• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز میں سرکاری محکموں اور اداروں کے کاموں میں رابطے کے فقدان کے باعث شہروں، قصبوں اور دیہات میں نہ صرف سرمایہ اور وسائل کا زیاں ہورہا ہے بلکہ لوگوں کے معمولات زندگی بھی متاثر ہورہے ہیں۔ بلدیاتی اداروں کا حقیقی مقصد بھی یہی ہے کہ وہ اپنی اپنی حدوں میں عوامی ضرورتوں پر نظر رکھیں، شہریوں کی مشکلات پر توجہ دیں اور کسی بھی قسم کے ترقیاتی یا تعمیراتی کام کا موقع آئے تو تمام مقامی اداروں کی ضروریات اور تحفظات ملحوظ رکھتے ہوئے باہمی مشاورت سے منصوبہ بندی کریں۔ اس وقت الیکشن 2018کے باعث اگر بلدیاتی ادارے معطل ہیں اور وفاقی و صوبائی سطحوں پر نگراں سیٹ اپ قائم ہے تو اس کا یہ مطلب بہرحال نہیں کہ وزارتوں اور اعلیٰ عہدوں پر براجمان افراد معاملات سے لاعلمی کے عذر کے ساتھ مختلف اداروں اور محکموں کے اہلکاروں کو من مانی کی چھوٹ دیدیں۔ ہمارے تقریباً تمام ہی شہروں، قصبوں اور دیہات میں برسوں سے جاری یہ مشق اس وقت بھی دیکھی جاسکتی ہے کہ ایک ادارہ خطیر سرمایہ کاری کرکے اور ہفتوں کھدائی، بجری کی بھرائی اور تارکول جمانے کے مرحلے سے گزر کر ایک سڑک بناتا ہے اور دوسرا ادارہ چند دنوں کے اندر ہی واٹر سپلائی، سیوریج لائن یا تاروں کی تنصیب جیسے کسی عذر کو بنیاد بناکر اس کی توڑ پھوڑ کرتا اور ناکافی مرمت کے بعد بدتر حالت میں چھوڑ جاتا ہے۔ بعداز خرابی بسیار جب پہلی والی صورتحال بحال ہوتی ہے تو تخریب و تعمیر کا پرانا چکر پھر چل پڑتا ہے۔ کراچی میں حال میں تعمیر کی گئی نارتھ کراچی اور نیوکراچی سمیت کئی علاقوں کی سڑکیں چند ہفتوں بعد ہی توڑ پھوڑ کی بدترین مثال ہیں۔ ڈالمیا روڈ کے دونوں ٹریک مکمل کارپٹنگ کے چند ہفتوں بعد ہی واٹر لائن ڈالنے کے نام پر پھر ابتر حالت کو پہنچا دیئے گئے ہیں۔ یہ صورتحال ملک کے بیشتر علاقوں میں نظرآتی ہے۔ ہماری وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں سمیت تمام اداروں کو ایسا طریق کار وضع کرنا چاہئے کہ ہر ترقیاتی، تعمیراتی یا کھدائی کے کام سے قبل تمام اداروں کے ماہرین کی مشاورت سے جامع منصوبہ بندی کی روایت نظر آئے ۔

تازہ ترین