• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)
درویش کو یہاں بحیثیت سیکرٹری میانی صاحب یا متولی خدمات سر انجام دیتے ہوئے دوسرا سال ہے اوسطاً سترہ اٹھارہ میتیں روز یہاں آتی ہیں تو قبروں کے بیچوں بیچ گزرتے ہوئے دنیا کی بے ثباتی کا خیال کس قدر دامن گیر ہوتا ہے۔ زندگی کی حقیقت کیا ہے؟ کسی میت کا آخری دیدار کرتے ہوئے اس کا ادراک کر لیجیے۔ اس کے بعد کس ظالم کا جی چاہتا ہے کہ وہ دوسرے سے زیادتی کرے یا اُس کا دل کھٹا کرے ہم جنت دوزخ کی بحث میں نہیں پڑتے، کیا موت سے بڑی بھی کوئی تلخ حقیقت ہے ہم لوگ اس کا تصور کر کے ہی کیوں نہیں سدھر جاتے مگر جب دیکھتے ہیں کہ اس جائے موت و عبرت پر بھی غرض پرست لوگ مار دھاڑ سے باز نہیں آتے تو وجوہ پر غور کرنا پڑتا ہے۔ آگے بڑھنے سے قبل ہم یہاں جسٹس علی اکبر قریشی صاحب کو ضرور خراج تحسین پیش کرنا چاہتے ہیں جن کا میانی صاحب کے لیے ولولہ دیکھ کر ہمیں سر سید کا علی گڑھ کالج کے لیے عزم و ولولہ یاد آجاتا ہے ہمیں اپنی جوڈیشری کی موجودہ و سابقہ کارکردگی کے حوالے سے ایک سو ایک شکایات ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ قریشی صاحب کی مثال منفرد ہے۔ ڈیڑھ برس قبل جب یہاں کا چارج سنبھالا تو جس چیز کو بھی ہاتھ ڈالا اس میں دو نمبری پائی بالخصوص قبضے واگزار کروانے میں بڑی دقتیں پیش آئیں۔ کامیابیوں کا تمام کریڈٹ قریشی صاحب کو جاتا ہے۔
میانی صاحب پر تین نوعیت کے قبضے ملاحظہ کیے ایک بیرونی دوسرے اندرونی 456احاطہ جات کی صورت میں اور تیسرے درباروں یا گدیوں کی صورت میں یہاں 143مزارات ہیں جن کے متعلق اپنے حالیہ آپریشن کے دوران ناچیز نے عدالتی ہدایت کی روشنی میں اس امر کو یقینی بنایا اور اعلان کیا کہ کسی بھی دربار کو انگلی نہیں لگائی جائے گی البتہ بیرونی چار دیواری کی صورت میں جو زمین دبائی گئی ہے عدالتی فیصلے کے مطابق اُسے ضرور واگزار کروایا جائے گا درباروں جیسے مقدس مقامات کی آڑ میں کیا کچھ ہوتا ہے اس کی تفصیلات علیحدہ مضمون کی متقاضی ہیں بات محض لنگر خانوں یا روٹی پلانٹس تک نہیں ہے حضرت بابا بلھے شاہ کے مرید کی حیثیت سے ہم تمام بزرگانِ دین اور درباروں کا تقدس اپنے ایمان کا حصہ مانتے ہیں۔ ایک مقدس ہستی کے دربار کی قربت میں مسجد کے نام سے ایک تین منزلہ عمارت ملاحظہ کی اور اس میں رکھا سامان دیکھا تو حیرت ہوئی معاملہ کورٹ میں پہنچا تو ایک افسر نے کہا کہ مائی لارڈ ہم نے اس عمارت کو لاک کردیا ہے سوچ لیتے ہیں اسے کسی اور مقصد کے لیے استعمال کرلیں گے تب اجازت چاہی کہ ناچیز کو بھی کچھ سچ بول لینے دیں۔ عدالت کے گوش گزار کیا کہ مخصوص مقاصد پر مبنی مفاداتی اسکیم کو اگر مقدس نام کے ساتھ پیش کیا جائے تو اسے’’ مسجد ضرار‘‘ قرار دیا گیا ہے آپ دیکھ لیں کہ اس سلسلے میں کتابِ مقدس کیا فرماتی ہے خدا کا شکر ہے کہ سچائی کی آواز کو نہ صرف سنا گیا بلکہ شرفِ قبولیت بھی بخشا گیا۔ اس کے بعد اگلی پیشی میں جب تبادلوں کی وجہ سے افسر شاہی تتر بتر تھی بڑا فیصلہ ہوا کہ ڈپٹی کمشنر صاحبان نے جو بے دریغ ا لاٹمنٹس کی تھیں انہیں ان کا اختیار نہیں تھا اسی سے ایسے احاطہ جات پر بھی ہاتھ ڈالنے کا جواز مل گیا جہاں ایک یا دو قبور کے ساتھ چار چار کنال گھیرتے ہوئے انتظامیہ کی انٹری بھی ممنوع تھی تیسرا ایشو درباروں کی آمدن کا ہے دو درجن کے قریب ایسے دربار ہونگے جن میں سے کسی کے گلوں پر بھی میانی صاحب کمیٹی کا کوئی کنٹرول نہیں ہے حالانکہ تمام انتظام و انصرام اور اخراجات کمیٹی کرتی ہے جب محترم قریشی صاحب نے اس حوالے سے حکم دیا تو عرض کی کہ ناچیز کے پر جلتے ہیں مکمل تیاری کے بغیر کمزور ہاتھ نہ ڈالے جائیں۔ اس حوالے سے اوقاف والوں کا تعاون حاصل کر لیا جائے تو شاید میانی صاحب کے لیے کچھ بھلائی نکل آئے بہرحال ہنوز یہ ایشو غور طلب ہے۔ میانی صاحب کو سرسبز و شاداب اور روشن باغیچے میں ڈھلتا دیکھنا ایک خواب ہے میرا ہی نہیں ان سب کا جن کے عزیز و اقارب یہاں مدفون ہیں۔ قریشی صاحب کی زیر ہدایت ہم نے یہاں سینکڑوں فٹ طویل بیرونی دیواریں ہی مکمل نہیں کی ہیں بلکہ قبرستان کے اندر سے گزرنے والی سڑکوں پر روشنی کے لیے 40بڑی لائیٹس بھی لگوائی ہیں قبرستان کے 8بڑے حصوں کو روشن رکھنے کے لیے 60 عدد بڑے پول لگوائے ہیں۔ رات کے وقت تدفین میں سہولت کے لیے بڑی موو ایبل لائٹوں کا اہتمام کیا گیا ہے پیدل چلنے والوں کے لیے سینکڑوں فٹ پکے راستے بنائے گئے ہیں 2 عدد ایمبولینسز بھی پہنچ رہی ہیں جن میں سے ایک 42لاکھ کی لاگت سے کمیٹی نے خریدی ہے جبکہ دوسری ایک مخیر صاحب نے بطور عطیہ دینے کی پیشکش کی ہے۔ غریب عوام کو یہ سہولت ملنے جا رہی ہے کہ وہ ایک فون کال پر اپنے عزیزوں کی میتیں یہاں لاسکیں غریب اور نادار لوگوں کی سہولت کے لیے کفن بھی کمیٹی کی طرف سے مہیا کیا جائے گا جو مخیر حضرات نیکی میں ہاتھ بٹانا چاہیں وہ رابطہ کر سکتے ہیں۔
ہماری تمنا ہے کہ مون سون میں اتنے درخت اور پھول پودے لگائے جائیں کہ میانی صاحب ایک بہشتی باغیچے کی مانند دکھائی دے جس میں ٹھنڈے پانی کے کولر بھی جا بجا لگے ہوں۔ ہم نے جس طرح تین میں سے ایک جنازگاہ کو ماڈل بنایا ہے اسی طرح یہاں مسیحیوں کے لیے مختص حصے کو بھی باوقار بنائیں گے جس طرح جمخانہ کلب کے پیچھے گورا قبرستان ہے ایک مرتبہ مسیحیوں کے ایک جنازے میں شرکت کا اتفاق ہوا تو اس قبرستان کی سیمٹری اور خوبصورتی آئیڈیل لگی اور تمنا تھی کہ موقع ملا تو ہم اپنے قبرستانوں کو بھی اُسی ضابطے سے سنواریں گے۔
اس حوالے سے بیس نکاتی پالیسی ترتیب دی افسر شاہی کی نذر ہوئی۔ محترم قریشی صاحب کی معاونت سے امید بندھی ہے کہ اس کی گنجائش نکلے گی۔۔۔۔ یہاں سلمان صوفی صاحب کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں میانی صاحب میں کم ہوتی ہوئی گنجائش کے پیش نظر بحیثیت سیکرٹری میانی صاحب اپنے اسٹاف کو ہدایت کی کہ اب یہاں کوئی بھی لاوارث میت دفن نہیں کی جائے گی فیصل ایدھی صاحب کا فون بھی آیا مگر معذرت کرلی میانی صاحب چونکہ شہر کے وسط میں ہے اس لیے عام شہریوں کو یہ سہولت میسر رہنی چاہیے کہ وہ خوشی غمی کے مواقع پر باآسانی یہاں رسائی حاصل کر سکیں جبکہ لاوارث میتوں کا یہ ایشو نہیں ہے ان کی تدفین اگر کاہنہ کے شہر خاموشاں میں بھی ہوجائے تو کوئی مضائقہ نہیں درویش اپنے اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں کروا سکتا تھا اگر صوفی صاحب تعاون نہ کرتے۔ یہاں سینئر ایڈووکیٹ ملک مقبول صاحب کی دیرینہ کاوشوں اور عمر فاروق خاں صاحب کی قانونی جانفشانی کا شکریہ ادا کرنا بھی ضروری ہے میڈیا کے دوستوں کا رول بھی قابل تحسین ہے اور ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب سے بھی بڑی توقعات ہیں آخر میں عرض ہے کہ احاطہ جات کے حالیہ آپریشن میں کچھ لوگوں کی دل آزاری بھی ہوئی ہے جس میں کفارہ یہ ہے کہ جتنی دلجوئی ممکن ہو اتنی ضرور کر دی جائے نیز معززین کی یہ خواہش فطری ہے کہ کل کلاں وہ اپنے پیاروں کے پاس دفن ہوں اس کا مناسب حل بھی کمیٹی کو نکالنا ہو گا ۔ کچھ اور ضروری ایشوز یہاں واضح کرنا ضروری ہیں لیکن کالم کی طوالت کی پیشِ نظر انہیں آئندہ کے لیے اٹھائے رکھتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین