• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میزبان: حنیف خالد

رپورٹنگ ٹیم:رانا غلام قادر، ایوب ناصر،

عباس عالم، راحت منیر، شاہد سلطان،

عاصم جاوید، رانا مسعود حسین

معاونت: ندیم خان

تصاویر: امجد حسین

پاکستان میں آئین کی بالادستی اور انصاف کی فراہمی موثر نظام ایک خواب کی مانند ہے۔ 18ویں ترمیم کے بعد جہاں ملک میں آئینی اور جمہوری استحکام کی امید پیدا ہوئی ہے وہیں اس کے نتیجے میں عدالتی نظام میں بھی بہتری دکھائی دینے لگی ہے۔ خصوصاً آزاد عدلیہ کی تحریک کے نتیجے میں انصاف کا نظام بتدریج مؤثر دکھائی دے رہا ہے۔ پاکستان میں احتساب کے سلسلے میں بھی تیزی آئی ہے، نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ پھر نیب سے سزا کے بعد ملک میں بحث و مباحثے کی ایک فضا ہے۔ احتساب اور انصاف کے نظام کے حوالے سے گزشتہ دنوں جنگ راول پنڈی کے زیرِ اہتمام فورم کا انعقاد کیا گیا جس میں پیر کلیم احمد خورشید ایڈووکیٹ صدر سپریم کورٹ بار، حسن رضا پاشا ایڈووکیٹ صدر ہائی کورٹ بار، حفصہ بخاری ایڈووکیٹ جنرل سیکرٹری ہائی کورٹ بار، فیاض احمد جندران ایڈووکیٹ وائس چیئرمین اسلام آباد بار کونسل، جاوید سلیم شورش ایڈووکیٹ چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی اسلام آباد بار کونسل، خرم مسعود کیانی ایڈووکیٹ صدر ڈسٹرکٹ بار راولپنڈی، راجہ عامر محمود جنرل سیکرٹری ڈسٹرکٹ بار راولپنڈی ٗ سید طیب ایڈووکیٹ سابق صدر ڈسٹرکٹ بار اسلام آبادنے شرکت کی۔ فورم کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔

پیر کلیم احمد خورشید ایڈووکیٹ

صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن

پیر کلیم احمد خورشید ایڈووکیٹ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت کے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلہ کے پاکستان کی سیاست پر بہت دور رس اثرات مرتب ہوں گے، اس ملک کی تاریخ کا حصہ ہے کہ اس سے قبل پی پی پی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو بھی عدالت سے سزائے موت ہوئی تھی جس کے اثرات ایک لمبے عرصہ تک پاکستان کی سیاست پر مرتب ہوتے رہے اور جب محترمہ بے نظیر بھٹو وطن واپس آئیں تو دوبارہ اقتدار ان کے خاندان کے پاس چلا گیا اور پی پی پی نے ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کو 3 دفعہ کیش کروایا ہے اور اس کے بعد بتدریج کمزور ہوتی گئی۔ بالکل اسی طرح احتساب عدالت کے فیصلے کے بھی اثرات مرتب ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تو یہ ٹرائیل کورٹ کا فیصلہ ہے اس کے بعد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک جائے گا۔ اس فیصلے کے اثرات نہ صرف موجودہ انتخابات بلکہ آئندہ بھی کئی انتخابات پر مرتب ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں وہ سیاسی پارٹی کامیاب ہوگی جو اس ملک کے عوام کے سیاسی حقوق کے تحفظ کیلئے ان کے ساتھ کھڑی ہوگی اور لوگوں کو یقین ہوگا کہ یہ جماعت ان کی جدوجہد میں شامل ہے۔ لیکن اگر یہ کہیں کہ یکطرفہ طور پر وفاداری بشرط استواری کی بنیاد پر کوئی سیاسی حکومت کامیاب ہوگی تو مجھے یقین ہے کہ ایسا نہیں ہوگا کیونکہ یہاں پر بادشاہت نہیں ہے۔ اب تو اس ملک کی دونوں بڑی جماعتیں تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں کیونکہ دونوں میں ہی سیاسی وراثت کا سلسلہ چل رہا تھا۔ عوام جمہوری نظام میں اقتدار کی خاندانوں میں منتقلی کو پسند نہیں کرتے ہیں اور ذہنی طور پر اس چیز کو قبول نہیں کرتے ہیں۔ پی پی پی نے اس سے سبق نہیں سیکھا اور سیاسی طور پر اسے مروج کیا، تو یہ ایک خاندانی جماعت بن گئی اور اس کے نتیجے میں سوائے صوبہ سندھ کے باقی صوبوں میں وہ فارغ ہوگئی ہے اور یہ بھی ایک پانچ ہزاری پارٹی بن چکی ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں اپنی اصلاح نہیں کریں گی تو میرا نہیں خیال کہ وہ کوئی نتائج حاصل کرسکیں گی۔ اس قوم اور ملک کے ساتھ جو ظلم و زیادتیاں ہوئی ہیں ان میں 70 سالوں میں آنے والے سارے حکمران ملوث ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح نے نہایت نامساعد حالات میں پاکستان بنایا۔ لیاقت علی خان کے دور میں ملکی تاریخ میں فوج کی سب سے پہلی بغاوت جنرل گریسی نے کشمیر میں فوج بھیجنے سے انکار کرکے کی تھی۔ لیاقت علی خان کی سیاسی حکومت نے قائداعظم کے زیر قیادت ایک تہائی سے زیادہ اور دو تہائی سے کم کشمیر لیکر دیا جبکہ فوج اس میں شامل نہیں تھی۔ ایوب خان کے دور میں سرحد پر جس طرح مسائل حل کئے گئے وہ بھی تاریخ کا ایک المیہ ہے۔ جنرل یحییٰ خان نے آدھا ملک سرنڈر کیا۔ ضیاء الحق نے سیاء چین سرنڈر کیا۔ جنرل پرویز مشرف کی بھی کارگل کی جدوجہد تاریخ کا ایک سانحہ ہے جس کا قوم اب تک خمیازہ بھگت رہی ہے۔ اس ملک کے سیاستدان ملک کو معاشی طور پر ترقی نہیں دے سکے ہیں۔ پوری دنیا میں بہت اچھے بنگلے کی کاسٹ دو سے ڈھائی ہزار فی مربع فٹ سے زائد نہیں ہے جبکہ یہاں پر ایک کاڈیک سنٹر بنایا گیا ہے اس کی تعمیرات پر اٹھنے والے اخراجات دیکھیں ؟

لاہور میں دل کے امراض کا ایک ہسپتال بنایا گیا ہے جس کا کیس سپریم کورٹ میں چلا تو معلوم ہوا کہ 10 ہزار روپے سے زائد فی مربع فٹ کاسٹ آئی ہے۔ 2000 میں لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کا صدر تھا تو ورلڈ بینک نے دعوت دی تھی جس میں میرے ہمراہ جسٹس تصدق حسین جیلانی اور جسٹس علی نواز چوہان بھی گئے تو وہاں پر ورلڈ بینک نے ہمیں پیشکش کی کہ ہم آپ کو پاکستان میں اے ڈی آر کلچر (مقدمات کے متبادل نظام) کیلئے 3.5 ملین ڈالرز کا قرضہ دینا چاہتے ہیں۔ جس پر میں نے کہا کہ اگر عدلیہ مقروض ہوگئی تو ملک کی آزادی و خودمختاری قائم نہیں رہے گی۔ اس لئے ہم یہ قرضہ نہیں لینا چاہتے۔میرے بعد انصاف تک رسائی کے نام پر ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے 3.5 ملین ڈالر کا قرضہ لیا گیا اور ججوں کی تنخواہیں اور مراعات بڑھائی گئیں۔ کمپیوٹرز اور ایئرکنڈیشنرز خریدے گئے۔ کیا اس کے بعد نظام انصاف میں کسی قسم کی کوئی بہتری آئی ہے ؟ نہیں آئی ہے ہم سب اس دھرتی کے مقروض ہیں۔ اس دھرتی سے وفا کریں۔ میں بطور صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کسی قسم کا ٹی اے ڈی اے نہیں لیتا ہوں۔بار کی کمیٹیوں کے اجلاس میں شرکاء کے کھانے کا خرچہ بھی میں خود برداشت کرتا ہوں۔ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ یتیموں اور بیوائوں کے فنڈز ہمارے کھانے پر خرچ ہوجائیں۔ عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ کی وفات پر سیمینار منعقد کیا گیا تو میں نے بطور صدر اخراجات اپنی جیب سے ادا کئے۔ پاکستان آپ کے پاس اللہ کی امانت ہے خدارا اس پر عیاشیاں نہ کریں۔ حکمرانوں کیلئے سکواڈ لگا کر عوام کی توہین کی جاتی ہے۔ ہمیں ملک سے مراعات یافتہ طبقات کا وی آئی پی کلچر ختم کرنا ہوگا۔ پوری دنیا میں صدر اور وزیراعظم کو اس طرح کا پروٹوکول نہیں ملتا ہے۔ لیکن ہم دور غلامی سے نکلنے کو تیار ہی نہیں ہیں۔

میرے بیٹے نے بیرونی یوینورسٹی سے ٹاپ کیا اور مجھے کہا کہ وہ وطن واپس آنا چاہتا ہے اور اس ملک کے کلچر کو تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ اس نے کہا کہ سات آٹھ ہزار بلین ڈالر کے قرضے کی وجہ سے ذہنی غلام بنا دیا گیا ہے۔ دنیا کی کتنی ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں جن کے قرضے 100 بلین ڈالرز سے بھی زیادہ ہیں وہ لیکویڈیٹ نہیں ہوئی ہیں تو پاکستان کیسے لیکویڈیٹ ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک کے حکمران اس دھرتی سے مخلص نہیں ہیں۔ کبھی قرضوں کے نام پر بلیک میل کیا جاتا ہے اور کبھی گرے لسٹ میں نام ڈال دیا جاتا ہے۔ اگر یہ اس ملک کے ساتھ مخلص ہوتے تو ہمارا یہ انجام نہ ہوتا۔

سی پیک کے حوالے سے کہا کہ مجھے حبیب جالب کی ایک نظم یاد آجاتی ہے 20 روپے من آٹا سنا ہے وطن کے دشمن کہلاتے ہیں۔ کرتے ہیں جب ہم فریاد۔صدر ایوب زندہ باد

