• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عدلیہ پر عوام کا اعتماد متاثر ہوا ہے۔اسکی ایک بڑی وجہ غیر ضروری مقدمہ بازی بھی ہے۔جو ناقابل بیان بوجھ بن چکا ہے۔ غیر ضروری مقدمہ بازی کیلئے عوام کی تربیت کی ضرورت ہے،تاکہ عدالتوں پر بوجھ کم ہو

حفصہ بخاری

دنیا میں کتنے ممالک ہوں گے جہاں کوئی جرم کرتا ہے تو اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے؟ پاکستا ن میں ایف آئی آر کٹتے ہی ملزم کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ اگر کوئی ملزم کسی دوسرے کا نام بھی لے لے تو پولیس بغیر تفتیش اسے بھی گرفتار کر لیتی ہے۔ اس اقدام سے معاشرتی مسائل پیدا ہوتے ہیں

فیاض احمد جندران

مقدمات کو تاخیر سے بچانے اور جلد فیصلوں کے حوالے سے تجویز ہے کہ ثالثی کے نظام کو بہتر اور مزید موثر بنایا جائے۔ ثالث کے لئے ایماندار ہونا ضروری ہے۔ وکلاء اور سوسائٹی کے اندر ایماندار لوگ بھی ہیں ، محض چند افراد کو نوازنا درست نہیں

جاوید سلیم شورش

آج عدالتی فیصلوں کا خیرمقدم کرنے والے عمران خان کل کسی کیس میں پھنسے تو وہ بھی انہی عدالتوں پر انگلیاں اٹھائیں گے، دکھ اس بات کا ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ تین تین بار حکومت میں رہے مگر کسی نے جلد اور سستے انصاف کی فراہمی کیلئے قانون سازی پر توجہ نہیں دی

خرم مسعود کیانی

جہاں تک نواز شریف کے فیصلے کا تعلق ہے تو اس کے دو پیمانے ہونگے ایک تو فیصلہ آنے والا وقت کرے گا جبکہ دوسرا ان فیصلوں کیخلاف ان کے پاس باقاعدہ پلیٹ فارم موجود ہیں، بڑے سے کارروائی کا آغاز اچھی اور خوش آئند بات ہے

سید طیب

حفصہ بخاری

جنرل سیکریٹری ، ہائی کورٹ بار

میں پیر خورشید احمد کلیم کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہنا چاہوں گی کہ سپریم جوڈیشل کونسل ایک غیرموثر ادارہ بن کر رہ گیا ہے۔جنگ فورم کے توسط سے میںیہ تجویز دینا چاہتی ہوں کہ بار ایسوسی ایشنز کو سپریم جوڈیشل کونسل میں نمائندگی ہونی چاہیے۔بار ایسوسی ایشنز کی قراردادوں کو اہمیت دی جانی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ہم ابھی تک ارتقائی مراحل میں ہیں۔عوام کی سیاسی تربیت نہیں ہوسکی ہے۔سیاسی معاملات میں عوام کی اس طرح شرکت نہیں جیسی ہونی چاہیے۔جس کی مثال آج بھی پاکستان کے کئی حصوں میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں ہے۔ شرکت علامتی نہیں عملی ہونی چاہیے۔سیاسی نشوونما کی ضرورت ہے۔جو سیاست دان نسل در نسل سیاست میں ہیں ان کی بھی سیاسی سمجھ بوجھ ویسی نہیں جیسی ہونی چاہیے تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ورکر اور کسی بھی پارٹی کی ہائی کمان کے درمیان انٹر ایکشن نہیں ہوتا ہے۔ہمارے سیاسی طور پر مضبوط لوگوں کے رویے بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔ عوام کی شمولیت بھی لازمی ہونی چاہیے۔ان کو تعلیم ،شعور اور وسائل فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ فیصلہ سازی میں کردار ادا کرسکیں۔ہمیں تو ری ایکشن دینے کا بھی شعور نہیں ہے۔ماتحت عدلیہ میں اصطلاحات کے حوالے سے حفصہ بخاری نے کہا کہ عدلیہ پر عوام کا اعتماد متاثر ہوا ہے۔اسکی ایک بڑی وجہ غیر ضروری مقدمہ بازی بھی ہے۔جو ناقابل بیان بوجھ بن چکا ہے۔جس سے عدالتوں کا وقت اور وسائل دونوں ضائع ہورہے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ججز کی تعداد بڑھنی چاہیے لیکن غیر ضروری مقدمہ بازی کیلئے عوام کی تربیت کی ضرورت ہے۔ٰتاکہ عدالتوں پر بوجھ کم ہو۔تب کوالٹی آف ورک ممکن ہوسکے گا۔ قبضہ مافیا کے باعث عدالتوں پر مقدمات کا بہت بوجھ ہے۔ جعلی مقدمات میں بھی حکم امتناعی کی آڑ میں لوگ ایک دوسرے کو زچ کرنے پر لگے رہتےہیں۔جس کے باعث جیلوں پر بھی بوجھ ہے ۔کیونکہ ہر دو مخالف فریق میں سے ان کی خواہش ہوتی ہے کہ دوسرے کو جیل کی ہوا کھلائیں۔ اس خواہش کے باعث جیلوں کی حالت بھی خراب ہے۔ اور مجبور لوگ بالآخر ملزمان سے مک مکا پر خود کو راضی کرلیتے ہیں۔ایسے مقدمہ بازی سے چھٹکارا پانے کیلئے عوام کی تربیت کی ضرورت ہے۔مقدمہ بازی میں پاکستان سب سے آگے ہیں۔ہم نے فیملی اور ویمن کورٹس کو مصالحتی کی بجائے ٹرائل کورٹ بنا رکھا ہے۔جس سے کیسز میں طوالت آچکی ہے۔ہمیں مصالحتی کورٹس کے زریعے چھوٹے چھوٹے ایشوز کو عدالتی کارروائی سے الگ کرنا ہوگا۔تاکہ عدالتوں پر بوجھ کم ہوسکے۔جیلوں کو تربیت گاہ کے طور پر بنایا جائے جبکہ آج یہ عالم ہے کہ ملزم جیل جاکر اصلاح کی بجائے مجرم بن کر نکلتا ہے۔ سب سے اہم جیل ریفارمز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک احتساب عدالت کا شریف فیملی کے حوالے سے کیس پر فیصلہ ہے تو اس کے ابھی اپیلٹ مراحل باقی ہیں۔پہلی بار کسی بڑی شخصیت کو سزا ہوئی ہے۔اگر ایسا تاثر نظرآئے کہ تمام کارروائی ایک خاندان یا ایک پارٹی تک محدود ہے تو اعتماد ممکن نہیں ہے۔اگر ایک پارٹی ٹارگٹ ہوگی تو یہ ہماری تاریخ کا سیاہ ترین فیصلہ ہوگا۔سب کرپٹ افراد کو انصاف کے دائرہ میں آنا چاہیے۔

فیاض احمد جندران ایڈووکیٹ

وائس چیئرمین اسلام آباد بار کونسل

احتساب عدالت کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف فیملی کے خلاف سنایا گیا فیصلہ قانونی طور پر کمزور ہے۔ شک کا تمام تر فائدہ استغاثہ کو دیدیا گیا ہے حالانکہ شک کا فائدہ ہمیشہ ملزم کا حق ہے۔ عدالت نے سابق وزیر اعظم ، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو کرپشن کے تمام الزامات سے خود ہی بے گناہ قرار دیا۔ اس فیصلے کے گہرے اثرات آئندہ الیکشن پر پڑیں گے ، بے گناہ کو سزا دئیے جانے پر ہمدردی کا پہلو اجاگر ہو گا۔ لوگوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ نواز شریف نے ضرور کوئی غلط کام کیا ہو گا مگر اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے ، معاملہ کچھ اور ہے اور بنا کچھ اور دیا گیا ہے۔ عدالت نے مفروضے کی بنیاد پر نواز شریف ، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو سزائیں سنائیں۔ اس حوالے سے عوامی ردعمل بھی سامنے آ رہا ہے۔ 25 جولائی کو عوام کی حقیقی رائے بھی سامنے آ جائے گی۔ ماتحت عدلیہ میں جتنی خرابیاں نظر آتی ہیں ان میں 70 فیصد مسائل فوجداری مقدمات میں پائے جاتے ہیں۔ حوالات سے لے کر ٹرائل اور سزا تک کا عمل انتہائی کٹھن اور دشوار گزار ہے۔ فوجداری مقدمے کی ابتدا ایف آئی آر سے ہوتی ہے۔ دنیا میں کتنے ممالک ہوں گے جہاں کوئی جرم کرتا ہے تو اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے؟ پاکستا ن میں ایف آئی آر کٹتے ہی ملزم کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ اگر کوئی ملزم کسی دوسرے کا نام بھی لے لے تو پولیس بغیر تفتیش اسے بھی گرفتار کر لیتی ہے۔ اس اقدام سے معاشرتی مسائل پیدا ہوتے ہیں اور متاثرہ خاندان تباہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس ضمن میں متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین کی مثال سامنے ہے ، ان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج ہوا لیکن تفتیش کا عمل جاری ہے اور انہیں ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا۔ اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ جیلوں کا رواج نہیں تھا۔ جنگ بدر کے قیدیوں سے بچوں کو پڑھانے کا کام لیا گیا۔ اسلامی تاریخ میں حضرت عمر ؓ کے دور میں پہلی مرتبہ ایک گھر کو عارضی جیل کا درجہ دیا گیا۔ پاکستان میں ہر قیدی کا روزانہ خرچ 150 سے 200 روپے ہے جو قومی خزانے پر بوجھ ہے۔ اس کے علاوہ گرفتار ملزمان کی نقل و حرکت پر بھی سالانہ اربوں روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ ہمارے ہاں ملزمان اور مجرمان کو جیل بھیج کر انہیں جسمانی طور پر اذیت پہنچاتے ہیں جبکہ دنیا کے کئی ممالک میں جرم ثابت ہونے پر صرف جرمانے کئے جاتے ہیں۔ پاکستان میں گرفتاریوں کے لئے شیڈول ہونا چاہئے جیسے چوری ، اسمگلنگ وغیرہ۔ اگر محلے کا کونسلر ضمانت دے کہ ملزم تفتیش کے لئے پیش ہو گا تو اسے گرفتار نہیں کرنا چاہئے۔ تفتیش کے بغیر بے گناہ افراد کی گرفتاریوں سے ان کے خاندان بری طرح متاثر ہوتے ہیں اور نہ صرف معاشی بلکہ اخلاقی مسائل جنم لیتے ہیں۔ دو سال کے بعد اگر کوئی ملزم بے گناہ ثابت ہو کر بری ہوتا ہے تو اس وقت تک اس کا گھرانہ تباہی سے دوچار ہو چکا ہوتا ہے۔ گرفتاریوں کے حوالے سے اختیارات کے غلط استعمال کو نہ صرف روکنے بلکہ اس کو غلط استعمال میں لانے والوں کے خلاف بھی تادیبی کارروائی کی ضرورت ہے۔ پولیس کے پاس کسی شخص کے خلاف مقدمہ درج ہونے کے بعد اس کی ضمانت لینے کا اختیار موجود ہے اور تفتیش مکمل ہونے تک گرفتاریوں کو بھی التواء میں رکھا جا سکتا ہے لیکن پولیس اہلکار اپنے افسران کی ناراضگی کے خدشات اور مالی منفعت کے الزامات سے بچنے کے لئے ملزموں کو ریلیف نہیں دیتے۔ ماتحت عدلیہ کے ججز کو اب پہلے سے کئی زیادہ سہولیات اور بہتر ماحول میسر ہے لیکن ان کی مانیٹرنگ کی ضرورت ہے۔ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے قیام کے بعد ماتحت عدالتوں میں کسی نے مانیٹرنگ کی ضرورت محسوس کی ہو۔ سہولتوں کی وجہ سے ججز عدالتوں کی بجائے ریٹائرنگ روم میں بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں جس کی وجہ سے سائلین سارا دن بیٹھنے کے بعد تھک ہار کر واپس چلے جاتے ہیں۔ اکثر مقدمات کی فائلوں پر ججز کے دستخط موجود نہیں ہوتے۔ ہر جج کو ذہنی طور پر جج ہونا چاہئے اور اسے فیصلے کرنے چاہئیں۔ یہ شکایت بھی سامنے آئی ہے کہ ایک جج نے چار لائنوں کا فیصلہ لکھنے کے لئے چار بار تاریخیں دی ہیں۔ ججوں کی بھرتی کے موقع پر یہ جاننے کیلئے کہ اس میں جج بننے کی صلاحیت ہے نفسیاتی ٹیسٹ بھی ہونا چاہئے۔ نواز شریف فیملی کے لندن فلیٹس حسن نواز اور حسین نواز کے نام پر ہیں۔ دونوں برطانوی شہری بھی ہیں۔ مقدمے کی اپیلوں کے فیصلوں تک ان فلیٹس کو ضبط کرنے کے حوالے سے احتساب عدالت کے حکم پر فوری طور پر عملدرآمد ناممکنات میں سے ہے۔ اعلیٰ عدلیہ سے اپیلوں کے فیصلے کے بعد بھی یہ دیکھنا ہو گا کہ آیا برطانیہ اور پاکستان کے مابین ایسا کوئی معاہدہ موجود ہے جس کی بنیاد پر یہ جائیداد ضبط کی جا سکے۔ احتساب عدالت کی جانب سے 6 جولائی کو سنائے گئے ایون فیلڈ کرپشن ریفرنس کے فیصلے کے خلاف اپیل کے لئے صرف دس روز دئیے گئے ہیں۔ اس دورانئے میں نواز شریف وطن واپس آنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ سے احتساب عدالت کا فیصلہ معطل ہونے کی صورت میں نواز شریف ، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی ملک کے اندر آمد و رفت میں رکاوٹ ختم ہو جائے گی اور وہ کھل کر عوام رابطہ مہم چلا سکیں گے۔

جاوید سلیم شورش ایڈووکیٹ

چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی ، اسلام آباد بار کونسل

عدالت کوئی بھی وہ ہمارے لئے قابل احترام ہے تاہم کسی عدالتی فیصلے میں سقم پر اظہار رائے بطور وکیل ہماری پیشہ وارانہ ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ 6 جولائی 2018ء کو احتساب عدالت کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف فیملی کے خلاف جو فیصلہ سامنے آیا ہے اور جس طرح کا فیصلہ آیا ہے اسے ہر شخص اپنے نکتہ نظر سے دیکھ رہا ہے۔ گو کہ سپریم کورٹ نے نواز شریف فیملی کے خلاف مقدمات کو جلد نمٹانے کی ہدایت کی تھی لیکن ہر شخص احتساب عدالت کے اس فیصلے کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھتا ہے۔ سپریم کورٹ کی مانیٹرنگ کے دبائو کے ساتھ ساتھ .... دوسرے دبائو بھی نظر آتے ہیں۔ فیصلہ سنانے میں جلد بازی اور عجلت کا تاثر نمایاں ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ نواز شریف قصور وار ہوں گے مگر آف شور کمپنیوں کے 400 مالکان اور دیگر بڑے بڑے سیاستدانوں کے مقدمات پر خاموشی ہے مگر نواز شریف فیملی کے خلاف مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچا دیا گیا جو پِک اینڈ چُوز (Pick and Choose) کا مظاہرہ نظر آتا ہے۔ احتساب سب کا ہونا چاہئے۔ کچھ کو سزا دینا اور باقیوں کو نظر انداز کرنا انصاف کے منافی ہے۔ اس فیصلے میں بعض چیزیں قانونی طور پر درست نہیں۔ ایک تو یہ کہ محض مفروضے کی بناء پر سزا سنا دی گئی یعنی بچے کم عمر تھے یا خود کفیل نہیں تھے اس لئے جائیداد کی خریداری کے لئے ان کے باپ نے ہی رقم دی ہو گی۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ یہ رقم ان کے دادا (جو اُس وقت حیات تھے) نے دی ہو یا پھر ان کے چچا نے دی ہو۔ شک کا فائدہ ملزم کو ملتا ہے استغاثہ کو نہیں۔ ٹی وی کلپنگ بھی جدید قانون میں قابل قبول شہادت مانی جاتی ہے لیکن اس کے لئے بھی ضروری ہے کہ جس کی آواز ہو وہ عدالت کے روبرو اس کی تصدیق کرے ، اس کے بغیر یہ شہادت بھی قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ نواز شریف فیملی کے خلاف کرپشن اور منی لانڈرنگ کا الزام بھی ثابت نہیں ہو سکا۔ اس فیصلے کے پس پردہ متحرک بات الیکشن 2018ء نظر آتی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ انتخابات میں یہ فیصلہ کس حد تک نواز شریف فیملی کے حق یا مخالفت میں جائے گا ، لیکن یہ فیصلہ الیکشن نتائج پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ احتساب عدالت نے لندن فلیٹس ضبط کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ نواز شریف فیملی کے پاس اپیل کے لئے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے فورم موجود ہیں۔ برطانیہ تو کیا پاکستان میں بھی جائیداد ضبط کرنے کا فیصلہ آ جائے تو اعلیٰ عدالتوں کے حتمی فیصلے تک ضبطگی کا عمل شروع نہیں ہو سکتا۔ حسن اور حسین نواز برطانیہ کے شہری ہیں اور جائیداد ان کے نام پر ہے۔ لندن فلیٹس ضبط کرنے کے لئے دو ممالک کے درمیان ایک دوسرے کے فیصلوں کو تسلیم کرنے کی روایت ہونا ضروری ہے۔ بہت سے عوامل الیکشن پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ مسلم لیگ ن پر دبائو ڈالا گیا اور ان کے لوگ توڑے گئے۔ سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کی یہ بات کسی حد تک صحیح لگتی ہے کہ چیئرمین سینیٹ سنجرانی جیسا وزیر اعظم لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ کوشش کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ملک ہے تو ہم ہیں وگرنہ ہماری اہمیت بھیڑ بکریوں سے زیادہ نہیں۔ 2018ء کے انتخابات میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی خواہش جمہوریت کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہو گی۔ ہر الیکشن میں سول یا ملٹری بیورو کریسی مرضی کے نتائج حاصل کرنا چاہے تو یہ جمہوریت کے لئے خطرناک کھیل ہے۔ انتخابات اب بھی ہو رہے ہیں ، 1970ء میں بھی ہوئے تھے ، اُس وقت بھی دھاندلیاں ہوئیں ، جب حالات خراب ہوئے تو سیاستدان اور جرنیل بے بس ہو کر رہ گئے ، کوئی کچھ نہیں کر سکا اور ملک دو لخت ہو گیا۔ یہ ملک ہمارا ہے ، جب کوئی کھڑا نہیں ہو گا تو ہم کھڑے ہوں گے۔ ہماری آئندہ نسلوں نے بھی یہیں رہنا ہے۔ میں اپنے ملک کے سیاستدانوں اور فوج سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ہوش کے ناخن لیں ، جو کچھ ہو رہا ہے مسئلہ سنگین ہے۔ ڈیم خشک ہو رہے ہیں جس کے ذمہ دار حکمران اور جرنیل ہیں۔ سندھ طاس معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے پاکستان کی نمائندگی کرنے والے جماعت علی شاہ آج تک وطن واپس نہیں آئے اور کسی نے انہیں واپس لانے کی زحمت تک گوارا نہیں کی۔ نواز شریف تو شائد خود واپس آ جائے ، جماعت علی شاہ کو وطن واپس لانا کس کی ذمہ داری ہے۔ ہر شخص کو سستا اور فوری انصاف چاہئے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کے ملکی نظام کے حوالے سے خیالات کا احترام کرتا ہوں لیکن بدقسمتی سے انہوں نے عدلیہ کے حوالے شہریوں کو درپیش مشکلات کے حل کے لئے کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ ججز کو اب پہلے سے زیادہ سہولیات میسر ہیں۔ جہاں دو ، دو سو مقدمات لگتے تھے اب وہاں پچاس پچاس کیس رہ گئے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ججز ایک دوسرے کے ساتھ گپ شپ میں وقت ضائع کرتے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہاں ماتحت عدلیہ میں تمام ججز مستقل لگائے گئے ہیں جنہیں دوسری جگہ تبدیلی کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ چیف جسٹس صاحب سے ججز کی روٹیشن کے حوالے سے بات کی گئی تھی لیکن ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔ محض اسلام آباد کو ایسٹ اور ویسٹ میں تقسیم کرنا مسئلے کا حل نہیں۔ ہر جج کو تین تین سال کے بعد دوسرے شہروں میں بھیجنا چاہئے۔ ججز کی تنخواہیں تو تین گنا کر دی گئی ہیں مگر ان کی کارکردگی کو جانچنے کے لئے مانیٹرنگ کا کوئی انتظام نہیں۔ مانیٹرنگ کے باقاعدہ انتظام کی ضرورت ہے۔ مقدمات کو تاخیر سے بچانے اور جلد فیصلوں کے حوالے سے تجویز ہے کہ ثالثی کے نظام کو بہتر اور مزید موثر بنایا جائے۔ ثالث کے لئے ایماندار ہونا ضروری ہے۔ وکلاء اور سوسائٹی کے اندر ایماندار لوگ بھی ہیں ، محض چند افراد کو نوازنا درست نہیں۔ اس سلسلے میں سول سوسائٹی اور میڈیا کو بھی مانیٹرنگ کا کردار سونپا جا سکتا ہے۔ اس طرح لوگوں کو فوری اور سستا انصاف میسر ہو گا اور فیصلے جلد ہو سکتے ہیں۔ فوجداری مقدمات میں پولیس فریقین سے پیسے بٹور لیتی ہے اور کمزور کو پھنسا دیا جاتا ہے۔ اس پریکٹس کو بھی روکنے کی ضرورت ہے۔ منتخب حکومتوں کو شہریوں کے تحفظ کے لئے اپنا یہ کردار بھی ادا کرنا چاہئے۔ انصاف کے نظام کو مضبوط بنانے کے لئے غیر جانبداری کے ساتھ اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ اراکین پارلیمان ، سول سوسائٹی اور میڈیا سمیت معاشرے کے ہر مکتبہ فکر کو انصاف کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے ساتھ دینا چاہئے۔

خرم مسعود کیانی

صدر، ڈسٹرکٹ بار ،راول پنڈی

یہ ہمارے ملک کی بدقسمتی کہ جب بھٹو کو سزا ہوئی تو پیپلزپارٹی کو آیا کہ عدالتیں انصاف نہیں کر رہیں اس طرح اب نواز شریف کو سزا ملی تو انہیں ناانصافی دکھائی دے رہی ہے آج عدالتی فیصلوں کا خیرمقدم کرنے والے عمران خان کل کسی کیس میں پھنسے تو وہ بھی انہی عدالتوں پر انگلیاں اٹھائیں گے، دکھ اس بات کا ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ تین تین بار حکومت میں رہے مگر کسی نے جلد اور سستے انصاف کی فراہمی کیلئے قانون سازی پر توجہ نہیں دی اپوزیشن میں آکر حق اور سچ کی بات کرنے والے اقتدار میں آکر سب کچھ بھول جاتے ہیں، صدر بار نے کہا کہ جب فوجی آتے ہیں تو جج ان کے ہوتے ہیں، سیاستدان آتے ہیں تو اپنے جج مقرر کرتے ہیں اور جوڈیشری اپنے جج تعینات کرتی ہے جبکہ ہم صرف اتنی گزارش کرتے ہیں کہ انصاف سب کیلئے ہونا چاہئے چاہئے سامنے ایک مزدور ہے جنرل، وزیر ہے یا وزیراعظم، تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ پہلی بارایسا ہوا ہے کہ جنریل اور سیاستدانوں سے لیکر بڑوں کو احتساب کیلئے بلوایا جا رہا ہے، انہوںنے کہا کہ نواز شریف کے حوالے سے فیصلہ صحیح ہے یا غلط یا بات اپنی جگہ مگر ایک پاکستانی شہری ہونے کے ناطے ہمارے لئے بات باعث شرم ہے کہ ہمارے ملک کے وزیراعظم پر کرپشن، جھوٹ اور بدعنوانی جیسے الزامات عائد ہوئے ہیں، صدر بار نے کہا کہ انصاف کے سب سے بڑے سٹیک ہولڈر ہم وکلاء ہیں جو ہمیشہ آمریت کیخلاف ڈٹے رہے آرمی رول کی مخالفت کی بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کیلئے سال بھر سڑکوں پر رہے احتجاج کیا اور ہڑتالیں کیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے جب ہم پرویز مشرف کی آمریت کیخلاف سراپہ احتجاج تھے تو اس وقت ہمارے سیاسی قائدین بیرون ملک رہے جب سب کچھ ٹھیک ہوگیا تو وہ پاکستان آئے اور باری باری حکومت کر لی لیکن کسی نے وکلا کی قربانیوں اور ان کے مسائل کی طرف توجہ نہ دی انہوںنے کہا کہ راولپنڈی بار میں وکلا اور عدالتی عملے کے علاوہ مختلف کاموں کیلئے تقریباً چالیس ہزار لوگ روزانہ آتے ہیں مگر ان لوگوں کو پانی سے لیکر کوئی بنیادی سہولت میسر نہیں ہوتی، سیاسی رہنما آئے وعدے کئے اور چلے گئے مگر کسی نے اپنے وعدے پر عمل نہیں کیا ان سیاستدانوں کو ہماری یاد تب آتی ہے جب یہ خود پھنستے ہیں، انہوںنے کہا کہ طیب اردوان کی مثالیں دینے والوں کو پہلے اپنے گریبانوں میں جھانک لینا چاہئے کہ وہ خود ملک اور قوم سے کتنے مخلص ہیں جہاں تک طیب ارودان کی بات ہے تو اس نے اپنی قوم اور امت مسلمہ کیلئے جو کچھ کیا اور کر رہے ہیں پوری دنیا اس کی معترف ہے یہی وجہ ہے کہ ترکی کے لوگ اس کی خاطر ٹینکوں کے سامنے لیٹ کر جان دینے کو بھی تیار ہوگئے تھے ہماری بدقسمتی ہے کہ قائداعظم اور لیاقت علی خان کے ماسوائے معراج محمد خالد کے جو بھی سیاستدان آیا اس کی ترجیحات میں سب سے پہلے ارب پتی سے کھرب پتی بننا ہوتا ہے قوم ان کے کرتوتوں سے واقف ہے یہی وجہ ہے کہ لوگ ہمارے سیاستدانوں کی باتوں پر کوئی یقین نہیں کرتا اور نہ ہی اعتماد، انہوںنے کہا کہ نواز شریف فیملی کے حوالے سے اسلام آباد کی احتساب عدالت کا فیصلہ صحیح ہے یا غلط یہ تو وقت ہی بتائے گا تاہم میں ضرور کہوں گا کہ ہمیں فیصلوں کو ڈسکس کرنا چاہئے ججز اور ان کے خاندانوں کو نہیں، اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی امید رکھتے ہیں احتساب کا جو عمل شروع ہوا ہے یہ بلاتخصیص جاری رہے گا۔

سید طیب

سابق صدر، ڈسٹرکٹ بار ،اسلام آباد

یہ حقیقت ہے کہ ہماری عدلیہ کچھ عرصہ سے جوڈیشل ایکٹوازم کی طرف چل نکلی ہے افتخار محمد چوہدری کے بعد یہ سلسلہ شروع ہوا تھا جس کے بعد ہماری عدالتوں نے ایک فعال اور متحرک کردار شروع کر دیا ہے جہاں تک نواز شریف کے فیصلے کا تعلق ہے تو اس کے دو پیمانے ہونگے ایک تو فیصلہ آنے والا وقت کرے گا جبکہ دوسرا ان فیصلوں کیخلاف ان کے پاس باقاعدہ پلیٹ فارم موجود ہیں، بڑے سے کارروائی کا آغاز اچھی اور خوش آئند بات ہے لوگوں میں شعور آچکا ہے پہلے لوگ کسی کیس میں پٹورای اور پولیس ملازم کیخلاف بھی مدعی بنتے اور بیان نہیں دیا کرتے تھے مجھے یاد ہے کہ جنرل فیصل علوی قتل کیس میں ان کی بیوہ عدالت نہیں آئی تھیں کیونکہ انہیں خوف تھا کہ جس طرح میرا شوہر قتل ہوا میں بھی ماری جائوں گی مگر اب حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں اور نواز شریف کیخلاف کیس میں جس طرح گواہوں سے لیکر جے آئی ٹی افسران نے جو کردار ادا کیا وہ حوصلہ افزا بات ہے، ہم ایسے دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں عدالتوں نے آئین اور قانون کی حکمرانی کیلئے اپنا کام شروع کر دیا ہے اور یہ چیز بہتری کی طرف امید کی ایک کرن ہے تاہم اگر احتساب کا یہ عمل صرف نواز شریف فیملی تک محدود رہا تو پھر اس فیصلے پر آنے والے دنوں میں انگلیاں اٹھائی جائیں گی، سب کو قانون کے سامنے جوابدہ ہونا چاہئے یہ نہیں کہ نواز شریف کیخلاف فیصلے کے بعد انصاف کا یہ دروازہ بند ہو جائے ہم امید رکھتے ہیں کہ یہ فیصلہ نقطہ آغاز ہوگا نہ کہ اختتام، انہوںنے کہا کہ لوگوں میں شعور آنے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ نواز شریف کیخلاف فیصلے کے بعد لوگ سڑکوں پر نہیں آئے کیوں انہیں احساس ہوچلا ہے کہ جو ہمارے حقوق پر ڈاکہ ڈالے گا ہم کیوں اس کیلئے سڑکوں پر آئیں یہاں بھی ضرور کہوں گا کہ جمہوریت اچھی چیز ہے مگر ہمارے ملک میں جمہوریت پر جو داغ لگے ہیں انہیں جلد از جلد دھویا جائے کیونکہ بڑھتی ہوئی کرپشن کی وجہ سے دنیا میں ہماری کوئی عزت نہیں رہی جس ملک بھی جائیں ہمیں اچھی نظر نہیں دیکھا جاتا یہاں تک پہنچانے میں ہمارے بڑوں کا بڑا کردار ہے لہذا اس غلاظت کو دھونے کیلئے جو جہاں بھی ہے اسے اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہو گا، انہوںنے کہا کہ ماتحت عدلیہ میں اصلاحات کی ضرورت ہے جس سول جج کا ہر فیصلہ ہائی کورٹ میں کالعدم ہوجائے اس جج کو یہ پیشہ چھوڑ دینا چاہئے کیونکہ سول جج نظام عدل کی پہلی سیڑھی ہوتا ہے اگر پہلی سیڑھی پر ہونے والے فیصلے میں ہی انصاف کے تقاضے پورے نہ ہوں تو پھر ایسے جج کو گھر چلے جانا چاہئے، اس کے علاوہ نظام عدل میں جو خامیاں ہیں وہ دور کرنے کیلئے پارلیمنٹ قانون سازی کرے بہت سارے قوانین 100برس سے بھی زائد پرانے ہیں ان قوانین میں حالات اور ضرورت کے مطابق تبدیلی ناگزیر ہے مگر افسوس ہمارے سیاستدانوں کی ترجیح نظام عدم نہیں رہا یہ تو اب مجبوراً جب عدالتیں فعال ہوئیں ان سے پوچھ گچھ کی گئی تو انہیں احساس ہوا کہ یہ بھی کوئی ادارہ ہے انہوںنے کہا کہ وکلا کی طرف سے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ سینٹ میں خانہ پوری کیلئے سیاسی جماعتوں کو نوازنے کیلئے ٹیکنوکریٹ کی جو سیٹیں رکھی گئی ہیں فوری طور پر قانون سازی کر کے ٹیکنوکریٹ کی ان سیٹوں پر ریٹائرڈ ججز اور سینئر وکلاء کا کوٹہ مقرر کیا جائے۔

راجہ عامر محمود

جنرل سیکریٹری، ڈسٹرکٹ بار، راولپنڈی

نواز شریف کیس کے حوالے سے عدالتوں نے جو بھی فیصلہ کیا ہم اس کا احترام کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ احتساب کا جو عمل شروع ہوا ہے اب اسے رکنا نہیں چاہئے، نواز شریف، آصف زرداری اور عمران خان سمیت جن جن کے اثاثے بیرون ملک ہیں وہ پاکستان لائے جائیں۔

تازہ ترین