• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کل کے نوجوانوں میں اقبال بہت پاپولر ہے۔ کچھ دن پہلے میری ملاقات ایک نوجوان سے ہوئی جو دیکھنے میں بالکل لڑکی لگتا تھا،قریب سے دیکھا تو وہ واقعی لڑکی تھی ۔کچھ دیر گفتگو کے بعد یہ عقد ہ کھلا کہ وہ اقبال کی عاشق ہے اور اس کی شاعری سے اس قدر انسپائر ہے کہ اقبال سے ملنا چاہتی ہے ۔میں نے بے حد ادب سے گذارش کی کہ میڈم اقبال صاحب تو ستّر برس قبل فوت ہو گئے تھے ،میں البتہ ابھی زندہ ہوں ،میرے لائق کوئی خدمت ہو تو فرمائیے ۔کہنے لگی بڑا افسوس ہوا ،اصل میں ان کی شاعری کی کچھ نئی جہتیں میں نے تلاش کی ہیں جن پر میں ان کے ویوز لینا چاہتی تھی ۔میں نے پوچھا مثلاکون سی؟ کہنے لگی کہ وہ شعر سنا ہے آپ نے،چیتے کے جگر والا؟ میں نے کہا جی سنا ہے ” چیتے کا جگر چاہئے،شاہیں کا تجسس…جی سکتے ہیں بے روشنئی دانش و فرہنگ۔“”Exactly…بھلا کیا مطلب ہے اس کا؟“
” پتہ نہیں “۔میں نے بے بسی سے کہا”آپ بتائیے۔“
کہنے لگی ”اس کا مطلب ہے کہ ہم دانش سکولوں کے بغیر بھی علم حاصل کر سکتے ہیں ۔“اس سے پہلے کہ میں اس نئی تشریح پر اپنا سر پیٹ لیتا،اس خاتون نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا” وہ شعر بھی سنا ہو گا آپ نے …ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی …گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن !“”ہاں جی …اب اس کا کیا مطلب ہے؟“میں نے جل کر پوچھا
”very simple…اس کا مطلب ہے کہ لوڈشیڈنگ سب جگہ ایک جتنی ہونی چاہئے ،بھلے وہ غریب کا گھر ہو یا پرائم منسٹر ہاؤس ۔“ان محترمہ کے علمی وجدان سے متاثر ہو کر میں نے اقبال کا ایک اور شعر سنایا اور کہا کہ ذرا لگے ہاتھوں اس کی بھی تشریح کر ڈالئے ۔شعر تھا :”باطل دوئی پسند ہے ،حق لا شریک ہے…شرکت ِمیانہ ء حق و باطل نہ کر قبول“۔شعر سنتے ہی وہ محترمہ پھڑک اٹھیں اور بولیں ”کمال ہے ،اس شعر میں تو علامہ نے ڈائرکٹ عمران خان کو مخاطب کیا ہے ۔“میں نے حیرانی سے پوچھا ”اچھا،بھلا وہ کیسے ؟“”وہ ایسے کہ اقبال ،عمران خان کو مشورہ دے رہے ہیں کہ اگر تم حق پر ہو تو اکیلے ہی کافی ہو ،پرویزمشرف کے وزیروں کو ساتھ ملانے کی کوئی ضرورت نہیں۔“ اس یادگار ملاقات کے اختتام پر میں نے خاتون کو مشورہ دیا کہ وہ اقبال کا ایک نیا فیس بک اکاؤنٹ بنائے اور وہاں اقبال کی شاعری کی یہ نئی جہتیں متعارف کروائے، خدا نے چاہا تو آج کل کی نوجوان نسل سے ڈھیروں ”likes“مل جائیں گے ۔
ہمارے دور کے ایک دانشور نے اقبال کی شاعری پر بڑا خوبصورت تبصرہ کرتے ہوئے ایک دفعہ کہا کہ ”اقبال کی شاعری ایک ڈیپارٹمنٹل سٹور کی طرح ہے جہاں سے ہر قسم کے خریدار کو اپنی پسند کی شے مل جاتی ہے ۔“اس تبصرے میں کتنی صداقت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اقبال کا کلام چون این لائی کی آمد کے موقع پر بھی پڑھاجاتا ہے اور مرد مومن مرد حق کی image buildingکے کام بھی لایا جاتا ہے ، ملّا کا خطبہ بھی اقبال کے شعر کے بغیر مکمل نہیں ہوتا اور سیاسی لیڈران بھی اپنی تقریر میں حسب ذائقہ اقبال کے اشعار کا تڑکا لگاتے رہتے ہیں چاہے وہ شیخ رشید ہی کیوں نہ ہوں ۔مارشل لا لگانے والے بھی اقبال کے ٹھیکیدار ہیں اور نام نہاد جہادیوں نے بھی اقبال کا جھنڈا اٹھایا ہوا ہے ۔مذہبی سوچ رکھنے والے بھی اقبال کو ”اوون“ کرتے ہیں اور عقلیت پسند بھی اقبال کے مرید ہیں ۔اگر سوشلزم کی بات کرنی ہو تو ”اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جلا دو “ والی غزل پڑھ دیں اور اس کے بعد ہر اس خوشہ گندم کو جلا دیں جہاں سے دہقاں کو روزی ملنے میں پرابلم پیش آتی ہو۔اسی طرح اگر آپ کو او آئی سی کے اجلاس کی میزبانی کا شرف حاصل ہو گیا ہے تو وہاں بھی اقبال آپ کے کام آئے گا ،یعنی ”ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے،نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر“۔اور اگر خدا نخواستہ ملک میں مارشل لا لگانا مقصود ہو تو ”جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں …بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے “ والا شعر ”میرے عزیز ہم وطنو“ والی تقریر میں شامل کر دیں ،بات بن جائے گی۔اور اگر ملک میں جمہوری دور واپس آ جائے توبھی نو پرابلم ”سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ،جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو “ والی پالیسی کو اپنا لیں ۔اقبال کی شاعری کا ایک بے حد عمدہ اور تخلیقی پہلو خدا کے آگے انسان کا مقدمہ پیش کرنا ہے اور اس ضمن میں اقبال جو challangingانداز اپناتا ہے اس کی مثال ڈھونڈنا تقریباً نا ممکن ہے ۔نہ صوفیان کرام اس حد تک گئے اور نہ ہی فلسفیوں نے اتنی ہمت کی ۔یہ اقبال ہی کا انداز ہے کہ ”فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا…یا اپنا گریباں چاک یا دامن یزداں چاک“۔اسی طرح جب اقبال یہ کہتا ہے کہ ”تو عادل و قادر ہے مگر تیرے جہاں میں… ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات“تو انسان کویقین ہو جاتا ہے کہ اقبال سے بہترین وکیل اسے نہیں مل سکتا ۔آج اس ملک میں سالانہ تین سے پانچ لاکھ فرزندان توحید حج پر جاتے ہیں ،مسجدوں میں کروڑوں روپے کے چندے دیتے ہیں ،داتا صاحب پر دیگیں چڑھاتے ہیں، رائے ونڈ میں جا کرنیک بننے کا حلف اٹھاتے ہیں اور جمعہ کے ہر خطبے میں ملک کی سلامتی کی دعائیں مانگتے ہیں مگر اس کے باوجودہمارے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ کیوں؟ اسلئے کہ بقول اقبال ”تیرا امام بے حضور ،تیری نماز بے سرور…ایسی نماز سے گذر ،ایسے امام سے گذر“۔
اقبال کی شاعری پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ اس میں تشدد کا فلسفہ ہے ،وہ ممولے کو شہباز سے لڑانے کی بات کرتا ہے اور لہو گرم رکھنے کے بہانے تلاش کرتا ہے۔ اس قسم کا اعتراض کرنے والوں کو ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ اقبال نے ایک غلام معاشرے میں رہتے ہوئے ایک محکوم قوم کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی۔انسانی تاریخ میں شائد ہی ایسی کوئی مثال ہو جہاں کسی شاعر نے محض اپنے کلام کی بدولت ایک غلام قوم کو علیحدہ ملک لینے کے قابل بنا ڈالا ہو۔اقبال کے ناقدین یہاں بھول جاتے ہیں کہ طاقت اور قوت کے صرف جنگی ہی نہیں ہوتے بلکہ اخلاقی پہلو بھی ہوتے ہیں،ذہانت سے بڑی کوئی طاقت نہیں ہوتی اور فی زمانہ ذہانت کو ٹیکنالوجی میں تبدیل کرنا ہی اصل قوت ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے چند نام نہاد تھنک ٹینکوں نے ٹینکوں کو اصل طاقت سمجھ لیا اور پھر strategic depth نامی ایک تھیوری بنا کر پوری قوم کو ایک جنگی جنون میں مبتلا کر دیا۔یہ تھیوری ایجاد کرنیوالے وہی چند جرنیل ہیں جنہوں نے سیاست دانوں کو پیسے دینے کا اعتراف کیا اور یہ ”اقبالی بیان“ دیتے ہوئے انکے ماتھے پر شرم سے پسینہ بھی نہیں آیا ۔یہ لوگ آج بھی سوٹ بوٹ پہن کر گردن اکڑا کر ٹی وی پر انٹرویو دیتے ہیں جیسے میکاولی ان سے ٹیوشن پڑھتا تھا۔ اپنے ادارے کی بدنامی کا باعث بننے والے کوئی اور نہیں یہی جرنیل ہیں جنہیں ریٹائرمنٹ کے بعد بھی چین نہیں آتا!
نوٹ:ایوان اقبال میں منعقدہ ”یوم اقبال“ کی تقریب کے موقع پر پڑھا گیا۔
تازہ ترین