اس نے کہا تھا کہ

یہ میثاق استنبول کیا کیا کھولوں اسکے پول

کب تک بجتا رہے گا محلوں میں یہ بے ہنگم ڈھول

سی پیک کو بھی ہمارے حکمرانوں نے نہایت بری شرائط پر معاہدہ کیا ہے۔ یہ ہمارا منصوبہ نہیں تھا بلکہ چین کا تھا لیکن اس نے اپنی شرائط پر کیا ہے۔ پاکستانی قوم اتنی بے بس اور لاچار ہے کہ اس کے حقوق کا تحفظ کرنے والا ہی کوئی نہیں ہے۔ پوری دنیا میں 4 فیصد مارک اپ سے زیادہ کا قرضہ نہیں ہے۔ یہاں پر اسحاق ڈار نے سوا آٹھ فیصد ڈالرز پر یورو بانڈ جاری کیا ہے کسی نے بھی اس کے خلاف آواز بلند نہیں کی ہے جب تک اس ملک کے حکمران اس دھرتی سے وفادار نہیں ہوں گے اور ان کا قانون کی حکمرانی پر یقین نہیں ہوگا اور وہ عوام کے حقوق کو تسلیم نہیں کرتے اس وقت تک اس ملک میں کوئی سیاسی یا قومی حکومت کامیاب نہیں ہو سکے گی پاکستان کے حقوق کی جنگ اس ملک کے 22 کروڑ عوام لڑیں گے تو ہی کامیاب ہو گی ۔ آج ہم گرے لسٹ میں ہیں۔ کل بلیک لسٹ میں ڈالا جاسکتا ہے ایران، کوریا کی طرح آپ کے روابط پوری دنیا سے ختم کرا دیئے جائیں گے۔ پاکستان کا وہی حشر کیا جائے گا جو لیبیا، عراق اور شام کا ہوا۔ فیصلے ججز نہیں بلکہ تاریخ کرتی ہے کیا ذوالفقار علی بھٹو کیس کے فیصلے کو کسی نے آج تک تسلیم کیا ہے۔ کیا آج تک کسی وکیل نے بھٹو کیس کے فیصلے کو بطور نظیر عدالت میں پیش کیا ہے۔ ایسے فیصلوں کو تاریخ خود دفن کردیتی ہے۔ ہم اس دھرتی کے قرض دار ہیں اور ہمیں 22 کروڑ بے بس انسانوں کی جنگ لڑنی ہے۔ ہم نے اپنی ذات کی نفی کرنی ہے۔ پاکستان ایک ملک ہی نہیں بلکہ یہ ایک نظریہ ہے ۔ احمد سعید کرمانی نے ایک واقعہ سنایا کہ 1968 میں چین گیا تھا وہاں لیو چائو شی صدر تھے۔ انکے خلاف احتجاج عروج پر تھا لاکھوں کے جلوس نکل رہے تھے میں نے انکے ایک وزیر کو کہا کہ اگر آپ اس سے تنگ ہیں تو اس سے جان چھڑا لیں۔ تو اس نے کہا کہ آپ ایک بندے کو قتل تو کر سکتے ہیں لیکن نظریے کو قتل نہیں کر سکتے ہیں۔ کسی نظریے کو اس سے اعلیٰ تر نظریے سے ہی قتل کیا جا سکتا ہے۔ میرا ایمان ہے کہ نظریہ پاکستان سے بہتر کوئی نظریہ ہے ہی نہیں۔ یہ نظریہ ہم 22 کروڑ انسانوں کی پناہ گاہ ہے۔ اس سے بہتر کوئی ملک نہیں ہے۔ ٹرائل کورٹ کے فیصلے ہائی کورٹوں یا سپریم کورٹ میں تبدیل بھی ہو جاتے ہیں لیکن فیصلہ تو وہ ہو گا جسے عوام تسلیم کریں۔ میں اس فیصلے کا تجزیہ نہیں کرنا چاہتا کیونکہ اس میں اپیلیں دائر ہونی ہیں۔ میں اس پر مفروضہ قائم نہیں کرنا چاہتا میں زیر سماعت مقدمات پر کھلے عام بحث سے پرہیز کرتا ہوں۔ اسلئے میری رائے محفوظ ہے۔ میں ایک بات سے ڈرتا ہوں کہ میں کسی ایک فورم پر اپنی رائے پیش کرتا ہوں اور کل اگر عدالت مجھے اسی کیس میں امائیکس (عدالت کا دوست) مقرر کرتی ہے اور میں اس کیس کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد کوئی مختلف نکتہ نظر پیش کروں تو کہا جائے گا کہ فلاں فورم پر تو آپ نے یہ بات کہی تھی اور اب امائیکس بن کر رائے تبدیل کر دی ہے۔ اس سے میری ذات متنازعہ بن جاتی ہے۔ جب آپ کی ذات میں تضاد نہیںہوگا تو آپ معاشرے کی جدوجہد میں شامل ہوں گے۔ اگر آپ کی اپنی ذات ہی متنازعہ ہو تو آپ معاشرتی معاملات میں اپنا حصہ نہیں ڈال سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سول مقدمات تو کسی مفروضہ یا گمان کی بنیاد پر نمٹائے جا سکتے ہیں۔ لیکن فوجداری مقدمات میں فیصلے کسی مفروضے یا گمان کی بنیاد پر جاری نہیں کئے جا سکتے ہیں۔ ایک مقدمہ میں قلمبند کی گئی شہادتوں کو دوسرے کیس میں استعمال نہیں کیا جا سکتاہے۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس دوست محمد خان کی سربراہی میں قائم بینج نے 2018 میں فیصلہ جاری کیا ہے کہ اگر کسی ایک مقدمہ میں دفاع کے دو تین موقف ہوں تو آپ تو آپ کو ان کا جائزہ لینا ہوتا ہے۔ اگر کسی فیصلے میں دفاع کے موقف کا جائزہ ہی نہ لیا جائے تو اس سے بہت سے تحفظات جنم لیتے ہیں۔ انہوں نے مقدمات کے سالہا سال تک التوا سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ 16 دسمبر کو لاہور کے آواری ہوٹل میں انصاف تک رسائی کے عنوان سے ایک سیمینار منعقد ہوا تھا۔ جس میں میں نے کہا تھا 1973 میں آئین بنا تھا اسکے آرٹیکل دو اور تین بڑے اہم ہیں جن کے تحت ہائی کورٹ کے پاس سپروائزری دائرہ اختیار ہے جب صوابدید کا سوال آئے تو اس کیلئے قواعد و ضوابط تشکیل دیئے جاتے ہیں لیکن آج تک آئین کے آرٹیکل دو اور تین کے تحت قواعد و ضوابط تشکیل نہیں دیئے گئے ہیں۔ ماتحت عدلیہ کے ججوں پر صوابدید کے حوالے سے کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ کسی کیس میں عبوری حکم امتناع زیادہ سے زیادہ مدت ایک سال تک ہوتا ہے لیکن ایک مقدمہ میں ججوں نے ایک حکم امتناع کو 3 سال تک چلایا اور اس کی شکایت ہوئی ہے لیکن ان 3 ججوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا ہے۔ ڈسپلنری رولز ہی نہیں بنائے گئے ہیں ۔ رولز نہ بنا کر ماتحت عدلیہ کے ججوں کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مقدمات کے سالہا سال تک لٹکانے سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ وکلاء کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ یہ مقدمات کو جان بوجھ کر لٹکاتے ہیں قواعد کے تحت التوا کسی معقول وجہ کی بنیاد پر دیا جا سکتا ہےجیسے ہی آ کر کہتا ہوں کہ میری اہلیہ کی طبیعت خراب تھی اسلئے تیاری نہیں کر سکا ہوں کیس ملتوی کیا جائے۔ اس پر دو دن بعد کی تاریخ دینا تو سمجھ نہیں آتا ہے لیکن اگر دو مہینے بعد کی تاریخ دے دی جائے تو اسکی ذمہ داری وکلاء پر تو نہیں آتی ہے۔ جب ہم اس پیشے میں آئے تھے تو قتل کے مقدمہ کا ٹرائل 4 روز کے اندر اندر مکمل ہو جائے گا لیکن اب تو قتل کے مقدمات بھی سول مقدمات کی طرح سالہا سال چلنے کے بعد ہی مکمل ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر آج بھی ہائی کورٹس بغیر کسی ٹھوس وجہ کے مقدمات کو ملتوی کرنے والے ججوں کیخلاف ڈسپلنری ایکشن لے تو دیکھیں کہ ما تحت عدلیہ کا نظام کسی طرح ٹھیک ہوتا ہے۔ ما تحت عدلیہ اور ہائیکورٹ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل کی پابندی ہیں لیکن جب کوئی سول جج سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہیں کرتا تو اس کیخلاف ایکشن کیوں نہیں لیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں بار کا صدر منتخب ہونے کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے پہلی ملاقات میں رولز بنانے کی استدعا کی تھی تو انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس کا جائزہ لیں گے جبکہ ایک درخواست گزار میاں ظفر اقبال کلا نوری نے بھی رولز بنانے کیلئے سپریم کورٹ میں یہ درخواست دائر کر رکھی ہے جو کہ زیرسماعت ہے۔ ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر کوشش کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس ماتحت عدلیہ کے قواعد و ضوابط کا دائرہ کار نہیں ہے بلکہ یہ سب ہائی کورٹ کے پاس ہے جب تک ہائی کورٹ فعال ہو کر اپنا سپروائزری دائرہ کار استعمال نہیں کرتی سپریم کورٹ اس میں مداخلت نہیں کرسکتی ہے۔ انہوں نے کورٹ فیس سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جب انصاف تک رسائی کیلئے بنک سے قرضہ لیا گیا ہے تو کیا ایسے مستحق افراد کی کورٹ فیس کیلئے استعمال نہیں کیا جاسکتا تھا۔ پاکستان کی لاکھوں بیوائیں اور یتیم انصاف سے اس لئے محروم ہیں کہ وہ کورٹ فیس ادا نہیں کرسکتے ہیں۔ اس کا کون ذمہ دار ہے اور اللہ کی عدالت میں اس کا کون جوابدہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ قومی مسائل اجاگر کرنے کیلئے ہے جس طرح میڈیا جدوجہد اور کوشش کررہا ہے مجھے امید ہے کہ اس کے مثبت نتائج نکلیں گے۔ انہوں نے ججز کے احتساب سے متعلق ایک سوال پر کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے احتساب کا ادارہ سپریم جوڈیشل کونسل فعال نہیں ہے۔ اس میں شفافیت نہیں ہے اور جب تک وکلاء کے نمائندے اور غیر جانبدار لوگ اس کا حصہ نہیں بنتے اس میں شفافیت نہیں آسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بہت بڑی زیادتی ہے کہ ایک جج کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت ہے اور وہ سالہا سال تک لٹکتی رہتی ہے۔ اگر شکایت ٹھیک ہے تو سزا ملنی چاہئے اور اگر غلط ہے تو جج کی ذات پر لگا دھبہ دھو دیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج مسٹر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اپنے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر سماعت ریفرنس کے کھلے کمرہ میں سماعت کی استدعا کی ہے جبکہ میرے خیال میں تمام شکایات پر ایسے ہی سماعت کی جانی چاہئے اور ابھی بہت سے ججز کیخلاف کیسز پائپ لائن میں پڑے ہوئے ہیں۔ اسلئے ان کا جلد از جلد فیصلہ ہونا چاہئے۔ اگر ایک عام آدمی عدالت سے انصاف کی توقع رکھتا ہے تو ججز بھی انصاف کی توقع رکھتے ہیں۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وکلاء کے حوالے سے ججز کے تاثرات بھی بعض اوقات درست نہیں ہوتے ہیں۔معاہدہ کے مقدمہ ہی میں وکیل تھا اور اس میں میرا موکل بھی وکیل اور اس کیلئے گواہان بھی وکیل تھے۔ متعلقہ جج نے کہا کہ معاہدے کے گواہان معتبر نہیں ہیں۔ اس لئے بھی ان کی گواہی کو تسلیم نہیں کرتا جس پر میں نے کہ کہ ایسا نہ کریں ان وکیل گواہوں میں ایک گواہ آج کل ہائیکورٹ کا جج بن چکا ہے۔ جس کیخلاف کل نا اہلیت کی درخواست دائر ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی وکیل یا جج کیخلاف کسی قسم کا تعصب نہیں ہوناچاہئے۔ قانون کے سامنے سب کی برابری ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں ججوں کو بھی ٹرائل کا سامنا کرنا چاہئے اور وکلاء، جرنیلوں اور صحافیوں کو بھی اس کا سامنا کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا آپ سب دعا کریں کہ باری تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم سب اس دھرتی کی جنگ لڑیں اور ہم22 کروڑ انسانوں کیلئے زندہ رہیں۔ اپنی ذات کیلئے زندہ نہ رہیں۔

حسن رضا پاشا

صدر ہائی کورٹ بار

ہائی کورٹ بار کے صدر حسن رضا پاشا نے جنگ فورم میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں جنگ گروپ کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مدعو کرکے اپنے جذبات کے اظہار کا موقع دیا۔صدر سپریم کورٹ بار پیر کلیم احمد خورشیدنے بڑے مدلل انداز میں روشنی ڈالی ہے۔لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ احتساب عدالت کا میاں نواز شریف کے حوالے سے جوحالیہ فیصلہ ہے ۔ اس کے شواہدہمارے سامنے نہیں۔نہ ہی شہادت ہمارے سامنے ریکارڈ ہوئی ہے۔فوجداری قانون کے تحت شواہد کی کڑی سے کڑی ملائی جاتی ہے۔اگر شہادت کی کڑیوں میں سے ایک کڑی بھی کم ہوتوسارا کیس ختم ہوجاتا ہے۔شواہد کی ذمہ داری پراسیکویشن کی ہے۔جج ہمیشہ کیس فائل پر موجود شواہد کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہے۔جج انسان ہونے کے باوجود فائل کی حدود سے باہر جاکر فیصلہ نہیں کرسکتا۔جو سزا ہوئی اس پر بھی مختلف نکتہ نظر موجود ہیں۔کوئی کہتا ہے کہ فلیٹس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں موجود جائیداد بھی قرق ہونی چاہیے۔سزا کم ہوئی ہے۔دوسر ا نکتہ نظریہ ہے کہ جانبداری برتی گئی۔یہ تمام ایشو اپیلٹ کورٹس میں حل ہوں گے۔ایک شہری کے طور پر میری رائے یہ ہے کہ یہ فیصلہ ان لوگوں کیلئے الارمنگ ہوگا جن کے معاملات پائپ لائن میں ہیں۔ایک بڑی شخصیت کو سزا ہوئی ہے۔جج کے فیصلے پر کمنٹس کی بجائے دیکھیں ایک مثال قائم ہوئی ہے۔میں چونکہ خود بھی جج رہا ہوں اس لئے بتاتا چلوں کہ کیس فائل کے مطابق جج دل پر پتھر رکھ کر فیصلے کرتا ہے۔بعض اوقات ہائی پروفائل کیسز بالخصوص دہشت گردی کے مقدمات میں وہ شواہد فائل پر نہیں ہوتے جس سزا کی توقع کی جارہی ہوتی ہے۔اس لئے جب ملزم بری ہوجاتا ہے تو عدالت پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔ عدالتیں عدم ثبوت کی بنا پر فیصلہ کرتی ہیں۔کیونکہ شواہد کی کوئی نہ کوئی کڑ ی گم ہوتی ہے۔رہی بات یہ کہ احتساب عدالت کے نواز شریف کے حوالے سے فیصلے کہ آئندہ الیکشن پر کیا اثرات ہوں گے؟ تو یہ معاملہ بھی دودھاری تلوار کی مانند ہے۔ شاید ن لیگ ہمدردی کا ووٹ لے جائے جبکہ دوسری طرف سوچ یہ ہے کہ ایک کورٹ آف لاء سے مجرم ڈیکلیئر ہوگئے ہیں۔ منی لانڈرنگ ثابت ہوئی ہے۔اس کا مخالفین فائدہ لے سکتے ہیں۔ایک چیز جو نوٹ کرنے والی ہے وہ یہ کہ مخالفین یا اسٹیبلشمنٹ کو جس ری ایکشن کی توقع تھی وہ نہیں ہوا ہے۔ایک شخص تین بار وزیر اعظم رہا ہو۔مشہور ہو لیکن احتجاج کا پیمانہ اس طرح نہیں رہا ہے۔ہو سکتا ہے ان کے حامی یا رہنما الیکشن میں مصروف ہونے کے باعث وقت نہ نکال سکے ہوں لیکن یہی تو وقت تھا کہ وہ باہر نکل کر اپنے ووٹرز کو موبائلز کرتے۔ یہ فیصلہ حکمرانوں کیلئے ایک سوچنے والی چیز ہے۔ میری دانست کے مطابق نواز شریف کی اپنی غلطیوں نے ان کو یہ دن دکھایا ہے۔انہوں نے براہ راست منتخب عوامی نمائندوں کی بجائے بالواسطہ طور پر منتخب یا غیر سیاسی لوگوں کی مشاورت پر عمل کیا جو ان کو ایک بند گلی میں لے گیا۔ میاں صاحب نے گزشتہ دو ادوار کے نقصانات سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔اس لئے میرے خیال میں فیصلے کے اثرات مثبت نہیں منفی ہوں گے۔ ماتحت عدلیہ میں مسائل و بہتری کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ہائی کورٹ بار حسن رضا پاشا نے کہا کہ ماتحت عدلیہ ہماری توقعات پر پورا نہیں اتر رہی ہے۔لیکن دوسری طرف دیکھیں ایک ایک جج کے پاس روزانہ سو سوا سو کیسز سماعت کیلئے فکس ہوتے ہیں۔جبکہ عدالتی اوقات کار صبح آٹھ سے دوپہر دوبجے تک ہوتے ہیں۔اس دوران اس جج نے نہ صرف سماعت کرنی ہے بلکہ فیصلے بھی لکھنے ہیں۔جس کے باعث انصاف کامعیار متاثر ہورہا ہے۔اگر وہ جج صرف حاضری لگا کر سماعت ملتوی بھی کرے تو اس کو ایک کیس پر دس منٹ لگیں گے۔اگر کسی کیس میں گواہان کی گواہی ہو تو پھر ایک ہی کیس کرسکے گا۔ہمار سسٹم ٹھیک نہیں قانون میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ہم زمینی حقائق کے مطابق عمل نہیں کرپارہے ہیں۔ حالانکہ لارڈ میکالے جو قانون بنایا تھا وہ آج بھی ہمارے زمینی حقائق کے مطابق لگتا ہے۔موجودہ حالات میں جج کوالٹی آف ورک کی جائے کوانٹیٹی آف ورک دے رہا ہے۔کیسز کی معمول کی سماعت کے ساتھ ساتھ ہائی کورٹس سمیت اعلی عدلیہ کے انسٹرکشن کیسز بھی آجاتے ہیں۔جس کے باعث سارا نظام تلپٹ ہوجاتا ہے اور ماتحت کورٹ پہلے اس کیس کو ختم کرنے کی کوشش میں باقی سب بھول جاتی ہے۔کیونکہ اس میں مقرہ مدت میں فیصلہ نہ کرنے پر جج سے پوچھ گچھ ہوگی۔اس صورتحال کے سدبات کیلئے میری رائے میں ماتحت عدلیہ میں ججز کی تعداد بڑھائی جانی چاہیے۔کیسز کم لگائے جانے سے کوالٹی آف جسٹس بڑھے گی۔جج بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔جس میں اچھے برے سب قسم کے لوگ ہیں۔ججز میں بھی کچھ خراب ہوسکتے ہیں۔اس لئے ججز کی تعداد بڑھا کر بہتری پیدا کی جاسکتی ہے۔ہائی کورٹ کو اپنا سپر وائزری رول کردار ادا کرتے ہوئے کراس دی بورڈ ایکشن لینا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ماتحت عدلیہ میں اصلاحات کے بعد حالات بہتر ہوئےہیں۔پہلے ایک ماتحت عدالت کے جج یا مجسٹریٹ کی تنخواہ دس ہزار روپے ہوتی تھی۔اب ایک لاکھ روپے کے قریب ہے۔گاڑی عملہ اور عدالتی ماحول میں بہتری پیدا کی گئی ہے۔ان سہولتوں کے نتائج کے طور پر فوائد کیلئے ججز کی تعدا بڑھا کر اتنے کیسز ان کو روز سننے کیلئے دیں جن کو سن کر وہ انصاف بھی کرسکیں۔ورنہ عام شہری مشکلات کا شکار رہے گا۔اس کے لئے وکلاءاور سائیلین کو اپنے رویے درست کرنے چاہئیں۔وکلاء کیسز اس طرح منیج کریں کہ ان کی وجہ سے کوئی مقدمہ کسی کورٹ میں التوا کا شکار نہ ہو۔انصاف میں تاخیر کے حوالے سے حسن رضا پاشانے کہا کہ عدالت تک پہنچنے سے پہلے کے مراحل زیادہ مشکلات والے ہیں۔جیسے آئی جی پنجاب کا حکم ہے کہ تعزیرات پاکستان کی دفعات 452/489F/354/354A/406اور468 جیسے مقدمات کے اندراج کی درخواستوں پر ایس ایس پی کی اجازت کے بغیر مقدمہ درج نہ کیا جائے۔حالانکہ قانون کے تحت ان دفعات کے تحت فوری مقدمات درج ہونے چاہئیں۔ میں آئی جی پنجاب کے اس حکم کو چیلنج کررہا ہوں۔ یہ وقت کا ضیاع ہے اور اس سے مدعی کا کیس خراب ہوتا ہے۔ اب تو سنا ہے کہ راولپنڈی کے ایس ایس پی آپریشنز نے باقاعدہ سرکلر جاری کردیا ہے کہ تفتیشی کے بعد ایس ایچ او پھر ڈی ایس پی اور اس کے بعد درخواست ان کے روبرو پیش کی جائے تب بھی وہ دونوں فریقین کو طلب کرکے آمنا سامنا کراکر فیصلہ کریں گے۔ اس پریکٹس سے ملزم سے زیادہ مدعی بننا قبیح فعل لگ رہا ہے۔اسی طرح کی سوچ کے باعث سڑک پر مرتے ہوئے شخص کی کوئی مدد نہیں کرتا کہ اس کے بعد میں کیس بھگتنا پڑے گا۔ جس سے قیمتی جان بچانے کی بجائے لوگ اپنی جان بچانا ضروری سمجھتے ہی۔ یہ صرف اور صرف پولیس اور تفتیشی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ پولیس سے گزرکر عدالت تک پہنچنا طویل اور تھکا دینےوالا عمل ہے۔ تب سائل کوشش کرتا ہے کہ اچھا وکیل کرے جو پہلے ہی مصروف ہوتا ہے۔ حالانکہ کسی مقدمہ کیلئے پانچ لاکھ والا وکیل بھی ہے تو پانچ ہزار والا بھی مل سکتا ہے۔ لوگوں کو نوجوان وکلاء پراعتماد کرنا چاہئے وہ بھی لاء گریجوایٹ ہوتے ہیں۔اس سوچ کی تبدیلی سے انصاف سستا ہوگا۔مقدمہ کی پیروی کیلئے چوائس اور خواہش کو رکاوٹ نہ بنائیں۔ (جاری ہے )

تازہ ترین