• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب آپریشن، الیکشن کمیشن کا کچھ نہ دیکھو، کچھ نہ سنو کچھ نہ بولو پر عمل

پنجاب آپریشن، الیکشن کمیشن کا کچھ نہ دیکھو، کچھ نہ سنو کچھ نہ بولو پر عمل

اسلام آباد (انصار عباسی) الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے پنجاب حکومت کے مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کیخلاف لاہور اور راولپنڈی میں متنازع کریک ڈائون کے حوالے سے ’’نہ کچھ دیکھو، نہ کچھ سنو اور نہ ہی کچھ بولو‘‘ کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کر رکھا ہے کہ وہ اس بات کا نوٹس لے کہ نگراں پنجاب حکومت پارٹی کارکنوں کے ساتھ کیا کر رہی ہے، لیکن کمیشن کے پاس اتنا وقت ہی نہیں کہ وہ اس معاملے پر بات کرے۔ رابطہ کرنے پر الیکشن کمیشن کے ترجمان نے بتایا کہ کمیشن میں اس معاملے پر کوئی بات نہیں ہو رہی۔ انہوں نے واضح کیا کہ لاہور کریک ڈائون انتظامی اقدامات کا حصہ تھا تاکہ امن عامہ کی صورتحال بحال رکھی جائے۔ اگرچہ الیکشن کمیشن کو اس طرح کے کریک ڈائونز میں کوئی غیر معمولی بات نظر نہیں آتی، لیکن مسلم لیگ (ن) کے سخت مخالفین بھی اس کی مذمت کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق سینیٹر سعید غنی کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن میں پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کیخلاف کریک ڈائون کی مذمت کرتا ہوں۔ سینیٹر شیری رحمان نے بھی ایوانِ بالا میں نواز لیگ کے کارکنوں کی گرفتاری کا معاملہ اٹھایا ہے۔ شیخ رشید نے بھی ایک ٹی وی چینل پر راولپنڈی میں نواز لیگ کے کارکنوں کیخلاف پنجاب حکومت کے کریک پر تحفظات کا اظہار کیا۔ پاکستان کے مختلف میڈیا ہائوسز سے وابستہ آزاد صحافیوں نے بھی سوشل میڈیا پر پنجاب حکومت کے مارشل لاء جیسے انداز میں رات دیر سے کی جانے والی مسلم لیگ ن کے کارکنوں کی گرفتاریوں پر تنقید کی۔ سینئر صحافی نسیم زہرہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف اور مریم نواز احتساب عدالت سے سزا ملنے کے بعد گرفتاری کیلئے واپس آ رہے ہیں، کیا وہ قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں یا اس پر عمل کر رہے ہیں؟ کون سا قانون ہے جو سیاسی آواز پر پارٹی کارکنوں کو جواب دینے سے روکتا ہے؟ مارشل لاء اسٹائل میں کیوں رات کو دیر سے لاہور بھر میں کریک ڈائون اور گرفتاریاں کی جا رہی ہیں؟ ڈان کے اینکر پرسن مبشر زیدی نے اپنی ٹوئیٹ میں کہا کہ نگراں حکومت کو نواز لیگ کے کارکنوں کیخلاف نواز شریف اور مریم نواز کی آمد سے قبل کریک ڈائون کرنے پر شرم آنی چاہئے، یہ فاشسٹ طریقہ کار ہے۔ سینئر اینکر پرسن سید طلعت حسین نے ٹوئیٹ کیا ہے کہ سیکڑوں پارٹی ورکرز کو لاہور اور دیگر مقامات سے پنجاب کی نگراں حکومت نے نواز اور مریم کی آمد سے قبل گرفتار کیا ہے اور یہ برسوں پر وسیع پیمانے پر کیا جانے والا کریک ڈائون ہے وہ بھی ایسی نگراں حکومت کی جانب سے جس کا کام شفاف انتخابات کی نگرانی کرنا ہے۔ پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ کی سوشل میڈیا پر مذمت کی جا رہی ہے اور ایک پارٹی کیخلاف ان کے رویے کو متعصبانہ قرار دیا گیا ہے۔ سینئر صحافی مرتضیٰ سولنگی کہتے ہین کہ ڈاکٹر حسن عسکری، اب جبکہ آپ نے خود کو اور ہم سب کو بے توقیر کر ہی لیا ہے تو بہتر یہ ہے کہ آپ اپنے انتظامی کنٹرول میں موجود صوبے میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر مستعفیٰ ہو جائیں۔ مستقبل میں آپ کی تعلیمی میدان یا میڈیا میں ساکھ باقی نہیں رہی۔ الیکشن ایکٹ 2017ء میں نگراں حکومت کے فرائض اور ذمہ داریوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ نگراں حکومت غیر متنازع رہے گی اور ہر شخص اور سیاسی جماعتوں کیلئے غیر جانبدار رہے گی۔ ایکٹ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ نگراں حکومت الیکشن پر اثرا نداز ہونے کی کوشش نہیں کرے گی یا ایسا کوئی کام نہیں کرے گی جس سے شفاف اور منصفانہ انتخابات پر منفی اثرات مرتب ہوں۔ نگراں سیٹ اپ سے قانون کی توقعات کے برعکس، پنجاب حکومت نے کریک ڈائون میں نہ صرف ن لیگی کارکنوں کو گرفتار کیا بلکہ دفعہ 144؍ بھی نافذ کر دی ہے تاکہ پارٹی نواز شریف اور مریم نواز کی لندن سے آمد کے موقع پر ریلی بھی نہ نکال سکے۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں، الیکشن کمیشن کے پاس زبردست اختیارات ہیں اور وہ کسی بھی نگراں حکومت کے ایسے انتظامی اقدامات کو واپس بھی لے سکتا ہے جن کے متعلق خیال کیا جائے کہ یہ الیکشن کی شفافیت اور غیر جانبداریت پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ لیکن پنجاب حکومت کے کریک ڈائون کے معاملے پر اور سیاسی ریلیوں کو روکنے کیلئے سڑکیں بلاک کرنے کے ایشو پر کمیشن مکمل طور پر خاموش ہے۔ نواز لیگ کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے متعدد مرتبہ یقین دہانی کرائی ہے کہ نواز لیگ کا لاہور میں شو پر امن ہوگا لیکن پنجاب حکومت نے بڑے پیمانے پر کریک ڈائون کیا اور کنٹینر لگا کر سڑکیں بلاک کر دیں۔ جمعرات کو شہباز شریف نے افسوس کا اظہار کیا کہ پارٹی کے سیکڑوں کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے، یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور غیر قانونی اقدام ہے۔ انہوں نے کہا کہ نواز لیگ کے کارکنوں کو ایم پی او کے تحت 30؍ روز کیلئے بند کیا جا رہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ یہ کھلی دھاندلی ہے۔

تازہ ترین