن کمیشن کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ آزادانہ، شفاف اور غیرجانبدارانہ انتخابات کو یقینی بنائے۔ اگر خدانخواستہ یہ انتخابات بھی 2013کی طرح متنازع ہوئے اور ماضی کی طرح دھاندلی کے الزامات اس الیکشن پر لگے تو پھر جمہوری سسٹم کو خطرات لاحق ہوجائیں گے۔ 2018کے انتخابات بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ قوم کو پاکستان کی پائیدار ترقی و خوشحالی کے لئے ایسی قیادت کو منتخب کرنا ہوگا جو حقیقی معنوں میں محب وطن اور کرپشن سے پاک ہو۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم نوازشریف آئندہ مشکل مراحل میں ثابت قدمی دکھاتے ہیں یا پھر وہ نیا این آر او کریں گے؟ جیسا کہ ماضی میں وہ کرچکے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین