• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بس ایک ہی موضوع؟
میڈیا نے بہت اچھا امیج بنا لیا ہے، زبان خلق اس کی شہادت دے رہی ہے اب ضروری ہے کہ وہ اپنی غیر جانبدارانہ آگاہی مشن کو اس طرح نبھاتا چلاجاتا رہے، تاکہ اگر کوئی اس راہ پرنہیں چل رہا تو بھی صراط مستقیم پر آ جائے، میڈیا اس راہ چلتا رہا تو غیر جانبدارانہ منصفانہ شفاف انتخابات کا امکان مزید بڑھے گا، اختلافی باتوں کو اچھالنے کے بجائے تمام اسٹیک ہولڈرز کی مثبت باتوں کو پھیلانا چاہئے، اس سے ووٹر ایک مثبت اور مفید رائے قائم کر سکے گا، امیدواران کو بھی اپنی میٹنگز اور جلسوں میں اپنے منشور کے اردگرد رہنا چاہئے، کسی ایک ہی بیانئے کو بار بار دہرانے سے ان کی وقعت کم ہو گی اور وہ اپنی شناخت بھی رائے دہندہ کے سامنے نہیں رکھ سکیں گے، لکھنے والوں کو بھی شاعری کی حد تک اشاراتی، کنایاتی اور رمزیہ عبارت آرائی سے پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ ہمارا قاری سادہ دل اور سادہ فہم ہے، وہ مبہم باتوں سے ڈر کر آگے گزر جاتا ہے، سادہ تحریریں ہی جاذب و پرکار ہوتی ہیں، پہیلیاں بجھوانے سے اثر کم ہو جاتا ہے، ان دنوں کچھ ہندی الفاظ کا استعمال بھی تحریر و تقریر میں در آیا ہے صاف ستھری خالص اردو دستیاب ہے تو کسی دوسری زبان کا سہارا لینا اپنی زبان کو رسوا کرنے کے مترادف ہے، بریکنگ نیوز کی تو اب آبرو ہی نہیں رہی اس لئے کاروباری اشتہار بھی بریکنگ نیوز ہو گئے، مصنوعات میں تنوع ندرت اور جامعیت کا فقدان نظر آتا ہے، خود ساختہ کہانیوں سے بھی پرہیز لازم ہے کہ اس طرح بات مہمل ہو جاتی ہے، پوری قوم محسوس کر رہی ہے کہ میڈیا نے بیداری پیدا کی ہے، اب اسے فیصلہ کرنے میں آسانی ہو گی، تکرار سے بات بے وزن ہو جاتی ہے، ایک بات جب ماضی میں چلی جائے تو اسے حال بنا کر بیان نہ کیا جائے بہرصورت میڈیا کو اپنا امیج برقرار رکھنا ہو گا۔
٭٭٭٭
خواب اقتدار
بلاول بھٹو:مخلوط حکومت تشکیل پائی تو زرداری وزیراعظم کے امیدوار ہوں گے،
خورشید شاہ:نواز شریف کو ہمیشہ کہا آپ کی آستین میں سانپ ہیں۔
آصف زرداری:بلاول کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والے ناکام ہوں گے۔
منظور وسان:اس ملک کے نہایت خواب دیدہ سیاستدان ہیں، اب یہ صلاحیت زرداری اور بلاول میں بھی پیدا ہو گئی ہے، جوں جوں گراف نیچے آ رہا ہے توں توں پیپلز پارٹی کی قیادت خواب دیکھنے میں مست ہوتی جا رہی ہے، بلاول نےوقتی طور پر سیاسی سرگرمیاں معطل کر دیں۔ عمران خان کو تو عین الیقین ہو چکا ہے کہ وہ وزیراعظم بننے نہیں جا رہے بلکہ وزیراعظم بن چکے ہیں، شہباز شریف دل ہی دل میں وزیراعظم ہیں، بظاہر خادم عوام ہیں، یہ اور بات کہ انہیں اپنے بڑے بھائی سے بیحد و بے حساب عقیدت ہے، اب تک تو ایک ہی بات سمجھ میں آئی ہے کہ لیڈرز کی ساری ’’آنیاں جانیاں‘‘ فقط حصول اقتدار کے لئے ہیں، ووٹوں کی بھیک مانگنا تو قدر مشترک مگر ہر موسمی بھکاری کے مانگنے کا انداز جدا جدا، بلاول نے اپنے سیاسی ماتحت والد کو وزیراعظم کا امیدوار ڈیکلیئر کر کے یہ ثبوت فراہم کر دیا ہے کہ وہ سیاست اور اقتدار میں کتنی دلچسپی رکھتے ہیں، خورشید شاہ صاحب آستین کے سانپوں کے سپیرے ہیں، یہ اور بات کہ وہ خود پیپلز پارٹی کی آستین میں رہتے ہیں، انہوں نے نواز شریف کو بلاشبہ بہت مشورے دیئے مگر وہ خوش ہیں کہ میاں صاحب نے ان کے کسی مشورے کو نہ مان کر شاہ صاحب کے خدشات کو یقینی بنا دیا، بلاول کے راستے میں ایسی رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں جو نظر نہیں آتیں مگر زرداری چونکہ دل کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اس لئے انہیں نظر آ رہا ہے کہ ان کا بچہ ٹھوکریں کھا رہا ہے، ہماری دعا ہے کہ اس ملک کا ایک ہی وزیراعظم ہو تاکہ پاکستان متحد رہے۔
٭٭٭٭
مفرور مریض
خبر ہے کہ اسحاق ڈار کی گرفتاری کے لئے ریڈ وارنٹ جاری کر دیئے گئے ہیں، اور ان کی جائیداد کی ضبطی بھی شروع ہو چکی ہے، حالانکہ وہ دردِ دل کا علاج ڈھونڈنے لندن کی سڑکوں پر تیز تیز چل رہے ہیں تاکہ تاخیر نہ ہو جائے حیرانی ہے کہ حکومت پاکستان کو ان کی بیماری کا یقین ہی نہیں آ رہا، کافی عرصہ پہلے صدر ممنون حسین کے منہ سے تقریر کے دوران ایک بات نکل گئی تھی کہ جلد اللہ کی پکڑ آنے والی ہے، سب نے سنا مگر دوسرے کان سے نکال دیا حالانکہ وہ ہاتف غیبی کی آواز تھی، انتخابات قطعی طور پر ہو کر رہیں مگر احتسابات ہوتے رہیں گے کیونکہ کیسز کی تعداد شاید ووٹرز سے زیادہ ہے، اسحاق ڈار کی واپسی ہو گی یا نہیں لیکن اب شاید کوئی اور اسحاق ڈار یہاں پیدا نہ ہو سکے، اس لئے انہیں محفوظ کر لیا جائے کہ ایسے دیدہ ور مریض دل کبھی کبھی پیدا ہوتے ہیں وہ پکے نمازی ہیں پیشانی پر داغ سجدہ کے علاوہ کوئی داغ نہیں؎
بس اک داغ سجدہ مری کائنات
جبینیں تری آستانے ترے
کیا دن تھے جب میڈیا تھا مگر اس کا پیرہن کاغذی تھا، اب کاغذی بھی ہے اور تصویری بھی، اور وہ کچھ اس طرح سے تصاویر پیش کر رہا ہے کہ سارے قیس ان میں عریاں نظر آنے لگے ہیں، اگر یوں نہ ہوتا تو ہمیں کیسے پتہ چلتا کہ ہم کھا کھا کر چور ہو گئے مگر غربت ہے کہ کم ہونے میں نہیں آتی، ہم سب غریب تر اور وہ چند امیر تر ہوتے جاتے ہیں، بہرحال ڈار صاحب کو بلائیں ڈار صاحب کہاں ہیں۔
٭٭٭٭
انتخابات و احتسابات
....Oحسین نواز:میرے والد کو رات کو سونے کے لئے بستر نہیں دیا گیا، جبکہ آپ کے والد نے آپ کو بستر دیا۔
....Oفواد چوہدری:جس انقلاب کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا تھا وہ اڈیالہ پہنچ گیا۔
جس تبدیلی کا آپ ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں وہ کب پہنچ رہی ہے؟
63....Oارب کی کرپشن، نیب نے پی ایس او کے 5سینئر افسروں کو گرفتار کر لیا۔
اس ملک کے غریبوں کےپاس اتنی دولت کہاں سے آئی کہ لٹیرے لوٹتے لوٹتے تھک گئے، ان غریبوں سے بھی پوچھ گچھ ہونی چاہئے، بلکہ سارا قصور انہی کا ہے کیوں رات دن محنت کر کے اتنی دولت کمائی؟
....Oسابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی: اڈیالہ جیل میں قیدیوں والے سارے کام کئے، صرف جیل کی دیوار نہیں توڑی۔
....O جن حالات و واقعات سے ہم سب گزر رہے ہیں ان سے عبرت پکڑنی چاہئے اور اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر انہیں سی لینا چاہئے۔
غلطیاں ہم سب سے ہوئی ہیں، سزا بھی سب بھگتیں گے، البتہ توبہ کے دروازے کھلے ہیں، اللہ کی رحمت سے مایوسی کفر ہے مشکل لمحات سے بڑھ کر کوئی مصلح نہیں۔

تازہ ترین