• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر یونس حبیب نے خود پیپلزپارٹی مخالف سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کی ہوتیں تاکہ محترمہ بینظیر بھٹو کی پارٹی کو 1990ء کے انتخابات میں ہرایا جاسکے تو یہ شاید کوئی جرم نہ بنتا کیونکہ کوئی بھی شہری یا گروپ کسی بھی سیاسی جماعت یا سیاستدان کو فنڈز دے سکتا ہے۔ پاکستان میں کوئی ایسا قانون نہیں جو سیاسی جماعتوں کو رقوم فراہم کرنے کو کنٹرول کرتا جبکہ امریکہ میں ایسا قانون موجود ہے ۔ یونس حبیب کا فعل جرم اس وقت بنا جب اس نے 14 کروڑ روپے ملٹری انٹیلی جنس کو سیاستدانوں میں بانٹنے کیلئے دیئے ۔ جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی بھی جرم کے مرتکب ہوئے کیونکہ ان کے پیشہ وارانہ فرائض میں سیاست میں حصہ لینا یا سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کرنا یا سیاسی اتحاد بنانا شامل نہیں ۔ صدر غلام اسحاق خان جو اس سارے پلان کے روح رواں تھے نے بھی آئین کی خلاف ورزی کی کیونکہ وہ ایوان صدر میں الیکشن سیل قائم کرنے کے قطعی مجاز نہیں تھے بلکہ آئین کے مطابق ان کا غیر جانبدار ہونا اور ان کے منصب کا سیاست سے دور رہنا اشد ضروری تھا ۔ یہ سارا فراڈ 14 کروڑ روپے کے گرد گھومتا ہے جس میں سے صرف7 کروڑ سیاستدانوں میں تقسیم کئے گئے اور باقی 8 کروڑ آئی ایس آئی کے ایک اکاؤنٹ میں جمع کرا دیئے گئے۔ یہ ایک پرائیویٹ فرد کا پیسہ تھا ۔یہ حکومت کے خزانے سے نہیں لیا گیا تھا لہٰذا اس سارے کھیل میں حکومت پاکستان کا کچھ نقصان نہ ہوا۔
تاہم اس سے بھی دو بڑے ڈاکوں کی اب عدالت عظمیٰ کو چھان بین کرنی ہے اور یہ معلوم کرنا ہے کہ انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے سیکرٹ فنڈز سے ایک بار50 کروڑ روپے اور دوسری بار 27 کروڑ روپے (کچھ ذرائع کے مطابق 48 کروڑ روپے) جو 2008ء میں نکلوائے گئے کہاں گئے اور کون سے ”قومی مفاد“ کیلئے خرچ کئے گئے۔ اسی سال جون کے مہینے میں حکومت پاکستان نے آئی بی کو 50 کروڑ کے فنڈز دیئے اور اسی ماہ اس کے اکاؤنٹ سے یہ رقم نکلوائی گئی۔ یہ اس وقت ہوا جب ونگ کمانڈر (ر) طارق لودھی جو پیپلزپارٹی کے پرانے چہیتے ہیں، آئی بی کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ کچھ دو ماہ بعد ڈاکٹر شعیب سڈل کو آئی بی کا چیف بنایا گیا۔ انہیں معلوم نہ ہوسکا کہ 50 کروڑ روپے کہاں گئے اور کیسے خرچ ہوئے تاہم انہوں نے اسی وقت یہ معاملہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے علم میں لائے ۔ چیف ایگزیکٹو نے ان سے کہا تھا کہ وہ صدر آصف علی زرداری کو اس بارے میں فوراً آگاہ کریں۔ وزیراعظم کو اتنی بڑی رقم کے استعمال کا علم نہیں تھا مگر انہیں اور ڈاکٹر سڈل کو یہ معلوم تھا کہ یہ فنڈز حکومت کے ایک طاقتور وزیر نے لئے ہیں مگر ان سے اس بارے میں بالکل پوچھ گچھ نہیں کی گئی۔ آج تک اس رقم کے بارے میں علم نہیں یہ کہاں گئی تاہم اس طرح کی چالاکی کا دور گیا اب تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونا ہے کیونکہ سپریم کورٹ نے اس معاملے میں ہاتھ ڈال لیا ہے۔ عدالت میں طے ہونا ہے اور انصاف ہونا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ جب عدالت ڈاکٹر سڈل کو گواہی کیلئے بلائے گی تو وہ سچ کے سوا کچھ نہیں بولیں گے یہی ان کا ٹریک ریکارڈ ہے۔ طارق لودھی کو جب آئی بی سے ہٹایا تو انہیں فوراً ہی نادرا یورپ کا جنرل منیجر لگا دیا گیا تاکہ وہ نہ صرف منظر سے ہٹ جائیں بلکہ اپنی فیملی جو یورپ میں رہتی ہے کی صحیح دیکھ بھال کر سکیں۔ مزید یہ کہ وہ سرکار کے کھاتے سے تقریباً دس ہزار پاؤنڈ ماہانہ تنخواہ اور دوسری مراعات لیتے رہے۔ اب عدالت عظمیٰ ان کو بھی سمن جاری کرے گی تاکہ 50 کروڑ روپے سیکرٹ فنڈز کے استعمال کے بارے میں جان سکے۔
اس کے علاوہ آئی بی کے ہی اکاؤنٹ سے 27 کروڑ روپے پنجاب میں گورنر راج لگانے سے کچھ عرصہ پہلے نکلوائے گئے جن کا آج تک کوئی حساب کتاب نہیں۔ یہ رقم اس وقت کے گورنر اور کچھ دوسرے حضرات جو پنجاب کو فتح کرنے نکلے تھے کے ذریعے استعمال کی گئی یا اس نام پر اپنی ہی جیبوں میں ڈال لی گئی۔ سپریم کورٹ کو50 کروڑ روپے کے ساتھ ساتھ اس رقم کے استعمال کی بھی چھان بین کرنی ہے۔ چند ماہ میں ہی دونوں رقوم کو ملا کر 77 کروڑ روپے آئی بی کے کھاتے سے نکلوائے گئے تھے ۔ جب اس کیس کا فیصلہ آئے گا تو بہت سے حکومتی زعما جو اصغر خان کیس پر عدالتی حکم کے بعد خوشی سے پھولے نہیں سما رہے کیونکہ اس میں انہیں اپنے سیاسی مخالفین کو زچ کرنے کا سنہری موقع فراہم کیا، ماتم کر رہے ہوں گے۔ وہ یقیناً اس وقت یہ نہیں کہیں گے کہ عدالت کا حکم سر آنکھوں پر بلکہ عدالت پر اپنی روایات کے مطابق لعن طعن کرنے میں لگ جائیں گے۔ دونوں کیسوں میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ پہلے والے مقدمے میں رقم ایک فرد کی تھی جو کل 14 کروڑ روپے تھی اور اس میں سے صرف 7 کروڑ روپے تقسیم کئے گئے مگر دوسرے کیس میں رقم 77 کروڑ روپے ہے جو کہ سرکاری خزانے سے لی گئی، جرم کی سنگینی واضح ہے۔پیپلزپارٹی بھرپور انداز میں لگاتار یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ نوازشریف یونس حبیب سے رقم لینے کے الزام کے بعد قوم سے معافی مانگیں اور سیاست سے کنارہ کش ہو جائیں۔ اس طرح کی باتیں کرنا ان کا حق ہے مگر کیا وہ اسی طرح کا مطالبہ الطاف حسین، جاوید ہاشمی اور کچھ دوسرے سیاسی رہنماؤں جن کا تعلق اس کے سیاسی حلیفوں سے بھی ہے، کرے گی۔ ان حضرات کا ”جرم“ بھی نوازشریف سے یقیناً کچھ کم نہیں۔ اس 77 کروڑ روپے کے فراڈ کی چھان بین کے علاوہ سپریم کورٹ اب میمو گیٹ کی دوبارہ سماعت شروع کرنے والی ہے جس میں اس نے 8 لاکھ ڈالر (76 کروڑ روپے) جو پاکستان ایمبیسی واشنگٹن کے اکاؤنٹ سے اس وقت کے سفیر حسین حقانی نے نکلوائے تھے کا بھی حساب لینا ہے۔ یہ سرکاری فنڈز کون سے ”قومی مفاد “پر خرچ ہوئے کچھ معلوم نہیں۔ بلاشبہ عدالت عظمیٰ کا اصغر خان کیس میں فیصلہ عظیم ہے اگرچہ یہ کچھ کو پسند نہیں آیا مگر اس نے بہت سے سنہری اصول وضع کر دیئے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ جب آئی بی کے فنڈز اور پاکستان ایمبیسی والی رقم پر فیصلے آئیں گے تو بھی سیکرٹ فنڈز کے استعمال پر بہت سے اصول سیٹ کئے جائیں گے۔
تازہ ترین