• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صحافت، سیاست اور جمہوریت یہاںہم ایک ایسے بدترین دور سے گزر رہے ہیںکہ جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ صحافت کاجو حال ہے وہ مارشل لا دورسے بھی بدتر ہے۔ سیاست پر سیاستدانوں کا کنٹرول نہیں رہاجبکہ جمہوریت محض ایک دکھاوا بن کر رہ گئی ہے۔ صحافت ہو، سیاست یا جمہوریت تینوں پر کنٹرول کسی اور کا ہے اور المیہ یہ ہے کہ کوئی نام لے نہ لے سب جانتے ہیں کہ کون کیا کھیل کھیل رہا ہے۔ کھیل کھیلنے والے سب کچھ کھل کر کر رہے ہیں۔ شاید سمجھتے ہوں کہ وہ مضبوط ہو رہے ہیں لیکن کوئی اُن کو سمجھائے کہ وہ سب سے زیادہ اپنے ہی آپ کو کمزور کر رہے ہیں۔ حقیقتاً اس کھیل میں سب کمزور ہو رہے ہیں اور اصل نقصان پاکستان کا ہو رہا ہے۔پاکستان بچارے کے بارے میں سوچنے کی تو کسی کے پاس فرصت ہی نہیں۔ نگراں حکمرانوں میں شامل بڑے بڑے نام بونےنکلے، الیکشن کمیشن کو قانون نے جتنا مضبوط بنایا وہ اتنا ہی کمزور نکلا، نیب نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ صرف اور صرف استعمال ہونےکےلیےبنایا گیا ہے ، عدلیہ اور عدالتی فیصلوں پر قانون دان خود حیران و پریشان ہیں کہ کیسے کیسے فیصلہ لکھے اور سنائے جا رہے ہیں۔ نام کے آزادانہ اور شفاف انتخابات ہو رہے ہیں لیکن دھاندلی اتنی کھل کے کی جا رہی ہے کہ کسی کو شک ہے نہ شبہ۔ ہاں کھلے عام دھونس دھاندلی اگر کسی کو نظر نہیں آتی تو وہ الیکشن کمیشن کو، نگراں حکمرانوں کو اور عدلیہ کو۔ الیکشن اس قدر ’’شفاف‘‘ ہیں کہ میڈیا تک کو بتا دیا گیا ہے کس کے جلسے کو دکھاناہے اور کس کے جلسوں کا بلیک آئوٹ کرناہے۔ یعنی سب پر واضع ہے کہ کسے گرانا اور کسے اُٹھاناہے۔ انتخابات سے پہلے اتنا کچھ ہوچکا کہ اب یہ بھی یقین نہیں کہ25 جولائی کو کیا ہو گا۔ حالات ایسے بنا دیئےگئے ہیں کہ اگر الیکشن کے دن ووٹوں کی دھاندلی نہ بھی کی جائے تو ایک معلق پارلیمنٹ وجود میں آئے گی یعنی انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت مخلوط اور کمزور ہو گی۔ پاکستان کو استحکام کی ضرورت ہے جس کےلیے مستحکم حکومت ضروری ہے۔ انتخابات کے نتیجے میں قومیں سیاسی استحکام کے حصول کی امید کرتی ہیں لیکن انہوں نے انتخابات کا سارا میلہ اس طرح سجایا کہ الیکشن کے نتیجے میں سیاسی عدم استحکام ہی اس ملک کوملے۔ اگر جاری کوششوںکے مطابق تحریک انصاف کو حکومت مل بھی گئی تو تمام عرصہ پی ٹی آئی حکومت کو یہ ہی ثابت کرنا پڑتا رہے گا کہ اُس کا مینڈیٹ اصلی ہے۔ جو تحریک انصاف کو اوپر لا رہے ہیں اُن کی مرضی کے مطابق حکومت نہ چلی تو پھرتو بالکل ہی گزارہ ممکن نہیں اور یہی تاریخ کا سبق ہے جو ہم بار بار دہرانے اور اُس سے سبق نہ سیکھنے کے سفرپر گامزن ہیں۔ اگرن لیگ حکومت بناتی ہے تو پھر تو ویسے ہی اُسے عدم استحکام کا شدید خطرہ رہے گا۔ مسلم لیگ ن اور عدلیہ و فوج کے درمیان ایک سرد جنگ جاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ن لیگ انتخابات جیت جاتی ہے تو کیا ن لیگ اور اداروں کا آپس میں دل صاف ہو جائے گا؟ میری ذاتی رائے میں ایسا ممکن نہیں۔ گویا انتخابات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کوئی اطمنان بخش نظر نہیں آتی۔ دل صاف کرنے ہیں تو الیکشن سے پہلے اب بھی موقع ہے کہ پاکستان کی خاطر آئین و قانون کے مطابق آزادانہ انتخابات ہونے دیں۔ کھیل کھیلنے والے پیچھے ہٹ جائیں، الیکشن کمیشن اور نگراں حکمراں تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی عمل میں حصہ لینے کا مساوی موقع دیں۔ جو لوگ نواز شریف اور مریم نواز کو لندن سے پاکستان نہ آنے کی صورت میں جیل نہ جانے اور قانونی و عدالتی مشکلات میں آسانی کی نوید سنا رہے تھے وہ تمام معاملات کو آئین و قانون کے مطابق حل کرنےکےلیے آزاد چھوڑدیں چاہیے کسی کو سزا ملے یا اُسے چھوڑدیاجائے۔ کیوں کہ ایسا نہ ہو کہ ایک دوسرے کو کمزور کرنےکے اس کھیل میں خدانخواستہ پاکستان کا ہی ہم کوئی نقصان کر بیٹھیں۔ لیکن جیسا کہ میں اوپر کالم میں لکھ چکا سب سیاسی لوگ اور ادارے سمجھ لیں کہ ایک دوسرے کو کمزور کرنےکے اس کھیل میں کمزور سب ہو رہے ہیں۔ اس نقطہ پر سب غور کریں ہو سکتا ہے کسی نہ کسی کو میری بات سمجھ آ جائے۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین