• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بت پرستی سے محض اس لیے منع کیا گیا تھا کہ انسان اُن کے ساتھ اپنی اندھی عقیدت کی وجہ سے ایسے تصّورات تخلیق کر لیتا ہے۔ جو نہ صرف غیر حقیقت پسندانہ ہوتے ہیں بلکہ اُن میں مثبت تنقید یا اختلاف ِ رائے کی بھی گنجائش نہیں ہوتی ۔ جو انسانی فکرو عمل کے ارتقاء کو روک دیتی ہے۔ جب یہی طرزِ عمل شخصیات کے حوالے سے روا رکھا جاتا ہے تو وہ شخصیت پرستی کی شکل میں سامنے آتا ہے جو بت پرستی کی ہی ایک شکل ہے۔ اپنے اسلاف اور بزرگوں کی تعظیم کے ساتھ ساتھ زندہ قوموں کا یہ بھی شیوہ ہے کہ وہ شخصیت پرستی کا شکار ہوئے بغیر اپنے مشاہیر اور لیڈروں کے اقوال و افعال پر مثبت تنقیدی نگاہ بھی رکھیں کہ خامیوں اور غلطیوں سے مبّرا صرف خدائے واحد کی ذات ہے یا اس کے بھیجے ہوئے انبیاء کرام باقی تمام انسان مرکب الحظا و نسان یعنی بھول چوک کے مجسمے ہیں۔لہذا کسی اچھے انسان کی کسی بات سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے جبکہ کسی بُرے انسان کی کسی اچھائی کو سراہا بھی جا سکتا ہے ۔ جناب ایاز امیر کے کالم کے حوالے سے کچھ دوستوں کا ردّ ِ عمل منطقی سے زیادہ جذباتی لگتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں شاعرِ مشرق علامہ اقبال سمیت اکثر مشاہیر کے بارے میں بے لچک اور انتہا پسندانہ نظریات پائے جاتے ہیں۔ جہاں تک علامہ اقبال کا تعلّق ہے تو وہ بلا شبہ ایک عظیم شاعر تھے۔ لیکن وہ خود کوتنقید یا اختلافِ رائے سے بالا نہیں سمجھتے تھے۔ وہ فرماتے ہیں
بُرا سمجھوں انہیں مجھ سے تو ایسا ہو نہیں سکتا
کہ میں خود بھی ہوں اقبال اپنے نکتہ چینوں میں
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ علامہ اقبال ایک شاعر اور فلسفی تھے ۔ ان کے فلسفے سے جہاں اتفاق کے ہزار پہلو ہیں وہاں اختلاف کی گنجائش بھی نکل سکتی ہے ہر شاعر اور فلسفی کی سوچ کے ارتقائی مراحل ہوتے ہیں ۔ جو اسکی تحریروں میں واضح طور پر نظر آتے ہیں ۔ جہاں وہ اپنی ہی کہی ہوئی باتوں کی تردید بھی کرتا ہے نیز وقت بھی اس کے بہت سے نظریات کو سچ ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ پر ’ ’سوالیہ نشان ‘‘ بھی لگا دیتا ہے ۔ جیسے علامہ اقبال اپنی پہلی کتاب ’’ بانگ درا‘‘ میں ’’ وطن پرستی‘‘ اور ’’ وطنیت ‘‘ کے علمبردار کے طور پر سامنے آتے ہوئے فرماتے ہیں۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی، یہ گلستاں ہمارا
مذہب نہیں سکھاتاآپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم ، وطن ہے ہندوستاں ہمارا
اسی طرح اپنی نظم ’’ ہندوستانی بچوں کا گیت ‘‘ میں وہ بار بار وطن پرست ہونے پر فخر کا اظہار کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ اپنی نظموں ’’ نیا شوالہ‘‘ اور ’’سوامی رام تیرتھ‘‘ میں بین المذاہب ہم آہنگی کی بات کرتے ہیں ۔ لیکن اپنی کچھ سالوں کی شاعری کے بعد اسی کتاب میں ’’ ترانہ ملی‘‘ اور ’’ وطنیت ‘‘ جیسی نظموں میں ’’ وطن ‘‘ کو تازہ خداقرار دیتے ہوئے وطنیت کی شدیدمخالفت کرتے ہیں
ان تازہ خدائوں میں بڑاسب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
وہ سکھ مذہب کے بانی بابا گورونانک اور ہندومت کے اوتار رام کی بھی تعریف کرتے ہیں
ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز
اہلِ نظر سمجھتے ہیں اس کو امامِ ہند
لیکن ایک جگہ فرماتے ہیں
وضع میں تم ہو نصاریٰ، تو تمدّن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
اسی طرح وہ بادشاہت اور ملوکیت کے خلاف جمہوریت کی حمایت کرتے ہوئے کہتے ہیں
سلطانی ء جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
پھر وہ جمہوریت کے بارے میں بھی اپنی ناگواری کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں
جمہوریت اِک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتےاسی طرح کئی ایسے اور موضوعات ہیں جن کے بارے میں وقت کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال کے خیالات تبدیل ہوتے رہے ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک مفکر یا شاعر کا کہا ہوا کلام ’’ الہامی کلام ‘‘ نہیں ہوتا کہ اسے بلا چوںو چرا تسلیم کرلیا جائے۔جیسا کہ ایک وقت میں جب علامہ اقبال نے شکوہ ، کارل مارکس ، لینن اور مذہبی استحصالی طبقوں کے بارے میں نظمیں لکھیں اور انہیں دو رکعت کے امام کہا تو ان پر سخت تنقید کی گئی اور بقول علامہ اقبال انہیں کسی نئے ’’ دین اسلام ‘‘ کا مبلغ قرار دے دیا گیا۔ لیکن جب انہوں نے ’’ جواب شکوہ‘‘ ، ’’ جدا ہوا دین سیاست سے‘‘ ، ’’خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی ‘‘ اور مذہبی بنیادوں پر دو قومی نظریے پر مبنی شاعری کی۔ تو انہیں دائرہ اسلام سے خارج کرنے والوں نے وہ مقام دے دیا جس میں اختلاف کی گنجائش جرم بلکہ ’’ کفر‘‘ میں شمار ہونے لگی
حضرت علی ؑ کا مشہور قول ہے کہ یہ مت دیکھو کہ بات کس کے منہ سے نکلی ہے بلکہ یہ دیکھو کہ وہ بات کیا ہے؟ اگر کچھ لوگوں کو حضرت علامہ اقبال کی وہ شاعری پسند ہے جس میں انہوں نے قوم کا محور مذہب کو قرار دیا ہے ۔ تو یہ اُن کا حق ہے کیونکہ وہ علامہ کی اس شاعری کا ذکر نہیں کرتے جو انہوں نے مذہبی استحصال کرنے والے گروہوں کے خلاف یا مذہب میں اجتہاد کے حق میں لکھی تھی۔ اسی طرح اُن لوگوں کو بھی اُن کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا جو علامہ اقبال کی اس شاعری کے مداح ہیں جس پر انہیںشدید تنقید کا نشانہ بنا یا گیا تھا۔ یا وہ اُس شاعری کے نکتہ چیں ہیں جس میں علامہ نے مذہب کی بنیاد پر قومیت کا تصّور دیا۔ جسکی انسانی تاریخ تائید نہیں کرتی کیونکہ اگر ملکوں کا وجود مذہب کی بنیاد پر ہوتا تو دنیا میں ایک ہی مذہب کو ماننے والے کئی الگ الگ ممالک نہ ہوتے اور نہ وہ کبھی آپس میں جنگ و جدل کرتے۔ مذہب اور سیاست کا ملاپ صدیوں تک انسانی تاریخ کا ایک المیہ رہا ہے ۔ جس نے مختلف مذاہب اور ایک ہی مذہب کے مختلف فرقوں کے درمیان خوفناک کشیدگی کو جنم دیا تھا۔ انقلابِ فرانس اور برطانیہ کے صنعتی انقلاب کے بعد عیسائی دنیا تو اس نظریاتی بحران سے نکل کر دنیا کی سپر پاور بن گئی اور انہوں نے تمام مذاہب کی بنیادی تعلیمات یعنی ’’ آفاقی سچائیوں‘‘ کو مذہب یا فرقے کا نام لیے بغیر نافذ کردیا لیکن ہم ابھی تک اسی ’’نظریاتی بحران‘‘ کا شکار ہیں۔ آج ہر کوئی انتہا پسندی کے خلاف ہے لیکن ایسی سوچیں صرف انتہا پسندی کو ہی جنم دیتی ہیں جب علامہ اقبال جیسے شاعر وں اور فلسفیوں کے نظریات پر اختلافِ رائے کو جرم بنا دیا جائے ۔ اس سے نہ تو ہم اپنے فلسفیوں کے قدو قامت میں کوئی اضافہ کرسکتے ہیں اور نہ ہی تاریخ سے کوئی سبق سیکھ سکتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین