• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اچھا قدم
سپریم کورٹ نے زرداری کے خلاف کارروائی روک دی، فریال تالپور اور آصف زرداری ملزم نہیں، نام ای سی ایل میں ڈالے نہ طلب کیا، ایف آئی اے الیکشن تک نہ بلائے مستحسن اقدام ہے، جو افراد ملزم نہیں نہ مجرم ان کا نام ای سی ایل میں ڈالنا کسی طرح بھی جائز ہے نہ قانونی، اگر سپریم کورٹ نے ایسا کیا ہی نہیں تو پھر نام ای سی ایل میں ڈالنے کی حرکت کس نے کی اس کا بھی سپریم کورٹ نوٹس لے، لگتا ہے کہ عدالتوں کو بدنام کرنے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے، ایک جماعت کی قیادت پُر امن طریقے سے اپنی انتخابی مہم چلا رہی ہو اور بیٹھے بٹھائے اس پر الزام لگا کر نام ای سی ایل میں ڈالنے کی خبر آ جائے تو نری بے انصافی ہے، مگر اچھا کیا کہ سپریم کورٹ نے اس کی تردید کی اور ایف آئی اے کو ہدایت دے دی کہ 25جولائی تک نہ بلایا جائے اس خبر نے ایک دفعہ تو پی پی کو ہلا کر رکھ دیا، قیادت حیران پریشان ہو گئی ایک طرح سے سیاسی نقصان بھی ہوا، بہرحال سپریم کورٹ نے بروقت کارروائی کر کے مداوا کر دیا یہ عمل قابل تحسین ہے، اس وقت ملک میں صورتحال اچھی نہیں، تمام اداروں کو بہت محتاط رہنا ہو گا۔ چیف جسٹس کا یہ کہنا خوش آئند ہے کہ ’’ہمیں اپنی لیڈر شپ کا اعتبار بحال کرنا ہے، کسی کی ساکھ اور عزت نفس متاثر نہیں ہونے دیں گے‘‘ انہوں نے اسٹیٹ بینک بارے کہا کہ اس کی کارکردگی پر شرم آتی ہے جعلی اکائونٹس کی تحقیقات ہونا باقی ہے، الیکشن کے بعد ضرورت ہو تو بلا لیا جائے، اسٹیٹ بینک ایک عرصے سے کچھ راہ راست سے اترتا دکھائی دے رہا ہے، یہاں یہ کہنا بے محل نہ ہو گا کہ جہاں کہیں بھی بے ضابطگی ہوتی ہے وہ سرکاری اعلیٰ افسران کے تعاون کے بغیر نہیں ہوتی، البتہ خال خال ایسے افسر بھی ہیں جو حکمرانوں کے غلط احکامات ماننے سے انکار کر دیتے ہیں اور اگلے ہی دن ان کی چھٹی کرا دی جاتی ہے عدالت عظمیٰ ان کو بھی حقوق دلوائے۔
٭٭٭٭
نیب کا کالا چشمہ
سابق سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا ہے:نیب کے چشمے میں صرف ن لیگ اور پیپلز پارٹی ہے، مخصوص پارٹی کو آگے لایا جا رہا ہے، جب تک نیب اشارے کا غلام تھا نیب بے عیب تھی، جب سے اس کا چیئرمین بدلا اور قومی لوٹ مار کا کُھرا ماپا جانے لگا چیخ و پکار شروع ہو گئی، رضا ربانی کہنہ مشق پارلیمینٹرین ہیں ان کا یہ کہنا اہمیت رکھتا ہے کہ نیب کی عینک میں تین کے دو نظر آتے ہیں، مگر اس بیان سے یہ بھی عیاں ہے کہ جہاں ضرورت پڑتی دیرینہ و بے جان مفاہمت کے لاشے میں حرکت پیدا ہو جاتی ہے یہ تاثر قومی مفاد میں نہیں کہ فقط دو سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ وہ اپنی عینک بھی درست کرا لیں، کیا پتہ نمبر بدل گیا ہو، کہیں سیاست بھی بوڑھی ہو رہی ہے، اور ماضی کے جوان بڑھاپے کی کڑی دھوپ میں ایک دوسرے کے قریب آ جاتے ہیں، جب تک ن لیگ کے خلاف فیصلے آتے رہے رضا ربانی خاموش رہے جونہی ایک غلط خبر پی پی سے ٹکرائی وہ اٹھ کھڑے ہوئے، تینوں بڑی جماعتیں اپنی اپنی انتخابی مہم چلا رہی ہیں، تینوں کی اپنی ساکھ ہے، اپنا اسٹاک ہے، کم و بیش تینوں کے پاس اچھے خاصے ووٹ بھی ہیں، جو پکے ہیں کچے تو ایک تیز ہوا چلی سب شاخوں سے گر گئے، اور خود کو دوسرے درختوں کی شاخوں سے چپکا لیا، اس لئے ہمیں تو اپنے چشمے سے یہ منظر بھی کبھی نظر آنے لگتا ہے کہ کہیں میچ ڈرا نہ ہو جائے، اب اس کھیل میں پینلٹی اسٹروک تو ہوتا نہیں اس لئے طوعاً و کرہاً تینوں کو مل کر ایک حکومت بننا پڑے، اور چھوٹے چھوٹے سیاسی یونٹ مل کر اپوزیشن ترتیب دیں کلین سویپ کے خواب پر تو جھاڑو پھرتا دکھائی دیتا ہے۔
٭٭٭٭
معزز گدھا اور معزز انسان
عمران خان نے بڑے ضبط کے باوجود ایک جلسے میں کہہ دیا:نواز شریف کے استقبال کے لئے جانے والوں اور گدھوں میں فرق نہیں۔ ایک حدیث مبارک ہے’’ کوئی آپ سے کہے فلاں پہاڑ نے اپنی جگہ بدل لی ہے تو مان لو، کوئی یہ کہے کہ فلاں نے اپنی عادت بدل لی تو ہرگز یقین نہ کرنا،‘‘ خان صاحب نے دھرنوں کے بعد کسی کی فرمائش پر اپنی زبان پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا، مگر آخر یہ بند بھی ٹوٹ گیا اور انہوں نے ایک بڑی سیاسی جماعت کے کارکنوں کو گدھا قرار دے دیا، اگرچہ گدھا ایک معزز جانور ہے لیکن وہ معزز انسان نہیں اس لئے متوالوں کو صرف اس ناکردہ گناہ کی پاداش میں گدھا قرار دینا واقعی خان صاحب ہی کے شایان شان ہے، یہ کہہ کر انہوں نے ان کو بھی متحرک کر دیا ہو گا جو ممکن ہے استقبال کے لئے نہ جانا چاہتے ہوں، خان صاحب بھی آخر خان صاحب ہیں سو اچھی اور موثر باتوں میں ایک بات ایسی کر جاتے ہیں کہ وہ باقی 99اچھی باتوں پر پانی پھیر دیتی ہے، ان کو ان کے مصاحب کیوں نہیں سمجھاتے کہ ایسا کرنا پی ٹی آئی کو پی ٹی ’’گئی‘‘ بنا سکتا ہے۔ معاف کرنا ہماری من حیث القوم صورتحال اس امریکی سائنس دان جیسی ہو گئی ہے جو ہر زہریلی مخلوق سے خود کو ڈسواتا اور اس کے زہر کے خلاف قوت مدافعت کو جگا کر بچ جاتا ہے، ایک روز اس نے ’’ہزار پا‘‘ جسے ہم کن کھجورا کہتے ہیں اس سے اس لئے ڈسوا لیا کہ اسے نہیں آزمایا دیکھتے ہیں اس کا زہر کتنا موثر ہے اور اس نے ڈسوا لیا تو بہت برداشت کرنے کی کوشش کی مگر وہ درد سہہ نہ سکا اور آخر اسے زہر کو پمپ آئوٹ کرانا پڑا، ہر قسم کے سانپ بچھو وغیرہ وغیرہ سے اکثر خود کو ڈسواتا اور مزا لیتا مگر آخر اسے ایک غیر آزمودہ زہریلی مخلوق کے سامنے ہار ماننا پڑ گئی۔
٭٭٭٭
کچھ سانوں مرن دا شوق وی سی
....Oشہباز شریف:گرفتاریاں بند کریں وقت ایک سا نہیں رہتا۔
مگر کافی دیر وقت ایسا رہا، البتہ احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیا۔
....Oچیئرمین نیب حکومت+نگران حکومت: باپ بیٹی سزا یافتہ ہیں گرفتار کریں گے۔
آپ انہیں کیا گرفتار کریں گے وہ تو اس کے لئے خود کافی تپسیا کر چکے ہیں۔
....Oشہباز شریف:مجھے گرفتار کرنے پر حمزہ لیڈ کرے گا۔
ممکن ہے حمزہ بھی یہی ترکیب استعمال کریں۔
....Oمیڈیا کی خدمات تو بہت اعلیٰ ہیں، مگر ان دنوں اس کی موج لگی ہوئی ہے ۔
سیاسی انتخابی اشتہارات کی بھرمار ہے، چلو با خبر رکھنے والوں کو کچھ تو اجر ملا۔
....O سیاست کو خدمت عبادت سمجھا گیا ہوتا تو کبھی اس طرح بازارِ نخاس میں ارباب سیاست نگوڑی دولت کے ہاتھوں رسوا نہ ہوتے۔

تازہ ترین