• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خصوصی مراسلہ…محمد ابراہیم عباسی
ہمEOBI کے 4لاکھ سے زائد ریٹائرڈ، بیمار، مجبور، معزور پنشنرز ان کی بیوائیں، جن کی عمر65 سے85 سال تک ہیں، آپ کے ادارے اور اخبار کے انتہائی مشکور ہیں کہ آپ اکثر و بیشتر ہم مظلوم اور مجبور پنشنرز کے لئے آواز بلند کرتے رہتے ہیں، سپریم کورٹ میں کیس کی شنوائی کی خبر اور اس پر فاضل جج صاحب کے ریمارکس دیکھ کربہت خوشی ہوئی ۔ہم سالہا سال سے ظلم کی اس چکی میں پس رہے ہیں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی، سب سے پہلے میں یہ واضح کردو کہ بہت سے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ EOBI کی پنشن صرف پرائیویٹ اداروں کے ریٹائر ڈملازمین کو ملتی ہے، ایسا ہرگز نہیں ہے، اس میں آدھے سے زیادہ سرکاری اداروں کارپوریشنوں مثلاً اسٹیٹ سیمنٹ کارپوریشن، گھی کارپوریشن، شکر ملز جو پرائیویٹائز ہوگئیں، رائس ملز کے ملازمین شامل ہیں، پیپلز پارٹی کی حکومت جو مزدور، مزدور کرتے تھکتی نہیں تھی، پنشن بڑھانا توکجا ہم مجبور لوگوں کے فنڈز کےاربوں روپے ہڑپ کرلئے، سابق چیئرمین اور بہت سے افسران جیل بھگت رہے ہیں۔ کسرمسلم لیگ ن کی حکومت نے بھی نہیں چھوڑی،2013 کے بجٹ میں تمام پنشنرز کی پنشن 5000 اور2014کے بجٹ میں 6000 کم از کم کردی گئی، اس وقت ہماری پنشن 3600 ماہانہ تھی، وہ تمام پنشنرز کو مل گئی مگر ہم محروم ہے، بہت رونے چلانےکے بعد وزیر خزانہ صاحب نے اچانک اعلان کیا EOBI کی پنشنرز کو اپریل2016سے پنشن 5200 روپے ماہانہ ملے گی، اسے کہتے ہیں ’’مرے کو مارو شاہ مدار‘‘ خود اپنے کردہ اعلان سے مکر گئی جو وہ2013 اور2014 میں کرچکی ہے، اس ظالمانہ اقدام سے ہم مجبوروں، معذوروں، بیماروں کے تقریباً 60ہزار فی کس واجبات دبائے گئے ہیں۔ سپریم کورٹ میں کیس کی ایک پیشی کے دوران چیف جسٹس صاحب نے کہا تھا کہ ہم جائزہ لیں گے کہ ایک پنشنر 5200ماہانہ میں گزارہ کرسکتا ہے، مجھے یہ ریمارکس پڑھ کرحیرت ہوئی تھی ۔پھر یہ خبر پڑھی کہ EOBI والے پنشن10000 مہینہ کرنے کو تیار ہیں، مگر آجروں کے حصہ میں کٹوتی میں اضافہ کے خلاف لاہور ہائی کورٹ نے Stay دیا ہوا ہے۔ پتہ نہیں یہ Stay ہماری زندگی میں ہوگا یا گزرنے کے بعد بہت سے تو اسی آسرے میں گزر گئے، کیونکہ نہ EOBI کے افسران یا کسی اور کو اس Stay کوختم کرانے میں کوئی دلچسپی ہے نہ ہم میں اتنی استطاعت کہ ہم کیس لڑیں، گزشتہ پیشی میں ایک فاضل جج صاحب نے ریمارکس دیئے کہ 5200روپیہ ماہانہ پنشن ایک مذاق ہے، بھائی یہ ایک مذاق نہیں ایک بھیانک اور تلخ حقیقت ہے جو ہم مجبور لوگوں پرسالوں سے گزر رہی ہے۔ کوئی اندازہ لگائے کہ جن لوگوں نےاپنی عمر کے 30سے40 سال سرکاری اور غیر سرکاری اداروں اور کارخانوں کی بھینٹ چڑھا دیئے وہ آج کس بے بسی اور کسمپرسی کے حال میں گزارہ کررہے ہیں، اور ستم یہ کہ بعض پنشنر بیمار، معذور ہیں جبکہ ان کے بوڑھی بیمار زندگی کی ہمسفر بھی ساتھ ہے۔ نگراں وزیراعظم، وزیر خزانہ کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس پاکستان سے گزارش ہے کہ فوری طور پر ہماری پنشن جولائی 2013 سے 5000 اور 2014 سے 6000 روپیہ ماہانہ کرانے اور اس کے بقایا جات ادا کرنے اور کم از کم پنشن 10000ہزارکرنے کا حکم صادر فرمائیں، ہماری داد رسی کریں، میں پیشہ وار مزدور لیڈروں سے بھی گزارش کرتا ہوں کہ ہم بھی کسی وقت آپ کے ممبر رہ چکےہیں ہمارے لئے بھی کبھی زبان ہلائیں۔ نہ تو میں کوئی دانشور ہوں نہ ہی کوئی لکھاری میں تو ایک مزدور ہوں آج کل معذور اور بیمار، مجبور ہوں، میں اپنے دل کے پھپھولے پھوڑنے کے لئے بہت کچھ لکھ گیا ہوں، مہربانی کرکے گزارشات پر عمل کرادیں مہربانی ہوگی، ورنہ یارو جیسی کیسی گزرہی ہے اور گزر جائے گی، جو تھوڑی بہت رہ گئی ہے۔
تازہ ترین