• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مستونگ: شہدا ٔکی اکثریت خانہ بدوش، مقامی لوگوں کا دفنانے کی اجازت دینے سے انکار

مستونگ: شہدا ٔکی اکثریت خانہ بدوش، مقامی لوگوں کا دفنانے کی اجازت دینے سے انکار

مستونگ ( رپورٹ نامہ نگار)سانحہ درینگڑھ میں شہید ہونے والوں کی اکثریت کا تعلق پرکانی قوم سے ہے۔جن کا ذریعہ معاش مال داری ہے اور یہ بلوچستان کی غریب ترین قوم ہے۔ گزشتہ روز شہید ہونے والے بیشتر افراد خانہ بدوش تھے اور مستونگ کے پہاڑی علاقہ آماچ کے دامن میں پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے۔ میاں غنڈی کے قبرستان میں مقامی لوگوں نے ان کے شہدا کو اپنے قبرستان میں دفنانے کی اجازت نہ دی اور مجبوراً ان کے لواحقین اپنے پیاروں کو دفنانے کیلئے کسی دوسرے قبرستان لے گئے۔ اس دلخراش واقعہ میں ایک بوڑھی ماں کے 7 لخت جگر شہید ہوئے اور ایک خاندان سے 20 افراد جو آپس میں رشتہ دار تھے شہید ہوئے جبکہ ایک اور خاندان سے 15 افراد کی شہادت ہوئی وہ بھی آپس میں رشتہ دار بتائے جاتے ہیں ۔ یہ لوگ دشت کے علاقے میں میاں غنڈی کے آس پاس علاقے میں رہتے تھے۔ ضعیف والد ین کے چار بیٹے بھی لقمہ اجل بنے ۔ ان میں ایک بیٹا سائیکل پر سکریپ کا کام کرتا تھا،دوسرا مٹی کی دیوار بنانے میں مزدور تھا۔تیسرا ٹرکوں سے سامان اتارتا اور چوتھا کم عمر تھا تاہم دو تین بھیڑ بکریوں کو چراتا تھا ۔غریبی کا یہ عالم تھا کہ سب مل کر بھی دو وقت کے کھانے کے لیےمشکل سے بندوبست کر پاتے تھے ۔ ایسے کئی گھرانے ہیں جہاں سے چار چار لاشیں اٹھی ہیں۔اور ایسے بھی گھرانے ہیں جہاں فاتحہ لینے کے لیے کوئی بچا ہی نہیں ۔ان گھروں کے چراغ تو گل ہو ہی گئے اب رہی سہی کسر ان کے خاندا نوں پر چھانے والی غربت اور معاشی بدحالی پوری کرے گی۔ کیونکہ اکثر خاندانوں میں کوئی کمانے والا ہی نہیں بچا ۔ مستونگ کے عوامی و سماجی حلقوں نے مطالبہ کیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ان خاندانوں کی بقا کیلئے معاوضے کا اعلان کرنا چاہئیے تاکہ ان کے غم کا کچھ تو مداوا ہو سکے۔اور ایسے خاندان جن میں کمانے والا کوئی بچا ہی نہیں کو کم از کم دو وقت کی روٹی عزت سے نصیب ہو۔ان کے بچوں کے لیے روزگار کا بندبست کیا جائے۔ ان شہدا کے خاندانوں کا پیٹ تعزیت ،افسوس یا سوگ سے نہیں بھرے گا۔

تازہ ترین