• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ روز کیا کیا المیے تھے کہ بپا نہیں ہوئے۔ ابھی اپنے پیارے دوست بشیر بلور کے بیٹے ہارون بلور کی دہشت گردوں کے ہاتھوں شہادت کا ماتم جاری تھا کہ جمعہ کے روز دہشت گردوں کے پے در پے حملوں میں پہلے بنوں میں ایک اور دوست اکرم درّانی کے جلسے میں درجنوں لوگ شہید کر دیئے گئے اور پھر مستونگ میں سینکڑوں لوگ زخمی اور شہید ہو گئے۔ اب پورے شمال مغربی و جنوبی پاکستان میں پھر سے دہشت کا عفریت پلٹ آیا ہے اور انتخابی مہم اپنے عروج پر پہنچنے سے پہلے ہی سہم سی گئی ہے۔ لگتا ہے کہ دہشت سے جو وقتی فرصت ملی تھی، اُس کا وقفہ ختم ہوا۔ گزشتہ روز ہی دو باپ بیٹی ایک دوسرے کو بچاتے ہوئے دریائے ستلج کی تند و تیز لہروں کی نذر ہو گئے۔ اور اِسی روز دونوں باپ بیٹی ووٹ کو عزت دوکے نعرے لگاتے ہوئے جیل چلے گئے۔اِسی روز وادئ کشمیر کے شہر سری نگر میں ہر طرف آنسو گیس، لاٹھی چارج اور بربریت کا بازار گرم تھا اور حریت رہنماؤں کی پکڑ دھکڑ ہو رہی تھی۔ اور اِسی روز شہر لاہور میں اپنے ہی معصوم شہریوں کے خلاف پنجاب کی انتظامیہ نے ظلم کی حد کر دی۔ پورا شہر بند کر دیا گیا تھا۔ سینکڑوں مسلم لیگی گھروں اور سڑکوں سے گرفتار کر لیے گئے۔ تین بار منتخب وزیر اعظم اور اُن کی بیٹی مریم نواز کو لاہور ایئرپورٹ سے باہر نہ نکلنے دیا گیا اور نہایت سرعت سے اڈیالہ جیل میں پابندِ سلاسل کر دیا گیا۔ چاروں طرف ہونے والے واقعات کا منظر ایک ہی طرح کا تھا۔ شاید مقصد ایک ہی تھا کہ حقِ اظہار اور حقِ رائے دہی کا گلاگھونٹا جا سکے۔ جو انتظامیہ پختون خوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے سامنے بے بس نظر آئی، اُس کی قہر انگیزی نہتے اور پُرامن شہریوں کے خلاف دیدنی تھی۔ ایسے میں لوگ ووٹ دیں تو کسے؟ کیا سری نگر کے لوگ ظالم و غاصب بھارتی فوج کو یا پھر اپنے حقِ خودمختاری پہ ڈٹے رہیں؟ کیا پنجاب، پختون خوا اور بلوچستان کے شہری اُنہیں ووٹ دیں جو اُن پر حملہ آور ہیں یا پھر اُن دہشت گرد، انتہاپسند اور آمرانہ قوتوں اور اُن کے حواریوں کو ووٹ دیں جو نہ صرف زندگی گزارنے کے حق کو چھیننا چاہتے ہیں ۔ تو سوال ہے کہ پاکستان کو ووٹ تو دو، لیکن کس کے اور کون سے پاکستان کو ووٹ دو!!
انتخابات میں دو ہفتے سے بھی کم وقت بچا ہے۔ اور ملکی منظر خوفناک اور منافقانہ ہو چلا ہے۔ جمہوری پاکستان کو یا پھر جمہوریت سے دور لے جانے والوں کو احتساب والے کہتے ہیں کہ احتساب اور سزاؤں کا سیاست و انتخابات سے کوئی تعلق نہیں۔ مگر کیا کیجیے کہ دل کو اس بات پر اعتبار نہیں۔ عدالتِ عظمیٰ کے حکم پر نواز شریف کے کیس میں ایک ڈیڈ لائن دی گئی اور تینوں مقدمات کو علیحدہ علیحدہ سننے کا عدالتِ عالیہ کا حکم بھی ہمیں یاد ہے۔ لہٰذا فیصلہ آیا بھی تو انتخابی مہم کے عین بیچ۔ قانون کا دل ہو نہ ہو اور سیاست سے غرض ہو نہ ہو۔ اس فیصلے کا 2018ء کے انتخابات پر فیصلہ کُن اثر مرتب ہوا ہے اور مزید گہرا ہونے جا رہا ہے۔ نواز شریف مخالف قوتوں کی تو دلی تمنا تھی کہ نواز شریف واپس نہ آئیں اور اُن کا شیر عوام کی نظر میں بکری ہو جائے۔ پیغامات دیئے گئے اور دلاسے بھی۔ باپ بیٹی ایک نہایت مشکل جذباتی الجھن کا شکار تھے۔ جاں بلب کلثوم نواز کی تیمارداری کریں یا پھر سزا و جزا کا سامنا کرنے کیلئے واپس لوٹ آئیں۔ مخالفین تھے کہ بھاگ گئے، بھاگ گئے کے نعروں کی گونج میں میدان خالی ہوتا دیکھ کر ہر طرف چھاتے نظر آئے۔ اُدھر برادر خورد ترقی کی نرگسی محبت میں مگن اور اُن کی خدمت پر آمادہ جن کے باعث دس سالہ جمہوری عبور پسپائی کی جانب گامزن۔ اب نواز شریف اور مریم نواز کے پاس صرف ایک ہی چارہ بچا کہ تیمارداری کی آڑ میں سیاسی پناہ لیں یا پھر عوام سے اپنے جمہوری عہد کی پاسداری کریں۔ جونہی باپ بیٹی نے واپسی کا فیصلہ کیا مسلم لیگیوں کے پژمردہ چہروں پہ رونق واپس آ گئی۔ اور اگر گزشتہ روز انتظامیہ واقعی عبوری و غیرجانبدار ہوتی تو لاہور جانے کتنی بڑی تاریخ رقم کر دیتا۔ ایسا تو نہ ہوا، مگر جو منظر بنا وہ کسی جنگی میدان سے کم نہ تھا۔ جو مقصد نواز شریف کا لاہور اُترنے سے تھا، وہ زیادہ ہی پورا ہو گیا۔ اگر شہباز لیگ ایئرپورٹ تک نہ جا سکی تو نواز لیگ نے گلیوں کوچوں میں طوفان بپا کیے رکھا۔ میرے عزیز دوست پروفیسر حسن عسکری رضوی تو سیاست کی اس جدلیات سے خوب واقف ہیں۔
یہ بھی کیسا انتخابی عمل ہے کہ انجام پر پہنچنے سے پہلے ہی متنازع ہو گیا۔ پختونخوا اور بلوچستان میں قوم پرست پارلیمانی جماعتیں دہشت اور مداخلت کے باعث میدان سے تقریباً باہر ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ رہا پنجاب تو یہاں میدان ایک جماعت کے حق میں خالی کرانے کی کوششوں کا اینٹی کلائمکس ہوتا نظر آ رہا ہے۔ جو کچھ کہ گزشتہ روز پنجاب میں ہوا اور آئندہ چند روز نواز شریف اور مریم نواز کے کیسوں میں ہونے جا رہا ہے، اس کی قانونی قدر پر تو کب کے سوال اٹھ چکے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ سیاست و انتخابات پہ اس کا کیا کرشماتی اثر ہوتا ہے۔ تاریخی روایت تو یہی ہے کہ عوام گرتے کو تھامتے ہیں اور مظلوم کا ساتھ دیتے ہیں۔ اس کشمکش میں شامل تمام قوتیں اپنے عزائم کے ساتھ لوگوں کے سامنے آ چکیں اور ایک بڑی پارٹی کے اور دیگر بغل بچہ گروپوں کے سوا، سبھی انتخابی عمل کی جانبداری پر شکایت کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن تو یہ کہتی ہی تھی، اب پیپلز پارٹی، اے این پی، نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام بھی نام لے لے کر شکایت کنندگان میں شامل ہو چکی ہیں۔ اب سب سے بڑی پارٹی کے سب سے بڑے لیڈر جیل سے اپنی پارٹی کو انتخاب لڑوائیں گے اور لوگوں کو یہ بھی نظر آ رہا ہے کہ کس کس کے ہاتھ باندھے جا رہے ہیں اور کس کس کو سر پہ بٹھایا جا رہا ہے۔ 70 برس ہونے کو ہیں، لیکن ہماری انتظامیہ ابھی بھی عوام کے حقِ رائے دہی کے آزادانہ استعمال سے خائف نظر آتی ہے۔ اور اگر حقِ رائے دہی کا استعمال منصفانہ و آزادانہ ہو جائے تو عوام کو اقتدارِ اعلیٰ پہ حقِ حکمرانی بھی حاصل ہو جائے گا۔ بدقسمتی سے ہماری نیم جمہوری جماعتیں کبھی بھی مستقل مزاجی سے عوام کی حکمرانی کیلئے کھڑی نہیں ہوئیں اور یہ سیاسی جماعتوں کی باہم جوتم پیزار میں حقِ حکمرانی نوآبادیاتی نظام کے خاتمے پر بھی عوام کو منتقل نہ ہوا۔ ایک بار پھر ہم سیاسی جماعتوں کے گناہوں کا خمیازہ بھگتنے کیلئے 25 جولائی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ 13 جولائی کے واقعات 25جولائی کے انتخابات پر کیسے اثرانداز ہوتے ہیں؟
پیوستہ رہ شجر سے، اُمیدِ بہار ر
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین