• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین کرام! غور فرمائیں گزرے منگل (10جولائی) تا جمعہ (13جولائی) کے صرف تین دنوں میں پاکستان، افغانستان، ایران، چین اور روس کے گہرے مفادات کے حوالے سے تین اہم ترین خبریں پاکستان میں بنیں۔ پاکستان کے لئے ان کی اہمیت باقی چاروں ممالک سے زیادہ اور بہت حساس نوعیت کی ہے۔ ان خبروں نے روس تا پاکستان، چین تا ایران اور افغانستان تا بھارت کے وسیع تر خطوں کے لئے تین ہی روز میں غیر معمولی صورتحال پیدا کردی ہے، جس کا خاموش سفارتی فالو اپ چلے گا۔
بڑی قومی ضرورت ہے کہ ہمارے تجزیہ نگار اور رائے ساز پاکستانی مفادات کے حوالے سے اس کا تجزیہ گہرائی سے کریں کہ قوم پاکستان کے گرد اور اس حوالے سے متاثر ہوتی داخلی صورتحال سے آگاہ رہے اور اسے قومی سوچ پر مبنی رائے عامہ بنانے میں مدد ملے۔
خبریں ملاحظہ ہوں:گزرے منگل (10جولائی) کی شام دہشت گردی کے پہ در پے حملوں سے تیزی سے محفوظ ہوتے پشاور میں اے این پی کی ایک انتخابی کارنر میٹنگ پر حملہ ہوا جس میں پہلے ہی دہشت گردانہ حملوں سے متاثربلور خاندان کی سیاسی شخصیت اور صوبائی اسمبلی کے امیدوار جناب ہارون بلور سمیت پارٹی کے 19 کارکن اور شرکاء شہید ہوئے۔ یہ ایک خود کش حملہ تھا، اے این پی خیبرپختونخوا کی ایک قدیم نظریاتی جماعت اور بلور پشاور کی بڑی محترم اور سیاسی ساکھ رکھنے والی فیملی ہے جس کے بزرگ بشیر احمد بلور(ہارون بلور شہید کے والد) اپنے پر دہشت گردی کے چوتھے حملے میں 2012 میں شہید ہوئے۔ پورے ملک میں اس کا غالب زاویہ نگاہ یہ بنا کہ حملے کا مقصد جاری انتخابی مہم کو سبوتاژ کرکے انتخابات کو روکنا ہے، جس میں غیر روایتی نتائج آنے کا اندازہ اور عوامی رائے ملک گیر ہے۔ دہشت گردوں کا شہید ہارون بلور کے ایک چھوٹے انتخابی جلسے میں بڑی دہشت گردی کرنا بہت معنی خیز اور اے این پی جیسی نظریاتی سیاسی پارٹی کے علاوہ پشاور اور صوبے کے شہریوں کو مشتعل کرکے بری طرح ڈسٹرب کرنامعلوم دیتا ہے کہبشیر احمد بلور شہید اپنی بے حد روادار شخصیت کے حوالے سے ملک بھر میں محترم تھے اور ان کے بیٹے اور اتنی تعداد میں کارکنوں کو دوران انتخابی مہم منظر سے ہٹانے سے مطلوب اشتعال و انتشار یقیناً بہت ممکن تھا، لیکن ماننا پڑے گا کہ ایسی صورتحال میں اے این پی کا سیاسی وقار اور جمہوری جذبہ عود کر آتا ہے، جو ہر جمہوریت پسند کو متاثر کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ شہدائے پشاور کے درجات بلند فرمائےاور لواحقین کو صبر جمیل سے نوازے۔
پاکستان میں کامیابی سے جاری و ساری انتخابی و سیاسی عمل پر حملے کو جس کمال انداز اور تحمل سے اے این پی نے ناکام بنایا ہے اس پر پارٹی کے قائدین اور کارکن خراج کے مستحق ہیں۔ تاہم دشمن رکا نہیں گزری کل جمعہ (13جولائی) صرف تین روز بعد، جب پورا پاکستانی میڈیا،سزا یافتہ سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی سزا یافتہ بیٹی کے لندن تا لاہور تا راولپنڈی سفراسیری کی اہم ترین کوریج میں سرگرم تھا، بنوں میں مجلس عمل اور مستونگ میں بلوچستان پارٹی کی انتخابی ریلیوں پر دہشت گردی کے جو بڑے حملے ہوئے، جس میں کٹر پاکستانی نظریے کے حامل بلوچی سیاست دان سراج رئیسانی سمیت 128 افراد اور بنوں میں سابق وزیر اعلیٰ اکرم درانی کی ریلی پر حملے میں 5کارکنوں کی شہادت ہوئی ہے، پاکستان میں انتخابی مہم کے دوران ہمارے قومی الیکشن کو سبوتاژ کرنے کی گھنٹی ہی نہیںبجائی بلکہ یہ مکمل برہنگی سے پاکستان پر حملہ ہوا۔ آخر کیوں؟ انتخابی عمل کو انتخاب سے پہلے روکنے کے لئے، صرف انتخابی ہی نہیں حقیقی جمہوریت کے لازمے احتسابی عمل کو بھی، جس کا دائرہ، توازن اور اعتبار بڑھتا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان کے شفاف اور جمہوری ہونے کے امکانات اتنے ہی واضح ہو رہے ہیں، جتنا کرپٹ، گدلااور جمہوری ہو کر بھی یہ غیر جمہوری ہو چکا تھا۔ زیرنظر تجزیے میں دہشت گردی کے متذکرہ تینوں واقعات کو ’’پاکستان کی انتخابی مہم پر دہشت گردی کا حملہ‘‘ کے طور پر ایک خبر تصور کیا ہے۔
حالات حاضرہ کی دوسری اہم ملکی خبر میاں نواز شریف اور مریم صاحبہ کا لندن تا لاہور تا راولپنڈی سفر اسیری ہے جس نے اک بار پھرن یا شین لیگ کے جذبہ حریت کو بے نقاب کردیا ۔ نگران حکومت کنٹینروں سے راستوں پر رکاوٹیں ڈالنے کی روایتی حماقت نہ کرتی اور ایئر پورٹ سے دو دو کلومیٹر دور چاروں اطراف میں زیادہ سیکورٹی تعینات کردیتی تو بھی بڑا جلوس لوہاری تا ایئر پورٹ نہ پہنچ پاتا، تیزی سے جاتا تو جاتے جاتے بکھر جاتا۔ لاہور کا موسم ٹھنڈا تھا، صبح بارش ہوگئی تھی، بادل اورٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ اس کے باوجود سچی بات یہ ہے کہ لاہور کے عام شہری تو نہ نکلے جو تھے ورکرز تھے جو آج کل انتخابی مہم کی وجہ سے چارجڈ ہیں، جھنڈے بینرز بڑی تعداد میں موجود ، اس کے باوجود میاں صاحب نے جتنی محنت کی تھی بات بنی نہیں۔ ان کی اور صاحبزادی کی آمد جتنی سیاسی (بھی تھی) اس میں سیاسی طور پر کچھ اور مطلوب تھا۔ سب سے بڑھ کر شہباز شریف کی قیادت میں مرکزی ’’استقبالی‘‘ ریلی کے انداز نے شین یا ن لیگ کے آئندہ کے مزاحمتی اور احتجاجی پروگرامز کے امکانی گراف کو واضح کردیا ہے، جو اب ان کے لئے مایوس کن ہے۔
میاں صاحب اور مریم بی بی کی اسیری انسانی اور تاریخی اعتبار سے بڑا المیہ بھی ہے۔ پاپولر لیڈر کو جو حکمرانی کرتا ہے اور بار بار کرتا ہے، قانون کی عدالت سے جیل نہیں جانا چاہیے۔ یہ ان کی سیاست کا اختتام ہے لیکن اس کے ذمہ دار وہ ہر حال میں خودہیں۔ افسوس تو مریم کا ہے جنہیں میاں صاحب نے بے شمار سیاسی غلطیوں اور ان کے بے وقت اعتراف کی طرح ایک اور بڑی غلطی کی کہ انہیں بغیر تیاری اور غیر قانونی اثاثوں کے ریکارڈ کے ساتھ میدان سیاست میں اتار دیا اور پھر اتارتے ہی تصادم پر لگا دیا۔ (یا وہ خود لگ گئیں جو سیاسی ناپختگی کی انتہا تھی) ہونا تویہ چاہیے تھا کہ ان کے خاندانی تشخص کو کم تر کرکے صاحبزادی کا اپنا سیاسی و سماجی تشخص بناتے۔ انہوں نے یہ بڑی غلطی اس وقت کی جب حکومتوں پر خاندانی اجارہ داری تیزی سے عوام میں عدم قبولیت کا شکار ہو رہی ہے۔ خصوصاً نوجوان اور خواتین تو اس انداز حکمرانی کو قطعی قبول نہیں کر رہے۔ بہر حال اب بہترین راستہ آخری قانونی جدوجہد ہی ہے۔ جو انداز اور اپروچ ہمارے اسیر پانامہ سابق وزیر اعظم نے جیل جانے سے پہلے اختیار کی ہے، وہ ان کے دعوئوں کے مطابق نئی نسلوں کےلئے تو نہیں خود ان کی اپنی آنے والی نسل کے لئے مہلک ہوگی۔ شاید پاکستان کی موجود کشکول معیشت جس کے ذمے دار زرداری اور ڈار برینڈ میاں صاحب کی آخری حکومت ہے، کے علاوہ زرداری اور میاں صاحب کے بے پناہ دولت مند ہونے سے طویل اسیری سے بچت کی کوئی راہ نکل سکے۔
بذریعہ قانون عبرتناک انجام کو حریت فکر میں تبدیل کرنے کی سعی ریت میں مچھلی کی تلاش ہی ہوگی۔ کہ ریاست پاکستان کی رٹ میں جو غیر معمولی اضافہ ہوا اور ہو رہا ہے، زرداری اور میاں صاحب دونوں کے لئے ملین ڈالر ٹپ ہے کہ اس کو درباریوں کی مشاورت سے نہیں حقیقت پسندی سے سمجھیں۔
تیسری اہم ترین خبر اسلام آباد میں گزرے منگل (10جولائی) کو روس، چین، ایران اور پاکستان کے خفیہ اداروں کے سربراہوں کا وہ اجلاس ہے جس میں انہوں نے افغان تنازعے کو جلد نمٹانے کے لئے کوششیں بڑھانے او ر افغانستان میں داعش کی موجودگی کے بعد اس کی بڑھتی سکت کو فوکس کیا۔ کتنا اہم اور غیر معمولی اجلاس تھا یہ۔ اسے خطے میں نہیں روس تا پاکستان اور چین تا ایران مائنس بھارت کے تناظر میں دیکھیں تو کچھ سمجھ آئے گا کہ ہو کیا رہا ہے۔ اس اجلاس کو دو اور خبروں کے تناظرمیں دیکھنے اور اس کے تجزیے کی ضرورت ہے۔ ایک پاکستان کی موجودہ داخلی صورتحال دوسرے صدر ٹرمپ کی تھکے ماندے نیٹو اتحادیوں کو افغانستان میں مزید ساتھ چلانے اور ان کی سفارتی مزاحمت کی خبر۔ پاکستان کے سفارت کاروں کو اس خبر کو حالات حاضرہ کی متذکرہ دونوں خبروں کے تناظر میں دیکھنا ہوگا تاکہ وہ الیکشن کے بعد نئی منتخب حکومت کے سامنے مطلوب پالیسی اور فیصلوں کو اعتماد سے پیش کرسکیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین