• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الیکشن سر پر ہیں مگر شطرنج کی بساط پر داؤ پیچ بھی جاری ہیں ۔ اب تک ایسا لگ رہا تھا کہ عوام اور فوج اس کھیل میں صرف تماشائی ہیں۔ این آر او سے لیکر متعدد کرپشن اسکینڈل جن میں حج اسکینڈل ، غیر ملکی شہریت ، جعلی ڈگریاں اور سوئس حکومت کو خط لکھنے کے احکامات تسلیم کرنے کے بعد اچانک جنرل اشفاق پرویز کیانی کا بیان معمہ بنا ہوا ہے۔ پہلے عدلیہ اور پارلیمنٹ میں کشمکش تھی ، میڈیا ان سب کوآگے پیچھے لانے میں لگا ہوا تھا مگر اب لگتا ہے کہ سابق جنرلوں کو عدالت میں کھڑا کر کے ان کے ماضی کے حوالے سے ان کا تفصیلی مواخذہ کیا جائے گا۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عدلیہ، فوج اور پارلیمنٹ آپس میں ٹکرانے والے ہیں۔ حزبِ اختلاف اب تو برائے نام رہ گئی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ اس الیکشن میں پی پی پی اور اس کے اتحادی بآسانی جیت جائیں گے۔ مسلم لیگ (ن) اور عمران خان کا آپس میں ٹکراوٴ ہوگا ، ان کے ووٹ آپس میں تقسیم ہوں گے اور فائدہ پی پی پی کو پہنچے گا مگر اب الیکشن کی راہ میں 2چیزیں رکاوٹ بن سکتی ہیں،ایک ووٹروں کا جعلی اندراج یا پھر دوسری ذرا سی غلطی سے فوج عمل میں آسکتی ہے ۔ اس وقت چیف جسٹس افتخار چوہدری جو بار بار یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی غیر آئینی اقدام سے جمہوریت کو نقصان نہیں پہنچنے دیں گے کیونکہ عدلیہ قانون کی محافظ ہوگی۔ سیاستدان پارلیمنٹ کو سپریم سمجھتے ہیں جہاں سے قانون سازی ہوتی ہے ۔ فوج اور انتظامیہ اس کی رکھوالی کرتی ہے ، میڈیا بھی پرویز مشرف کے اقتدار کے خاتمہ کے بعد خود کو سپریم سمجھنے لگا ہے ۔ایسے میں بیوروکریسی کا کیا کردار ہے اسے سب بھلا بیٹھے ہیں۔ وہ درپردہ خود کو سپریم سمجھتی ہے اور وقت آنے پر فیصلہ کرتی ہے ، رہا عوام کی اصلی طاقت ان 5سالوں میں بالکل ختم ہو چکی ہے ۔ پنجاب کی اکثریت ہی ملک میں راج دلواتی ہے اور وہ زمینداروں اور جاگیرداروں کے ہاتھ میں ہے۔ وہ سب سندھ ، بلوچستان کے پی پی پی حلقوں میں یا پھر ان کے سب بڑے اتحادی مسلم لیگ (ق) ، اے این پی اور متحدہ قومی مومنٹ کے ساتھ ہیں۔ صرف اس الیکشن میں اگر کوئی نیا فیکٹر آسکتا تھا تو وہ عمران خان تھے اور وہ خود اپنے کھیل میں اصغر خان کی طرح مسلسل غلطیاں کر کے شہری حلقوں میں دراڑیں ڈال چکے ہیں۔ خصوصاً ماضی کے چلے ہوئے کارتوسوں کو اپنی جماعت میں اکٹھا کر کے اور بعد میں ایک ایک کر کے ان کے نکلنے کی وجہ سے سونامی لانے کے بجائے خود سونامی کا شکار ہو گئے ہیں اور جب ٹکٹ بانٹنے کا وقت آئے گا اور جس کو بھی وہ ٹکٹ نہیں دیں گے وہ ان کے مقابلے میں کھڑا ہو جائے گا ۔ ان کی اچھی خاصی دھاک ان کے بڑے بڑے جلسوں کی وجہ سے بیٹھ گئی تھی اب ان کے غبارے سے ہوا نکلتی جارہی ہے اب وہ صرف چندہ جمع کرنے کی حد تک آخری کوشش کر رہے ہیں۔ یار لوگ تو ان کے امریکہ کے بیان کے بعد امریکن لابی میں جا چکے ہیں اس وجہ سے ان کے نعروں اور وعدوں کا اعتبار بھی اب اٹھ چکا ہے ۔
کاش وہ سیاست کو سیاست سمجھ کر کرتے ، انہوں نے اس کو بھی کرکٹ کا کھیل سمجھا اور جلدی جلدی اپنے بالروں کو تھکا دیا ۔ ایسے میں الیکشن تک ان کا گراف سامنے آجائے گا ۔ ہر سیاستدان کو للکار کر انہوں نے قبل از وقت ان سب کو اپنے خلاف متحد کر دیا ویسے بھی پڑھے لکھے لوگ کم ہی الیکشن والے دن باہر نکلتے ہیں۔ گاوٴں گوٹھ والے اپنے اپنے قبیلوں اور چوہدریوں کی وجہ سے مجبوراً یا ایک چاول کی پلیٹ کے لالچ میں صبح سے شام تک لائنوں میں لگ کر ووٹ ڈالتے ہیں ان کو متاثر کرنے کے لئے عمران خان کے پاس فی الحال کوئی نعرہ نہیں ہے ۔ وہ عمران خان کو کیوں ووٹ ڈالیں گے ۔ بہرحال یہ چند ماہ بہت خطرناک بھی ثابت ہو سکتے ہیں اس الیکشن میں تو مسلم لیگ (ن) شاید پنجاب سے بھی ہار سکتی ہے اس وجہ سے بھی میاں صاحب الیکشن پر زیادہ زور نہیں دے رہے ہیں اور پیشگی دھاندلیوں کا شور مچا رہے ہیں ۔ الیکشن کمیشن بھی اپنے طور پر الیکشن کرانے کی پوری طرح پوزیشن میں نہیں ہے ایسے میں فوج سے چھیڑ چھاڑ یا کوئی بھی غلطی اپ سیٹ کرسکتی ہے ۔ بہتر ہے کہ خوش اسلوبی سے الیکشن ہونے دیں ، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی سب کے سامنے آجائے گا۔ آخری وقت میں کچھ بھی ہوسکتا ہے، الیکشن کی تیاریاں کریں۔
تازہ ترین