• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
’’رسوائی‘‘ بھی لفظوں کی ایجاد میں ایک انوکھا لفظ ہے یہ پہلے کبھی عشق میں خوب بدنام ہونے والے عاشقین کیلئے استعمال ہوا کرتا تھا جب عاشق کےعشقیہ قصے سر چڑھ کر زبان زد عام ہوا کرتے تھے تو اسے ’’رسوائی‘‘ کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ یہ رسوائی زیادہ تر مرد عاشق کے حصے آتی تھی خواتین عاشقائیں اپنے بھید چھپا کر رسوائی سے ذرا دور ہی رہتی تھیں۔ یعنی خواتین کا حال داغ دہلوی کے شعر کی طرح تھا کہ
چاہ کی چتوں میں آنکھ اس کی شرمائی ہوئی
تاڑلی مجلس میں سب نے سخت رسوائی ہوئی
یعنی اگر تماشہ دکھائوگے تو سب تاڑ ہی لیں گے اگر شرم و حیا اور قاعدے سے رہو گے تو بدنام ہونے سے بچ جائو گے۔ مگر یہ رسوائی اب عشق و محبت میں گرفتار لوگوں کی نہیں ہے اب یہ عاشق سیاست کی ہے یا عاشقین سیاستدانوں کی ہے جو سیاستدانوں کی نظر میں رہنے کیلئے اس سے اپنے عشق و محبت کے حال دکھانے کو بے چین رہتے ہیں یعنی وہ حال کہ
ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
جی ہاں رسوائی، بدنامی، بے عزتی، ذلت، ذلیل و خواری یعنی جتنے بھی الفاظ ہیں اس ضمن میں کہے گئے اور جتنے بھی موضوع ہیں اس سلسلے کے تو فخر کیجئے وہ سب قوم پاکستان کیلئے ہیں۔ یہ قوم جس کیلئے تاریخ رقم ہے کہ اقبال کے اشعار اور قائداعظم کی سعی مہم اور جدوجہد میں جوش و ولولے سے آگے بڑھی تھی پیش پیش تھی، قرینہ بقرینہ خود کو پیش کررہی تھی آزادی کی جنگ کیلئے شہر کے لوگ تو کیا قریہ قریہ اور پسماندہ اور سفید پوش ہر جگہ سے آکر ان کی آواز سے آواز ملا رہے تھے۔ ایک ڈھنگ تھا، روش تھی، ترتیب تھی، سلیقہ تھا۔ جلسے و جلوس میں بھی طور طریق نظرآتا تھا آپ تاریخ کے مناظر اٹھا کر دیکھ لیں کیا ایسا تھا یا نہیں؟ مگر۔ مگر اس وقت میں حالیہ حالات قوم پر کچھ رقم کرتے ہوئے سخت دکھی ہوں کہ ہم کہاں کہاں تماشہ نہیں بن رہے اہل لندن اچھی طرح واقف ہیں کہ ہمارا اشارہ لندن کی کن گلیوں کی جانب ہے۔ جی ہاں وہ ہی گلیاں جہاں لندن پولیس آئے روز پاکستانیوں کے تماشے دیکھ کر اندر ہی اندر ہنستی ہنستی مسکراتی ہے ایسا گند تو پاکستان کی گندی بستیوں میں رہنے والوں کا وتیرہ ہوا کرتا ہے ہم تو عظیم برطانیہ کے مہذب معاشروں میں رہتے ہیں یہ سچ ہے کہ اس ملک کی عظمت و شان یہ ہے کہ آپ آزادی رائے کا حق رکھتے ہیں آپ پرامن مظاہرے کرسکتے ہیں مگر اس کیلئے بھی ہائیڈ پارک کا کونہ مخصوص ہے مگر ہمارے پاکستانیوں نے اس استحقاق کا ناجائز فائدہ اٹھا کر لندن کی ہر گلی و محلے کو اس کا گڑھ بنا دیا۔ جہاں چاہو جلوس لے جائو، جہاں چاہو پروٹیسٹ کرلو، جہاں  چاہے دشنام درازی کرلو، جہاں چاہے ہاتھا پائی کرلو، جہاں چاہے دست و گریباں ہوکر تماشہ بن جائو، کیا یہ قوم ملک سنوارنے، اخلاق سنوارنے اور بدتہذیبی و بدتمیزی سے مبرا ہوکر ایسے کاموں کیلئے بنی ہے کہ جس میں رسوائیاں اور جگ ہنسائیاں ہیں۔ ہمارے ملک کی فضا آئے روز غم آلودہ رہتی ہے ابھی آپ اس سانحے سے گزرے ہیں جس میں ہارون بلور کی جواں سال موت ہوئی اس کے علاوہ کئی اموات اور بے تحاشہ زخمی حالت میں لوگ موجود ہیں۔ اس کے علاوہ نواز شریف اگر لندن میں ہیں تو اپنی اہلیہ کی وجہ سے کہ وہ شدید بیمار ہیں انتہائی نگہداشت میں ہیں اور ان پر نہایت نازک وقت ہے ایسے میں غم زدہ لوگوں کی غم گساری و غم خواری کرنا بنتا ہے مگر یہاں وہ وہ تماشے برپا ہورہے ہیں کہ خدا ہی سمجھے۔ پاکستان کی سیاست پاکستان ہی میں رہنے دو مگر نہیں جی، جہاں جہاں یہ قوم آباد ہے اس نے اپنی پاکستانیت تو دکھانا ہے نا، حتیٰ کہ پاکستانی خواتین کو تو اپنا دامن گندے ماحول و گندی زبان سے بچانا چاہئے آخر ہم مہذب مذہب و معاشرے کی پروردہ ہیں۔ اچھی مائیں ہی اچھی نسل کی ضمانت ہیں ہمارے پاس تو وقت نہیں کہ ہم لمبی لمبی گپ شپ کریں، کسی بھی قسم کی لمبی دوستیاں نبھائیں ہم تو گھر بارو گھرداری کے بعد کا وقت مثبت سرگرمیوں اور تخلیقی کاموں میں بتاتے ہیں۔ معلوم نہیں کونسی خواتین ہیں اور کتنی فارغ ہیں کہ جلسے جلوس میں گھربار چھوڑ کر بھاگی آتی ہیں کوئی رفاہی کام کرلو، ملک سنوارنے کی اور دوسرے مسائل کے حل کیلئے ترکیب لڑائو سکیم بنائو تاکہ آپس میں لڑو۔ مگر ہم صاف بات کرتے ہیں اسی لئے بہت سے مکار و شاطر لوگوں کو کھٹکتے ہیں تو جب لندن کی گلیوں میں گالی گلوچ ہوتی ہے تو قدآور صحافی اپنی پاکستانی قوم کو تنبیہ کیوں نہیں کرتے کہ ملک کی بدنامی ہوگی وہ پرامن مظاہرہ کریں دشنام طرازی سے باز آئیں کیونکہ لکھنے اور بولنے والوں کا فرض ہے کہ وہ جہاں کہیں ایسی صورت حال دیکھیں وہاں جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں اخلاقیات اور ملک کی بدنامی کا ڈر اوا دیں مگر کہاں جی ہم سب تو ملک و قوم کے وقار سے غافل ہوکر مزے لیتے ہیں کیا کبھی دوسرے ایشیائی ممالک کے تماشے سیاسی و سماجی لگے ہیں لندن میں جو آئے روز ہمارے لگتے ہیں۔ ابھی چند روز پہلے ایک انڈین دوست سے بات چیت ہورہی تھی وہ بولی کہ میں خبریں سن رہی تھی جس میں بتایا گیا کہ پاکستان سے 20یا30سال بعد پانی بالکل ختم ہوجائے گا اور جس ملک میں پانی کی قلت ہوجائے وہ ملک تو ملک نہیں بنجر زمین بن جاتا ہے۔ ہم نے اسے کہاکہ لوگوں کے منہ میں خاک ایسا کبھی نہیں ہوسکتا، ویسے تو ہم نے اسے بہت کچھ کہہ دیا مگر اندر سے ہمارے دل کی حالت خدا جانتا ہے کہ ہم پر کیا گزری ہم تو صحرا و شہر میں رہنے والے ان پانی کے ترسے لوگوں کیلئے دل میں کڑھتے جلتے رہتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ ان کے مسائل حل کرنا، لوگ اپنے لئے اچھے اچھے خیال و خواب سجاتے ہیں مگر میرا ذہن غرباء کی بابت سوچ رہا ہوتا ہے کہ انہیں اچھی خوراک تو کیا مناسب کھانا بھی نصیب نہیں ،پینے کا پانی میسر نہیں، گرمی کی شدت میں وہ کیسے گزربسر کرتے ہوں گے اس لئے ہم سوچتے ہیں کہ ڈیم بنانے میں ہم یہاں رہ کر کیا کرسکتے ہیں، ملک ہے تو سب کچھ ہے اور نیک کام ہے ثواب ہوگا۔
تازہ ترین