• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رات کسی کی آمد پر اڈیالہ جیل کی دیواریں گنگنا اٹھی تھیں
خوش آمدید وہ آیا ہماری چوکھٹ پر
بہار جس کے قدم کا طواف کرتی تھی
جیل میں جشن کا سماں ہے ۔ کمرے سجا دئیے گئے ہیں۔ ضروریاتِ زندگی کا تمام سامان پہنچا دیا گیا ۔ فریج کھانے پینے کی چیزوں سے بھرے پڑے ہیں ۔ٹیلی وژن کے ساتھ ڈش جوڑ دی گئی ہے ۔اخبارات ایک طرف بڑے سلیقے سے رکھ دئیے گئے ہیں ۔بیڈ پر نئی اور قیمتی چادریں بچھا دی گئی ہیں ۔بازار سےنئے تکیے منگوائےگئے ہیں ۔اٹیچ باتھ رومز میں تمام ضروری سامان پہنچا دیا گیا ہے ۔چھ مشقتی کام کاج کےلئے حاضر کھڑے ہیں جن میں دو خواتین بھی ہیں ۔ابھی تک تو کھانا باہرسے آیا ہے مگر لاہور سے ایک بہت اعلیٰ کلاس کا باورچی کسی وقت بھی اڈیالہ جیل پہنچ سکتا ہے ۔جیل سپرنٹنڈنٹ بالکل اُسی طرح تین قیدیوں کے آگے پیچھے بھاگ رہا ہے جیسے کسی مرید کے گھر میں کوئی پیر آ گیا ہو مگر ایون فیلڈ کی آسائشیںکہاں اور اڈیالہ جیل کہاں
بیچارے شہباز شریف کل رات نو بجے تک لاہور شہر کی سڑکوں پر یہی کہتے رہے
رقصِ مے تیز کرو ،ساز کی لے تیز کرو
سوئے میخانہ ، سفیران ِ حرم آتے ہیں
مگر افسوس کہ اس کے باوجودان کی ریلی مال روڈ پرچیئرنگ کراس سے آگے نہ جا سکی ۔ایسا کیوں ہوا۔کیا واقعی شہباز شریف نےسنجیدگی سے عوام کو جمع کرنے کی کوشش نہیں کی یا نون لیگ کے کارکن اُن پر یونہی الزام لگا رہے ہیں ۔بیس پچیس ہزار لوگ تو گھروں سے نکلےمگر لوگ کہتے ہیں کہ لاہور جہاں ایم این اے کی چودہ نشستیں ہیں اگر ایک نشست سے نون لیگ کاایک امیدوار دس ہزار ووٹرز کو بھی باہر نکال لاتا تو ایک لاکھ چالیس ہزار لوگ صرف لاہور سے ریلی میں شریک ہوتے ۔پورے پنجاب سے تو دس پندرہ لاکھ لوگ جمع ہو سکتے تھے ۔نواز شریف کی کابینہ میں جتنے وزیر تھے اگر ہر سابق وزیر ہی آ ٹھ دس ہزار لوگ اپنے حلقے سے لے آتا تو چار پانچ لاکھ جمع ہو گئے ہوتے لیکن کابینہ کے اسی فیصد وزیروں نے خود ریلی میں شرکت نہیں کی۔پنجاب کے بلدیاتی اداروں میں نون لیگ کے پاس پچانوے فیصد اقتدار ہے ۔اگر ہر یوسی چیئرمین صرف دوسو افراد بھی ساتھ لاتا تو لاہور جام ہو گیا ہوتا ۔ایک سوال اور بھی ہے ۔سابق وفاقی وزیر مشاہد اللہ نے ریلی کا حصہ بننے کی بجائے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایئرپورٹ پر جانے کا پروگرام کیوں بنایا۔ کیا انہیں معلوم تھا کہ شہباز شریف کی ریلی ایئر پورٹ تک نہیں پہنچے گی ۔یہ بھی ایک سوال ہے کہ مشاہد اللہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایئر پورٹ تک پہنچ گئے مگرشہباز شریف اپنی ریلی سمیت کیوں نہیں پہنچ سکے۔کیا واقعی نون لیگ کی لیڈر شپ نے نواز شریف کے ساتھ دغا کیا ہے یا لوگ گھروں سے باہر نکلنے کےلئے تیار ہی نہیں تھے ۔حتی کہ خواجہ آصف ،سعد رفیق،دانیال عزیز اور احسن اقبال بھی ریلی میں شریک نہیں ہوئے۔کسی اور کی کیا بات کریں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی دکھائی نہیں دئیے ۔
میں کل میانوالی میں تھا میں نے پتہ کرایا کہ یہاں سے نون لیگ کے ایم این ایز کی نشستوں پرجو امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں کیا وہ لاہور چلے گئے ہیں یا میانوالی ہی میں ہیں تو پتہ چلاکہ نون لیگ کا یہاں سے ایم این اے کا کوئی امیدوار تو کجا ایم پی اے کا کوئی امیدوار بھی لاہور نہیں گیا ۔سب میانوالی میں موجود ہیں ۔مجھے اُسی وقت اندازہ ہو گیا تھا کہ نواز شریف کے ساتھ پھر وہی واردات ہو گئی ہے جو گیارہ برس پہلے پرویز مشرف کے دور میں ہوئی تھی ۔وہ یہ سوچ کر اسلام آباد پہنچے تھے کہ میرے جہاز کے اترتے ہی پاکستان میں انقلاب آجائے گا ۔ لوگ تمام بیرئرز توڑ تاڑ کر مجھے لے جائیں گےمگر جب جہاز اترا تو دور دور تک کوئی نہیں تھااور نیب والےنواز شریف سے کہہ رہے تھے
اپنے بےخواب کواڑوں کو مقفل کردو
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا
اس ساری صورتحال پر نواز شریف کے دکھ پر احمد فراز کا ایک شعر یاد آرہا ہے
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز
ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مرجائے گا
حیرت ہے کہ رانا ثنا اللہ کے اس بیان کے بعد بھی لوگ استقبال کےلئے نہیں نکلے کہ نوازشریف کا استقبال حج کرنے سے بڑا کام ہے ۔کچھ علمائے کرام رانا ثنا اللہ کے اِس فتوے پر بہت سیخ پا ہیں ۔رانا صاحب نے اپنے دفاع میں جو کچھ کہا ۔اُس پر نون لیگ کے سابق وزیر ِ رزاعت نعیم بھابھہ کے بھائی ندیم بھابھہ نے بڑا اچھا تبصرہ کیا ۔:’’رانا ثنا اللہ نے حضرت سلطان باھو کا مصرع(مرشد دا دیدار ہے باھو مینوں لکھ کروڑاں حجاں ھو)۔بطور دلیل پیش کیا جبکہ نہ اسے مرشد کا پتہ نہ دیدار کا اور نہ ہی حج کا۔ٹی وی پر غلط بات کرنے کے بعد موبائل کیمرے پر بھی غلط بات ۔
چلیں مان لیا کہ رانا ثنا اللہ نواز شریف کو مرشد سمجھتے ہیں تو پھریہ سوال پیدا ہوتا نواز شریف کے استقبال میں رانا ثنااللہ کی کار کردگی کیوں افسوسناک تھی وہ چاہتے تو ایک بڑی ریلی فیصل آباد سے لا سکتے تھے مگر انہوں نے فیصل آباد میں ہی ایک چھوٹی سے ریلی نکال لی ۔
ایک اور اہم ترین سوال جو عمران خان نے کیا ہے وہ بھی قابل ِ غور ہے ۔ انہوں نے کہا : ’’ہم یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جب بھی سابق وزیراعظم اور ن لیگ کے قائد مشکل کا شکار ہوتے ہیں تو پاکستان کی سرحد پر کشیدگی میں اضافہ کیوں ہوتا ہے اور ملک کے اندر دہشت گردی کے واقعات شروع کیوں ہوجاتے ہیں؟۔نواز شریف کی گرفتاری کے موقع پر دہشت گردی کے واقعات میں جتنی زیادہ شہادتیں ہوئی ہیں اُس پر پوری قوم افسردہ ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں بھارت نواز شریف کے حق میں ہے اور پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی سے بھارت کا تعلق بھارتی فوجی افسر اور راکے ایجنٹ گلبھوشن نےاپنے اقبالی بیان میں واضح کردیا تھا ۔یقیناً دہشت گردی کی اِس نئی لہر کے پیچھے بھارت ہی ہے ۔
نواز شریف نے بمبئی حملوں کا جب الزام پاکستان پر لگایا تھا تو کہا تھا ’’کیا ہمیں ان (نان اسٹیٹ ایکٹرز )کو اجازت دینی چاہئے کہ وہ بارڈر کراس کریں اور ممبئی میں 150 لوگوں کو ہلاک کردیں‘‘۔یعنی اگر کوئی ہندوستان جا کر دہشت گردی کرتا ہے تو پاکستانی حکومت کی اجازت سے کرتا ہے ۔خیر یہ توثابت ہو چکا ہے کہ بمبئی کے واقعہ میں انڈین ایجنسی را خود ملوث تھی مگرنواز شریف کا وہ بیان اور ان کی گرفتاری کے موقع پر ہونے والی دہشت گردی میں بھی کہیں نہ کہیں کوئی رابطہ ضرور موجود ہے ۔بہر حال یہ طے ہے کہ کل کا شو ن لیگ کی لیڈر شپ کےلئے انتہائی پریشان کن تھا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین