• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز میں آئندہ انتخابات کچھ ایسے حالات میں ہونے جا رہے ہیں کہ ایسی مبہم صورتحال شاید پہلے کبھی نہ تھی۔ دو مسلسل جمہوری ادوار مکمل ہونے کے خوش آئند امر کے باوجود تحفظات کے بھی انبار دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ انتخابات کے پر امن، غیر جانبدارانہ ، منصفانہ اور شفاف انعقاد کے لئے متعلقہ اداروں نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا کرنے میں مصروف رہا اور بیشتر اہم اقدامات کئے۔ دیگر متعلقہ ادارے بھی الیکشن کے بروقت انعقاد میں ایک صفحے پر ہیں۔ عدلیہ کی معاونت حاصل ہے تو الیکشن کمیشن کی درخواست پر تقریباً تین لاکھ فوج بھی تمام تر سیاسی عمل کی نگرانی پر مامور ہو گی۔انتخابات میں تاخیر کے خواہاں عناصر نے انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے بہت سے خدشات ظاہر کئے ، تاہم اداروں کے عزم کے سامنے یہ سب ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ بلاشبہ الیکشن کا بروقت اور شفاف انعقاد کسی چیلنج سے کم نہیں لیکن قومیں ایسے مراحل طے کر کے ہی سرخرو ہوا کرتی ہیں۔ پاکستان اس وقت جن نازک حالات سے دو چار ہے ان سے نکلنے کا واحد حل انتخابات ہی ہیں مگر صد افسوس کہ ہماری بعض سیاسی جماعتوں کے درمیان آویزش یہ عیاں کر رہی ہے کہ نہ تو انہیں ملکی و عالمی حالات کا ادراک ہے اور نہ ہی وہ ابھی تک اتنی بالغ النظر ہو پائی ہیں کہ یہ نکتہ جان سکیں کہ بروقت اور شفاف انتخابات ملک کے روشن اور محفوظ مستقبل کے ضامن ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جوں جوں انتخابات قریب آتے جا رہے ہیں کشیدگی میں اضافہ ہو تا دکھائی دے رہا ہے ، انتخابی ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ آپس میں دست و گریبان اور سر پھٹول کے مناظر بھی دیکھے جا چکے، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے، بدکلامی کی انتہا اور روپیہ پیسہ پانی کی طرح بہانے کے مناظر بھی عام ہیں۔ اسے حرماں نصیبی ہی کہا جا سکتا ہے کہ ستر سال میںہماری سیاسی جماعتوں اور عوامی اکثریت کو یہ بات سمجھ نہ آ سکی کہ الیکشن صرف جمہوریت کی خشت اول ہی نہیں بلکہ یہ کسی قوم کی اجتماعی دانش کا اظہار بھی ہوا کرتے ہیں، جن میں قوم اپنی رائے کا اظہار انتہائی مہذب اور پر امن طریقے سے بذریعہ ووٹ کرتی ہے اور پھر جو نتائج سامنے آتے ہیں انہیں خوش دلی سے قبول کر کے ملک و قوم کی بہتری کے لئے شانہ بشانہ آگے بڑھا جاتا ہے تاکہ ترقی کا سفر رک سکے نہ کہ اس میں کوئی خلل واقع ہو سکے۔ ہم اگر ترقی معکوس کا شکار ہیں تو ہمیں سمجھ آ جانی چاہئے کہ اس کی وجہ ہمارے رویے ہی ہیں۔ اگر ہم حقیقی معنوں میں محب وطن ہیں تو ہمیں انتخابی ماحول کو پر امن بنا کر اپنے مہذب ہونے کا ثبوت دینا ہوگا لیکن افسوس پے درپے ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جن سے کشیدگی بڑھتی دکھائی دیتی ہے۔ اندرونی تضادات ہی کیا کم تھے کہ دہشت گردی بھی انتخابات پر حملہ زن ہو گئی اور پشاور میں انتخابی امیدوار ہارون بلور سمیت 22افراد کو لقمہ اجل بناگئی۔ پھر جمعہ کو بنوں میں ہونے والے دھماکے سے 5افراد کی جانیں گئیں۔ اس سے اس امر کو بھی تقویت ملتی ہے کہ بیرونی عناصر بھی انتخابی عمل میں رخنہ ڈالنے میں کوشاں ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ الیکشن باہمی تضادات، مشکلات اور مسائل کو حل کرتا ہے، اس لئے کہ یہ قوم کی اکثریت کی ر ائے کا اظہار ہوتا ہے جسے سبھی کو تسلیم کرنا چاہئےورنہ اختلافات مزید بڑھ جاتے ہیں اور یوں یہ مشق سعی الاحا صل بن کر رہ جاتی ہے، جیسا کہ اب تک ہوتا آیا ہے ۔ نگران وزیر اعظم، الیکشن کمیشن اور دیگر متعلقہ اداروں کے سربراہوں کو اس حوالے سے مل بیٹھ کر ایک موثر و جامع حکمت عملی وضع کرنی چاہئے تاکہ آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کا یہ اہم ترین مرحلہ پر امن طریقے سے اور بحسن و خوبی انجام پا سکے اور مسائل حل کرنے کے بجائے کہیں مزید مسائل پیدا نہ کر دے۔ قوم کی ذمہ داری ہے کہ اپنے باشعور ہونے کا ثبوت دے ۔ جوش نہیں ہوش و خرد سے کام لے کر اپنے ووٹ کا حق استعما ل کرے اور دنیا پر واضح کر دے کہ ہم من حیث القوم جمہوریت کی اہمیت سے آگاہ ہیں۔

تازہ ترین