• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الیکشن کمیشن کی طرف سے آئندہ عام انتخابات کے لئے ضابطہٴ اخلاق کی منظوری کے بعد سیاسی جماعتوں کو بھی بھجوایا گیا ہے۔ اس ضابطہٴ اخلاق کے مطابق انتخابات کے دوران اسلحہ کی نمائش پر پابندی ہوگی، امیدوار ذاتیات ، پاک فوج اور عدلیہ کے خلاف بات نہیں کر سکیں گے، جلسے، جلوسوں کے لئے مخصوص مقامات اور پیشگی اجازت لازمی ہو گی۔ انتخابی شیڈول جاری ہونے کے بعد ترقیاتی اسکیموں کا اعلان نہیں کیا جا سکے گا۔ 48گھنٹے پہلے انتخابی مہم بند کرنا ہوگی، کوئی بھی سیاسی جماعت یا امیدوار کسی سرکاری ملازم سے مدد حاصل نہیں کرے گا، وال چاکنگ پر پابندی ہوگی، امیدوار کسی جنس، فرقے یا کمیونٹی کے خلاف بات نہیں کرے گا ، سرکاری وسائل پر کسی سیاسی جماعت کو انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ نگران حکومت سمیت صدر، وزیراعظم ،اسپیکر، چیئرمین سینٹ ، وزراء ، مشیر ، وزرائے اعلیٰ اور دیگر حکومتی عہدیدار انتخابی مہم میں شریک نہیں ہوں گے ۔ ووٹروں کو لانے لے جانے کیلئے امیدوار ٹرانسپورٹ استعمال نہیں کریں گے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق اس ضابطہٴ اخلاق کی پابندی نہ کرنے والے امیدوار کو نااہل قرار دے دیا جائے گا۔
ضابطہٴ اخلاق کو جاری کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انتخابات کو شفاف بنایا جائے۔ اس میں شک نہیں کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر سے سیاسی جماعتوں اور عام لوگوں کو بھی یہ امید ہے کہ ان کی نگرانی میں انتخابات غیر جانبدارانہ اور شفاف ہوں گے۔ اس کے لئے سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق ووٹر فہرستوں کی درستی اور جعلی ووٹوں کا اخراج اہم ہے، اب ووٹر فہرستوں پر ہر ووٹر کا شناختی کارڈ نمبر اور تصویر بھی ہوگی۔ انتخابی مہم اور اخراجات کے حوالے سے بھی بعض قواعد و ضوابط مرتب کئے گئے ہیں۔ پہلے قومی اسمبلی کا امیدوار50لاکھ اور صوبائی اسمبلی کا امیدوار30 لاکھ تک اخراجات کر سکتا تھا،یہ اخراجات اب 15 لاکھ اور دس لاکھ تک محدود کر دیئے گئے ہیں۔گو اس سے عام آدمی تو پھر بھی الیکشن میں حصہ نہیں لے سکے گا مگر یہ ایک اچھا قدم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ضابطہٴ اخلاق کم و بیش وہی ہے جو پہلے انتخابات کے موقعوں پر جاری ہوتا رہا۔ اس کے بارے میں اصل سوال یہی ہے کہ کیا اس پر عمل درآمد ہو سکے گا۔ اس بات کا کہ الیکشن مہم48گھنٹے پہلے ختم ہو جانی ہے، اس ضابطہٴ اخلاق پر عمل درآمد کس طرح کرایا جائے گا۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ووٹ ڈالنے کے لئے ووٹرز کو ٹرانسپورٹ نہ تو امیدوار فراہم کرے گا اور نہ ہی الیکشن کمیشن دے گا۔ ہمارے ہاں گھروں سے نکل کر خود ووٹ ڈالنے والے تو بہت کم ووٹر ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں انہیں نکالتی ہیں اور ٹرانسپورٹ فراہم کرتی ہیں۔ اسی طرح ترقیاتی کاموں اور سرکاری وسائل کا استعمال بہت اہم ہے گو ضمنی الیکشن میں الیکشن کمیشن نے سینئر وزیر پرویز الٰہی کو نارووال کے حلقے میں جانے سے روک دیا ہے لیکن یہ عام انتخابات میں کیسے ممکن ہوگا۔ اب تو حکومت کو معلوم ہے کہ انتخابات قریب ہیں لہٰذا اس نے پہلے ہی ترقیاتی فنڈز مخصوص حلقوں کے لئے رکھ دیئے ہیں اور ان کا استعمال الیکشن کے قریب ترین وقت پر ہوگا۔ ایک رپورٹ کے مطابق وزیراعظم نے تو اپنے صوابدیدی فنڈ جو سالانہ 32/ارب روپے ہیں وہ پہلے تین مہینوں میں نکلوا کر ختم کر دیئے ہیں۔ اس کے علاوہ مزید دس ارب روپے اپنی پسند کے حلقوں میں خرچ کرنے کے لئے نکلوا لئے گئے ہیں۔ یہ تو عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ وزیراعظم کا ایسا کرنا الیکشن سے پہلے دھاندلی ہے۔ دوسری طرف چار روز پہلے سینٹ کی خصوصی کمیٹی برائے انتخابی امور کے اراکین کا اجلاس کنوینئر سینیٹر جہانگیر بدر کی زیر صدارت ہوا۔ جس میں الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ قواعد وضوابط کو آئندہ انتخابات میں ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ اسے زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ازسر نو تشکیل دیا جائے یہ بھی کہا گیا کہ الیکشن کمیشن بااختیار ہونے کے باوجود اختیارات کو استعمال نہیں کر رہا۔ کمیٹی میں یہ چیز بھی زیر بحث آئی کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ ووٹر لسٹوں میں لوگوں کے مستقل ایڈریس درج کئے گئے ہیں جس کی وجہ سے 30فیصد ووٹر متاثر سکتے ہیں۔ گو کمیٹی نے یہ ایک اچھی تجویز دی ہے کہ بنکوں سے قرضے لیکر الیکشن لڑنے والوں پر پابندی لگانی چاہئے مگر ساتھ ہی یہ کہا گیا ہے کہ اخراجات کی مد میں قومی اسمبلی کے امیدوار کی حد 15لاکھ سے بڑھا کر 50لاکھ کی جائے اور صوبائی اسمبلی کے امیدوار کے لئے10لاکھ سے بڑھا کر 30لاکھ کی جائے۔ہاں یہ تجویز اچھی ہے کہ اسٹیٹ بنک سے الیکشن سے قبل تمام امیدواروں کا ریکارڈ حاصل کیا جائے اگر وہ نادہندہ ہیں تو الیکشن کے لئے نااہل قرار دیا جائے۔ جیسا کہ راقم نے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ شفاف انتخابات کے لئے آرٹیکل 62اور 63پر عمل درآمد کو یقینی بنانا چاہئے لیکن کمیٹی میں یہ کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے ان آرٹیکلز میں درج اختیارات استعمال نہ کرنے پر تحفظات ہیں کیونکہ ملک میں کسی بھی ادارے میں ایسا فرد موجود نہیں جو ان آرٹیکلز پر پورا اترتا ہو۔ تو اس کامطلب یہ ہوا کہ 9کروڑ ووٹروں میں سے کوئی بھی امیدوار بننے کی اہلیت نہیں رکھتا اگر واقعی ایسا ہے تو پھر ہمیں انتخابات کا دروازہ ہی بند کر دینا چاہئے اور پہلے اپنے آپ کو ان کا اہل بنانا چاہئے۔ کمیٹی کے ایک ممبر کی طرف سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ کراچی خصوصاً سندھ میں مردم شماری اور خانہ شماری میں بے ضابطگیاں ہوئی ہیں، انہیں درست کیا جائے ۔
کمیٹی نے یہ جو ریمارکس دیئے ہیں کہ الیکشن کمیشن بااختیار ہونے کے باوجود اپنے اختیارات استعمال نہیں کر رہا تو ایسے حالات میں شفاف الیکشن کے انعقاد کے لئے الیکشن کمیشن کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔ اس کے پاس نہ صرف اپنی افرادی قوت ہونی چاہئے بلکہ فوج اور عدلیہ سے بھی مدد لینی چاہئے تاکہ ضابطہٴ اخلاق پر عمل د رآمد کو یقینی بنایاجاسکے اور ضابطہٴ اخلاق کو حتمی شکل دینے سے پہلے تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت بھی شامل کرنی چاہئے۔ضابطہٴ اخلاق پر عمل ہوگا تو الیکشن شفاف ہوں گے،نہیں تو الیکشن کمیشن زبانی کلامی ہی بااختیار رہے گا!
تازہ ترین