• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدر اوباما نوجوانوں سے خطاب کے دوران روپڑے۔
حسیناؤں کے رونے ہنسنے کا بھی پتہ نہیں چلتا ، اوباما کے آنسو پانی کے قطرے تھے یا موتی یہ فیصلہ کرنا بھی قدرے مشکل نہیں، شاید وہ نظریہ اضافیت کے تحت رو رہے تھے، اس امریکی صدررعنا کے رونے سے ہمیں حافظ شیراز کا یہ شعر یاد آ گیا
بگوش گل چہ سخن گفتہ ای کہ خندان است
بہ عندلیب چہ فرمودہ ای کہ نالان است
”تو نے گلاب کے کان میں کیا بات کی ہے کہ جب دیکھو ہنس رہا ہے اور بلبل سے کیا کہہ ڈالا کہ روتا جارہا ہے“
صدر اوباما نوجوانوں کے سامنے روپڑے ہیں ، بزرگوں کے سامنے شاید خوب ہنسے ہوں گے کیونکہ ہر بارات میں بستروں والی پیٹی میں ایک بزرگ بھی بند ہوتا ہے جس سے تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ڈھکنا اٹھا کر مشورہ لے لیا جاتا ہے اور اس کے بعد مشورہ لینے والے روتے روتے ہنس پڑتے ہیں۔ اوباما کی آبنوسی پشت پر بھی کچھ سرد و گرم چشیدہ بزرگ ضرور ہوں گے جن کے رکے ہوئے قہقہوں اور عمر بھر کی کمائی سے اوباما نے منہ تو دھویا ہوگا۔ اوباما کے پہلے دور میں بھی ہم یہی کچھ تھے اور دوسرے دور میں بھی یہی کچھ یا بہت کچھ ہوں گے۔ سوال تو یہ ہے کہ ہمیں کیسا اوباما ملتا ہے ۔لیلائے جمہوریت کے ساتھ صرف چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد کا سلوک ہوتا ہے یا پھر ایک خالص جمہوری گڈ گورننس ہم تہی دامنوں کو شاد کام کرتی ہے یا ناکام، امید پر دنیا قائم ہے لیکن ووٹرز کی ہوشیاری سردست درکار ہے۔

چین میں حکومتی عہدیداروں کو اپنے اثاثے عوام کے سامنے لانا ہوں گے، ان خیالات کا اظہار چینی نئی قیادت نے کیا ہے۔
چین سے ہماری دوستی ہمالہ سے اونچی اور قلزم سے گہری ہے اور اپنے ساتھ دشمنی کا بھی یہی پیمانہ ہے ۔ ”قیاس کن زگلستانِ من بہارِ مرا“ (میرے چمن کو دیکھ کر میری بہار کااندازہ لگالیں)ہمارے ہاں حکومتی عہدیدار جمع میں ماہر اور تفریق میں کمزور ہیں۔ اس لئے ان کے لئے کسی ماہر ریاضی اتالیق کی ضرورت ہے، یہ نہیں کہ یہ اپنے اثاثے ظاہر کرتے ہیں مگر وہ ہاتھی کے دانت ہوتے ہیں، آج نگار وطن کی مانگ اجڑ رہی ہے ایک عجب سی روشنی ہے کہ اس میں لکھا ہوا پڑھا نہیں جاتا، سب اچھا ہے، نوشتہ دیوار ہے، اپنے عیب دوسروں میں ڈھونڈنے کا بھوت سوار ہے۔ گوہاتھ میں جنبش نہیں لیکن دوسروں کو میزائلوں اور ایٹم بموں کی دھمکی دیتے ہیں۔ اب دشمنی دشمنی کے بجائے کبڈی کبڈی ہی بہتر ہے۔ ابھی تو ہمارے لئے یہی فارمولا ہاجومولا ہے کہ , پڑی اپنے عیبوں پر جو نظر تو نظر میں کوئی برا نہ رہا، میٹھے بول میں جادو ہے، کا تلخ گھونٹ ہی قند سمجھ لیں تو اچھا ہے۔ اپنے ہمسائے سے یہ کہنے میں بڑا رومانس ہے
رم جھم رم جھم کرے پھوار تیرا میرا نت دا پیار
جب صدر گرامی قدر آئے تھے اور جمہوریت کی ٹھنڈی سڑک پر ٹہل رہے تھے تو ہم نے جانا تھا کہ
ہم تو سمجھے تھے کہ برسات میں برسے گی شراب
آئی برسات تو برسات نے دل توڑ دیا
ہمارے آج کے رہنما اور آنے والے اپنے اثاثے ظاہر کریں اپنے گنڈا سے نہ دکھا ئیں۔ یہاں جس کے پاس جو عہدہ ،دولت، عزت اور دبدبہ ہے وہ عوام کی خیرات ہے، خراج کے یہ گدا عوامی خراج تو کم از کم ٹھیک ٹھیک ظاہر کردیں

اٹلی میں خراب طبی آلات کا استعمال، 9ڈاکٹر گرفتار 12کمپنیوں پر پابندی عائد، غیر قانونی علاج اور ایک شخص کی مشتبہ ہلاکت کے باعث گرفتاری عمل میں آئی۔
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کوبگاڑ
اگرہم اٹھارہ کے اٹھارہ کروڑ اچھے ہوتے تو برے دن نہ دیکھنے پڑتے، پاکستان میں ا چھائی دیانتداری کی کمی نہیں مگر یہ دونوں بے چاری بسں اتنا ہی کہہ سکتی ہیں
نادیدنی کی دید سے ہوتا ہے خون دل
بے دست و پا کو دیدہ بینا نہ چاہئے
قوم اپنا قبلہ راست کرے، جمہوریت کو اس کی مسخ شدہ حالت سے باہر نکال کر نافذ کردے تو تطہیر اور ترقی کا عمل شروع ہونے میں کوئی تاخیر مانع نہیں۔ ایک بہترین قوم کو اگر چند نااہلوں کے سپرد کردیا گیا اور طاقت و دولت بھی ان کے پاس ہی رہی تو یہ قوم پولیو زدہ ہی رہے گی بہرحال
”بیداری“ کی ایک لہر سی اٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی
ابھی اٹلی میں ایک شخص ڈاکٹروں کی غفلت سے مرگیا تو گویا پورا اٹلی مرگیا اور ہمارے ہاں روزانہ کی بنیادوں پر شفاخانوں میں طرح طرح کی غفلتوں سے جیتے جاگتے موت کی نیند سلادئیے جاتے ہیں اور وہ مردے جو محلات میں زندہ ہیں ان کی دو منٹ کے لئے بھی دھڑکن تیز نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں کے مسیحاؤں اور دوا ساز کمپنیوں کو اپنی اداؤں پر ذرا غور کرنا چاہئے ،قوم تو خاموش ہے اور خاموشی سے مر بھی جاتی ہے لیکن اگر اس قوم کا اوا گون عمل میں آگیا تو پھر ……

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سیکرٹری فرماتے ہیں کسی رکن پارٹی کی موت اب سے پانچ دن بعد ہوتی ہے تو اس کے حلقے کے عوام آئندہ انتخابات تک نمائندگی سے محروم رہیں گے۔
انتخابات کی تاریخ میں ایسی بوالعجبی شاید ہی کہیں ہو، یہ اعزاز ہمارے الیکشن کمیشن اپنے نئے قانون بنانے کے بعد حاصل ہوا گویا کسی حلقے کا نمائندہ پانچ دن زندہ رہنے کے بعد موت کی آغوش میں چلا گیا تو اس کے ساتھ ہی اس کا حلقہ بھی اجتماعی تدفین کی نذر ہوجائے گا۔ جب کوئی عوامی نمائندہ جاں بحق ہوجائے تو اس کا سیدھا سا علاج جو پہلے سے جاری ہے کہ اس حلقے میں نئے انتخابات کرادئیے جاتے ہیں اور کسی ایسے امیدوار کو لگادیا جائے جو پانچ دن کے بجائے پانچ سال بعد بھی نہ مرے اور اس کے حلقے کی الیکشن کمیشن کے نئے قانون کے تحت یہ تو نہ ہو
اب تو کہتے ہیں کہ مرجائیں گے
مرکے بھی چین نا پایا تو کدھر جائینگے
الیکشن کمیشن ہوش کے ناخن نہیں لے سکتا تو نہ لے لیکن ناخن کاٹ لے کہ یہ شاید اتنے تیز ہوگئے ہیں کہ ہاتھ ملائے گا تو انگلیاں چھیل جائے گا، ہمیں تو آج سیکرٹری الیکشن کمیشن کے توسط سے ستم ظریفی کا اصل مفہوم سمجھ آیا وگرنا ،نا سمجھی میں ہم ہی نہیں مرنے والے عوامی نمائندے کا حلقہ بھی ڈوب جاتا کہیں الیکشن کمیشن نے اقبال کے اس شعر کو غلط سمجھ کر تو یہ نیا ’نوکھیلا“ قانون ا یجاد نہیں کرلیا
بے خطر کود پڑا آتشیں نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
تازہ ترین