• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آرمی چیف نے جو کچھ کہا اور چیف جسٹس نے جو کچھ فرمایا وہ اخبارات میں چھپ چکا۔میڈیا نے کس طرح فوج اورعدلیہ کو ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کیا یہ بھی آپ دیکھ چکے۔ ”خبریت “ کی تلاش ، ریٹنگ Rating بڑھانے اور اپنے پروگرام کو مقبول بنانے کا جنون کیاکیارنگ دکھاتا ہے؟ جس طرح نئی نئی جوانی کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں اسی طرح نئی نئی آزادی کی بھی ایک خاص نفسیات ہوتی ہے۔ ہمارا میڈیا نیانیاآزاد ہواہے۔ جوانی کے جنون میں مبتلا ہے اس لئے تیزی اور آزادی کا رعب جاننے کیلئے تگ و دو جاری ہے۔ آپ آرمی چیف اور چیف جسٹس کے بیانات پرتبصرے، سازشی تھیوریاں، ٹائمنگ اور الفاظ کا پوسٹ مارٹم سن چکے اور پڑھ بھی چکے۔ خداجانے آپ کی رائے کیاہے، لیکن مجھے یوں لگتا تھا جیسے ہم رائی کو پہاڑ بنا رہے ہیں اور اپنی اپنی بصیرت کے آئینے میں وہ کچھ دیکھ رہے ہیں جو نہ موجود ہے اور نہ ہی اس کا امکان ہے۔ غور کیجئے تو یہ سارا مسئلہ نفسیاتی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد قومی زندگی کا معتدبہ حصہ فوج کو دینے کے بعد ہماری نفسیات کچھ ایسی بن گئی ہے کہ ہم آرمی چیف یا جرنیلوں کے الفاظ کو ضرورت سے زیادہ معانی پہنانے لگے ہیں اور ان کے الفاظ کو خطرے کاالارم سمجھنے لگے ہیں۔ اب آپ خود دیکھیں گے کہ جس طوفان نے چائے کی پیالی میں جنم لیا تھا اور دو تین دن تک قوم کے اعصاب پر سواررہا، وہ جھاگ کی مانند بیٹھ گیا ہے۔ ایک آدھ روز میں کوئی نیا فساد، سیاسی ڈرامہ یا حادثہ ظہور پذیر ہوگا اور ہماری ساری توجہ اپنی جانب کھینچ لے گا۔
ہاں تومیں کہہ رہا تھا کہ مسئلے کی بنیاد تھوڑی سی نفسیاتی قسم کی ہے۔ میں نے کئی دہائیوں پر محیط پاکستان کی سیاست، عدلیہ، فوج اور تاریخی سفر کامطالعہ کیا ہے۔ جسٹس ایم آر کیانی غیرسیاسی مجلسوں میں تقریریں کرتے تھے جن میں ایوبی آمریت پر طنزو مزاح کے نشترہوتے تھے تو ہمارا گھٹن اور پابندیوں کا مارا پریس انہیں خوب اچھا لگتا تھا۔ اس سے قبل اوراس کے بعد ہم نے کبھی کسی چیف جسٹس کو اخبارات کی شہ سرخیاں بنتے اوراخبارات کے اولین صفحات پر قبضہ کرتے نہیں دیکھا۔ گزشتہ چار برسوں میں جتنے بیانات اور عدالتی تبصرے چیف جسٹس افتخار چودھری کے چھپے ہیں انہیں اکٹھا کیا جائے تو کئی جلدوں پر مشتمل کتاب بنتی ہے۔ اول تو اس لئے کہ عدلیہ صحیح معنوں میں آزادہی اب ہوئی ہے ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ چیف جسٹس حضرات حکمرانوں سے پوچھ کر فیصلے کرتے اور ان کی خواہشات کے مطابق رعایات دیا کرتے تھے۔ قانون ساز اسمبلی کی 1954میں معطلی سے لے کر پرویز مشرف کے اقتدارپر شب خون تک عدلیہ حکمرانوں کی لونڈی بنی رہی اور ان کی خدمت کرتی رہی۔ عوام نے عدلیہ کو بحال کرایا تو ”انہیں“ احساس ہوا کہ ان پر عوام کا بھی قرض ہے۔ اب عدلیہ اس قرض کو چکانے کی کوشش کر رہی ہے اور اس قرض کو چکانے کیلئے عوام کو باربار پیغامات دیتی ہے جو اخبارات کی زینت بنتے ہیں۔ اس نااہلی، بے ایمانی، کرپشن اور لوٹ مار کے دور میں عدلیہ عوام کی آخری امید ہے کیونکہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار عدلیہ قانون کی حکمرانی کو نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ کرپشن سے بھی نبردآزماہے اور یہ دعویٰ بھی کرتی ہے کہ نظریہ ٴ ضرورت کو دفن کردیا گیا ہے۔ مطلب یہ کہ نئی نئی ملنے والی آزادی کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں؟
ایک مخصوص نفسیات ہوتی ہے؟ حکمران اور پارلیمینٹ پرانی ڈگرپر چل رہے ہیں اس لئے ان کا ذکر کیونکر کروں۔ آل پاور فل اوراقتداراعلیٰ کی مالک پارلیمینٹ کی بہت سی قراردادیں سیاسی پاؤں تلے روندی جاچکی ہیں، پارلیمینٹ محض تقریر ہاؤس بن چکاہے جس میں ڈگریوں، اثاثہ جات اوردوہری قومیت کے حوالے سے جھوٹ بولنے والے کئی معززین تشریف فرماہیں حالانکہ آئین صادق و امین کاتقاضا کرتاہے۔ کوئی دن نہیں گزرتا وزارتوں کی کرپشن کے میگا سکینڈلز اورنااہلی کی داستانیں عوام کے دلوں پر ہتھوڑے نہ چلاتی ہوں۔ اس لئے پارلیمینٹ اور حکمران جب تک روش نہیں بدلتے، قابل ذکر نہیں ٹھہرتے۔ البتہ نئی نئی جوانی اور آزادی کے حوالے سے میڈیا ریاست کا ایک طاقتور ستون بن کر ابھرا ہے اور انگڑائیاں لے رہا ہے چنانچہ آپ کو ایسی ایسی خبریں اورباتیں بننے کو اور ایسے ایسے تجزیئے اور انکشافات پڑھنے کو مل رہے ہیں جن کا آپ ماضی میں تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ مطلب یہ کہ نئی نئی ملنے والی آزادی کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں؟ ایک مخصوص نفسیات ہوتی ہے؟
پاکستانی تاریخ کا ادنیٰ طالب علم ہونے کی حیثیت سے مجھے اس سارے کھیل میں صرف فوج پرانی اور عادی کھلاڑی لگتی ہے لیکن یہاں ایک نفسیاتی مشکل آن پڑی ہے اور وہ یہ کہ اگرچہ فوج پرانی کھلاڑی ہے لیکن وہ ابھی اپنے آپ کو نئے رولز اور بدلی ہو ئی فضا میں ایڈجسٹ نہیں کررہی۔ نفسیاتی پرابلم کو سمجھنے کیلئے تاریخ میں جھانکنا ضروری ہے۔ انگریزوں کے دورِ حکومت میں وائسرائے اور کمانڈر انچیف برطانوی استعمار کے دوبڑے ستون ہوتے تھے اور تیسری ”ستونی“ بیوروکریسی تھی۔ کمانڈر انچیف اقتدار کا پشت پناہ اور حکمرانی میں شریک ہوتاتھا۔ پاکستان بناتو ہمارے پہلے ”جرنیل“ کے ذہن میں انہی روایات کے جراثیم موجود تھے۔ قائداعظمنے ایوب خان کے بارے میں لکھا کہ یہ افسر سیاست میں دلچسپی رکھتا ہے اسے مشرقی پاکستان بھیجا جارہا ہے، یہ ایک سال نہ کمانڈ پوزیشن پر تعینات ہوگا اور نہ ہی کندھوں کو بیجوں سے سجائے گا۔ لیاقت علی خان کی وزارت ِ عظمیٰ تک فوج اپنی آئینی حدود میں رہی۔ اگر لیاقت علی خان بھی نہروکی مانند کچھ عرصہ مزید زندہ رہتے تو صورت یہی رہتی لیکن ان کی شہادت کے بعد بیوروکریٹ گورنر جنرل غلام محمد کی سرپرستی میں کمانڈر انچیف نے پر پرزے نکالنا شروع کردیئے۔ واشنگٹن آرکائیو میں ایک رپورٹ پڑھ کر میں سکتے میں آگیا۔ خواجہ ناظم الدین کی وزارت ِ عظمیٰ میں گندم کی قلت ہوئی تو ایک میٹنگ میں کمانڈر انچیف نے وزیر تجارت کو خوب ڈانٹا اور وزیراعظم بھیگی بلی بنے بیٹھے رہے۔ قانون ساز اسمبلی کومعطل کرنے کے ساتھ جب گورنر جنرل نے 1954 میں بوگرا حکومت ڈسمس کردی تو نئی کابینہ میں کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان وزیر دفاع بنا دیئے گئے۔ شیر کے منہ کو خون لگ گیا۔ سردار عبدالرب نشتر نے اپنی خودنوشت میں لکھا ہے کہ جنرل ایوب خان اپنی پرائیویٹ محفلوں میں سیاستدانوں پر تنقید کرتے، انہیں نااہل قراردیتے ہیں اور حکومت پرقبضے کی آرزو رکھتے ہیں۔ اگرکبھی فوج اقتدار میں آگئی تو مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوجائے گا۔
مختصر یہ کہ پھر 1958 میں جنرل ایوب نے اقتدار پر قبضہ کرلیا، اس کے بعد سے فوج مسلسل اقتدار میں رہی ہے کبھی ظاہر اور کبھی پس پردہ۔ کسے حکومت میں رہنا، کسے لانا اورنکالنا ہے اور کون سکیورٹی رسک اورکون فرمانبردار ہے۔ یہ سارے فیصلے چندجرنیل ہی کرتے رہے ہیں۔ ہمارے جرنیل نہ تنقید کے عادی ہیں اور نہ ہی احتساب یا جوابدہی کے۔ یہ ان کی نفسیات بن چکی ہے اوراس میں شگاف ڈالنا آسان کام نہیں۔ دو ہزارروپوں کے اثاثوں سے فوجی کیریئر شروع کرنے والا جنرل پرویز مشرف اربوں کامالک ہے۔ صرف ڈیفنس لاہور کے صرف ایک فیز کے ایک کمرشل ایریا میں اس کے ملحقہ پانچ کمرشل پلاٹ ہیں۔ عدلیہ مانگتی رہی لیکن ڈی ایچ ایز نے مشرف کی جائیداد کی تفصیلات بتانے سے انکارکردیا۔ فوج سمجھتی ہے کہ اس کے سابق جرنیلوں کے احتساب سے فوج کے حوصلے پست ہوتے ہیں۔ سبحان اللہ۔ کوئی سویلین پھانسی بھی چڑھ جائے تو فرق نہیں پڑتا۔ مختصر یہ کہ سارا مسئلہ بنیادی طور پر نفسیاتی ہے۔ عدلیہ اور میڈیا کی نوآزاد نفسیات کے اپنے تقاضے ہیں جبکہ فوج کی نفسیات حکمران اورجاگیردار کی ہے۔ان کی آپس میں ایڈجسٹمنٹ اور ہم آہنگی میں بہت وقت لگے گا۔ فی الحال منظر سے عوام غائب اور ادارے کمزور ہیں۔ جب تک ادارے طاقتور نہیں ہوتے آپ اس نفسیاتی جنگ کا میوزک سنتے رہیں گے۔ گھبرائیں نہیں، اس میوزک کو انجوائے کریں۔
تازہ ترین