• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس افتخار محمد چوہدری اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے حالیہ بیانات پر مختلف حلقوں کی جانب سے تبصرے ہورہے ہیں اور ان بیانات کے پس منظر کے بارے میں خیال آرائیاں کی جارہی ہیں۔ فوج اور عدلیہ پاکستان میں طاقت کے دو بڑے ادارے ہیں اور ان اداروں کے سربراہوں کے بیانات بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ان بیانات میں بین السطور بہت سی ایسی باتیں ہوتی ہیں جو فوری طور پر نہیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ سمجھ میں آتی ہیں۔ اس لئے ایسے بیانات پر خدشات‘ امکانات اور قیاس آرائیوں کا اظہار فطری امر ہے۔ اگرچہ پوری قوم کے لئے چیف جسٹس اور آرمی چیف کے بیانات کا پورا پورا ادراک کرنا اور ان سے پورا پورا اتفاق کرنا ممکن نہیں ہے لیکن دونوں کی ایک ایک بات ایسی ہے جس سے کوئی اختلاف نہیں کرسکتا۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی ایک بات بالکل درست ہے کہ ٹینکوں اور بندوقوں سے قومی مفاد کا تعین کرنے کا وقت چلا گیا اور چیف آف آرمی اسٹاف کی یہ بات بھی درست ہے کہ کوئی ایک فرد یا ادارہ تنہا قومی مفاد کا تعین نہیں کرسکتا لہٰذا عدلیہ اور فوج کے سربراہوں کی ایک ایک بات ٹھیک ہے۔
ہوسکتا ہے کہ آرمی چیف یا اُن کے حامی سیاسی و غیر سیاسی حلقے‘ دانشور‘ صحافی اور کالم نگار چیف جسٹس آف پاکستان کی اسی بات سے اتفاق نہ کریں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چیف جسٹس یا اُن کے حامی سیاسی و غیر سیاسی حلقے‘ دانشور‘ صحافی اور کالم نگار بھی آرمی چیف کی اسی بات سے اختلاف کریں لیکن دونوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ صرف پاکستانی قوم ہی نہیں بلکہ پوری دنیا اُن کی اسی ایک ایک بات سے اتفاق کرتی ہے اور یہی دو باتیں ہی بنیادی طور پر سچ ہیں۔ چیف جسٹس کا یہ فرمان بجا ہے کہ اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ ٹینکوں اور بندوقوں کی طاقت سے قومی مفاد کا تعین کیا جائے۔ ہم نے دیکھا کہ ماضی میں ٹینکوں اور بندوقوں سے قومی مفاد کا تعین کرنے سے ہمیں بحیثیت قوم بہت بڑا نقصان ہوا۔ نہ صرف پاکستان دولخت ہوا بلکہ باقیماندہ پاکستان بھی ایسے حالات سے دوچار ہے۔ پوری دنیا پاکستان جیسے معاشرے سے پناہ مانگتی ہے۔ جہاں لوگوں کے سیاسی‘ معاشی اور سماجی مفادات عالمی سامراجی طاقتوں کی ایما پر خونریزی کرنے سے پورے ہوتے ہیں۔ جہاں دہشت گرد نجات دہندہ‘ جہاں غدار قومی مفاد کے محافظ اور سکہ بند دھرتی دشمن محب وطن گردانے جاتے ہیں اور جہاں دانشورانہ بددیانتی کی بنیاد پر لوگ دانشوری کا ”لقب“ حاصل کرتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ فوج کو اقتدار پر قبضہ کرنے سے اب بھی نہیں روکا جاسکتا کیونکہ سیاسی قوتیں اور سوسائٹی اب بھی بہت کمزور ہے لیکن حالات اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ بندوق اور ٹینکوں سے اگر ایک بار پھر قومی مفاد کا تعین کیا گیا تو بدامنی اور انتشار اُن قلعہ نما علاقوں میں بھی داخل ہوجائیں گے‘ جہاں اب تک ٹینکوں اور بندوقوں سے انہیں روکا گیا ہے۔ معروضی حقیقت یہ ہے کہ ٹینکوں اور بندوقوں سے قومی مفاد کا تعین کرنے کے حالات بھی نہیں رہے اور نہ ہی پاکستانی معاشرہ اس کا متحمل رہا ہے۔
اب آتے ہیں چیف آف آرمی اسٹاف کی طرف۔ اُن کی بات چیف جسٹس آف پاکستان کی بات سے ایک عہد آگے کی بات ہے۔ آرمی چیف کے بیان میں دانش اور تاریخ کے ادراک کی سطح قدرے بلند ہے۔ اُنہوں نے چیف جسٹس سے آگے بڑھ کر یہ بات کی ہے کہ کوئی فرد یا ادارہ‘ تنہا قومی مفاد کا تعین نہیں کرسکتا۔ گویا کہ اُنہوں نے چیف جسٹس کی اس بات کی بھی تائید کردی کہ فوج بھی ٹینکوں اور بندوقوں کی بنیاد پر قومی مفاد کا تعین نہیں کرسکتی۔ فوج کے ساتھ ساتھ کوئی بھی فرد یا ادارہ تنہا قومی مفاد کا تعین نہیں کرسکتا۔ جو حلقے چیف جسٹس کی بات پر خوش ہوئے ہیں‘ اُنہیں آرمی چیف کی بات پر اور زیادہ خوش ہونا چاہئے تھا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا کیونکہ بہت سے افراد اور ادارے قومی مفاد کا تعین کرنے کے اپنے حق سے دستبردار نہیں ہوئے۔ پاکستان میں ہر فرد اور ہر ادارہ اپنی رائے کو حتمی فیصلے کے طور پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔ یہ بیمار معاشرے کی علامت ہے۔ یہ بیماری اُس وقت سے پھیلنا شروع ہوئی جب پاکستان میں عوام سے قومی مفاد کا تعین کرنے کا حق چھین لیا گیا۔ یہ بیماری اب بھیانک شکل اختیار کرچکی ہے۔ صرف فوج اور عدلیہ میں ہی نہیں بلکہ میڈیا کے لوگوں سمیت عام لوگ بھی یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہی قومی مفاد کا تعین کرسکتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس بیماری کا علاج کیا جائے۔
پاکستان کے عوام اس بات پر خوش ہیں کہ چیف جسٹس آف پاکستان یہ قرار دے رہے ہیں کہ ٹینکوں اور بندوقوں سے قومی مفاد کے تعین کرنے کا وقت گزر گیا ہے۔ ورنہ پاکستان کے بدنصیب عوام تو یہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ کوئی جج جسٹس منیر سے مختلف بھی ہوسکتا ہے۔ جسٹس منیر اپنے انتقال کے بعد بھی اپنی رُوح عدالتوں میں ہی چھوڑ گئے تھے۔ پاکستان کے عوام تو یہ تماشا دیکھتے رہے کہ عدلیہ فوجی آمروں کے ہر فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کرتی رہی۔ اسی عدلیہ نے نظریہٴ ضرورت کے تحت جمہوریت کو غیر ضروری قرار دیا۔ اسی عدلیہ نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی۔ اسی عدلیہ نے ایک آمر کو آئین میں ترمیم کا اظہار دیا، اسی عدلیہ نے ایک باوردی جرنیل کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی اور اسی عدلیہ نے جمہوری حکومتوں کی برطرفیوں کو جائز قرار دیا۔ یہ ایک انقلاب ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان فوج کو للکار کر یہ کہہ رہا ہے کہ اُس نے عوام کے اقتدار اعلیٰ پر قبضہ کیا تو عدلیہ خاموش نہیں بیٹھے گی۔ اور اب یہی عدلیہ سابق فوجی جرنیلوں کا بھی احتساب کررہی ہے‘ جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ پاکستان کے عوام کے لئے یہ بات بھی خوشگوار حیرت کا باعث ہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف کسی فرد یا ادارے کا یہ حق تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ وہ قومی مفاد کا تعین کرے۔ وہ صرف اور صرف عوام کو یہ حق دینے کی وکالت کررہے ہیں۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نہ صرف فوج کو سیاست میں ملوث نہ کرنے کے حامی ہیں بلکہ اُنہوں نے فوج کو سیاست سے دور رکھنے کے لئے کئی انقلابی اقدامات بھی کئے اور اقتدار پر قبضے کے کئی مواقع ”ضائع“ کئے۔ آرمی چیف نے اپنی بات میں چیف جسٹس کی بات کی تائید کی ہے کہ فوج اپنی طاقت کی بنیاد پر قومی مفاد کا تعین نہیں کرسکتی۔ چیف جسٹس بھی یقیناً اس بات کی تائید کریں گے کہ قومی مفاد کا تعین قوموں کی اجتماعی دانش کرتی ہے، حتمی فیصلے کا اختیار عوام کو ہے۔ یہ اختیار نہ کسی فوجی جرنیل کے پاس ہے‘ نہ کسی جج کے پاس ہے‘ نہ کسی وزیراعظم یا صدر کے پاس اور نہ ہی حتمی فیصلے کا اختیار عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ کے پاس ہے۔ یہ اختیار صرف اور صرف عوام کے پاس ہے۔ فوجی آمروں کے فیصلوں کو عوام نے کبھی نہیں مانا۔ جب بھی عوام کو ووٹ ڈالنے کا موقع ملا‘ اُنہوں نے فوجی آمروں کے خلاف رائے دی۔ عدلیہ کے بے شمار فیصلوں کو عوام نے رد کردیا۔ پارلیمنٹ کو بھی عوام کے دباؤ پر اپنے کئی فیصلے تبدیل کرنا پڑے۔ صدر بھی اپنے فیصلوں میں عوام کی سامنے جوابدہ ہے لہٰذا عوام کے سوا کسی کا فیصلہ بھی حتمی نہیں ہے۔ فوج‘ عدلیہ‘ وزیراعظم اور صدر کو اختیارات آئین دیتا ہے۔ آئین پارلیمنٹ بناتی ہے اور پارلیمنٹ کا مآخذ عوام ہیں۔ چیف جسٹس کی بات بھی ٹھیک ہے کہ لیکن آرمی چیف کی بات بہت زیادہ ٹھیک ہے۔ اتنی اچھی اور حیرت انگیز باتیں سامنے آنے کے بعد اب ہمیں بحیثیت قوم آگے بڑھنا چاہئے۔ تاریخ ہمیں ایک بہتر موقع فراہم کررہی ہے۔ کوئی فرد یا ادارہ قومی مفاد کا تعین کرنے میں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہ کرے۔ عوام کی اجتماعی دانش پر اعتماد کیا جائے۔
تازہ ترین