• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں شدید پانی کے بحران کیس میں سپریم کورٹ نے پانی کی قلت سے نمٹنے کیلئے دو ڈیمز دیامر بھاشا اور مہمند کی تعمیر کا حکم دیتے ہوئے نہ صرف چیئرمین واپڈا کی سربراہی میں ایک عملدرآمد کمیٹی قائم کی ہے بلکہ اسٹیٹ بینک کو ڈیمز فنڈزقائم کرتے ہوئے اکائونٹس کھولنے کا حکم دیا ہے ۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے نہ صرف خود دس لاکھ روپے عطیہ دینے کا اعلان کیا بلکہ سماعت کے دوران یہ کہا ہے کہ یہ فنڈ حکومت نے نہیں بلکہ سپریم کورٹ نے قائم کیا ہے اور اسکے ایک ایک پیسے کا حساب رکھا جائے گا ۔ کسی کو کرپشن نہیں کرنے دینگے ۔انہوں نے یہ بھی کہا یہ میری زندگی کا مقصد ہے، ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اس کام کو جاری رکھوں گا۔ سپر یم کورٹ کے حکم کے بعد اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ اسٹیٹ بینک نے ملک بھر میں 16ہزار بینکوں کی شاخوں میںڈیمز فنڈ اکائونٹس کھول دیئے ہیں،ہر ایک اے ٹی ایم ، آن لائن یا دیگر ذریعے سے ان میں عطیات جمع کراسکتا ہے ۔ چیف آف دی آرمی اسٹاف نے اپنی ایک مہینے کی تنخواہ جبکہ پاک فوج کے افسران نے دو دن اور سپاہیوں نے اس فنڈ میں ایک دن کی تنخواہیں دینے کا اعلان کیا ہے۔ اب تک ساڑھے سات کروڑ سے زائد اکٹھے ہوگئے ہیں، اسٹیٹ بینک کے ملازمین نے دو دن کی تنخواہ ، الائیڈ بینک ، یوبی ایل اور حبیب بینک کے ملازمین نے بھی ایک دن کی تنخواہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ بینک انتظامیہ نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ ملازمین کے فنڈز کے برابر بینک بھی اس فنڈز میں اپنا حصہ ڈالے گا۔ واپڈا کے ملازمین نے بھی دو دن کی تنخواہ اس فنڈ میں دینے کا کہا ہے۔ پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ نے اپنی جیب سے 5لاکھ روپے اور مشہور کرکٹر شاہد آفریدی نے 15لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ہے ۔ لوگوں کی سہولت کیلئےاسٹیٹ بینک نے یونیورسل نمبر273-727-111جاری کیا ہے۔ جبکہ سپریم کورٹ نے عطیات کیلئے ایس ایم ایس سروس بھی متعارف کرائی ہے۔
پاکستان میں آبی بحران کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ برس مردم شماری میں یہ بھی بتایا گیا کہ ہمیں فی کس ایک ہزار کیوبک میٹر پانی کا ذخیرہ دستیاب ہے جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ جب پانی کی دستیابی کی یہ شرح ہو تو وہاںپانی کی قلت شمار کی جانے لگتی ہے۔ کوئی پندر سال قبل فی کسی5ہزار 650 کیوبک میٹر پانی کا ذخیرہ موجود تھا ۔ پاکستان میں گزشتہ 39برس میں کوئی نیا ڈیم نہیں بنایا گیا۔ اور ریت جمع ہونے کی وجہ سے تربیلا ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنیکی 30لاکھ ایکڑ فٹ صلاحیت کم ہو چکی ہے جبکہ پاکستان کی 60فیصد آبادی کا روز گار براہ راست یا بالواسطہ طور پر آج بھی زراعت سے وابستہ ہے ۔ جس کا انحصار صرف پانی پر ہے ۔ مون سون سے پہلے ملک کے شمالی علاقوں میں بارشیں نہ ہونیکی وجہ سے تربیلا ڈیم اور منگلا ڈیم کے ذخیرہ کرنے کی گنجائش ایک ملین ایکڑ فٹ رہ گئی ہے جو ڈیڈ لیول ہے ۔ ارسا کے ترجمان کے مطابق تربیلا میں پانی کا ذخیرہ کرنےکی گنجائش 1386فٹ اور ذخیرہ صفر ہے ،جبکہ منگلا ڈیم میں 1122فٹ اور ذخیرہ 0.859 ایم اے ایف ہے۔ ماہرین کے مطابق ملک میں ڈیموں کی تعمیر نہ ہونے سے ہر سال 30ارب ڈالر مالیت کا 140کروڑ فٹ سے زیادہ میٹھا پانی سمندر میں گر کر ضائع ہو جاتا ہے ۔ ملک میں پانی ذخیرہ کرنیکی انتہائی محدود صلاحیت اور ناقص حکمت عملی کے باعث صرف 36فیصد پانی استعمال میں لایا جا سکتا ہے ۔ جبکہ اربوںروپے کا 64فیصد پانی ضائع ہو جاتا ہے ۔ دریائی پانی کی عدم دستیابی کیوجہ سے پاکستان صرف 22سے 25دن کا پانی کا ذخیرہ کرنیکی صلاحیت رکھتا ہے ۔ ایسی صورتحال میں پاکستان میں ڈیمز بنانے کی سخت ضرورت ہے۔ اب جبکہ الیکشن مہم زُوروں پر ہے اور سپریم کورٹ نے آبی بحران کا نوٹس لیکر دو ڈیمز بنانیکا حکم دیا ہے تو ہر بڑی سیاسی جماعت نے ڈیموں کی تعمیر کو اپنے منشور میں شامل کر دیا ہے۔
آبی ماہرین کا کہنا ہے کہ دیامر بھاشا اور مہمند ڈیموں کیلئے سخت ترین مشکلات ہیں وہاں ٹربائن، مشینری اور دیگر لاجسٹکس پہنچانا بہت مشکل ہے، انفراسٹرکچر جس میں شاہراہ قراقرم کی موجودہ تبدیلی اورنئے پلوں کی تعمیر کی ضرورت ہے ۔ بھاشاڈیم کیلئے 950کلو میٹر دیوار تعمیر کرنا ہوگی ۔ گو ورلڈ بینک اور ایشیائی بینک کی طرف سے اس کیلئے سرمایہ کاری سے انکار کے بعد چین نے پاکستان کو یہ ڈیم بنانے کی پیشکش کی تھی ۔ صرف ڈیم کی لاگت کا اندازہ 14ارب ڈالر بتایا گیا تھا مگر چینی پیشکش میں بعض تحفظات کیوجہ سے اسکا فیصلہ نہ ہوسکا۔2006ء میںجنرل مشرف نے دس سال میں اسے تعمیر کرنے کا اعلان کیا ، 2011ء میں اُسوقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھاشا کا سنگ بنیاد رکھا ۔ اس کیلئے 85فیصد زمین بھی خرید لی گئی۔ ماہرین کے مطابق بھاشا اور مہمند ڈیم پر اسوقت 17ارب ڈالر کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ بھاشا ڈیم دس سال میں جبکہ مہمند چھ سال میں مکمل ہوگا ۔ بھاشا سے 45سو اور مہمند سے 8سو میگا واٹ بجلی حاصل ہوگی۔ بھاشا میں 81لاکھ ایکٹر فٹ اور مہمند میں 12لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنیکی صلاحت ہوگی ۔ بھاشا سے سالانہ 200ارب جبکہ مہمند سے سالانہ 35ارب روپے کا منافع ہوگا۔ یہ دونوں ڈیم صرف آٹھ برس میں نہ صرف اپنی لاگت پوری کر لیں گے بلکہ یہ واحد منصوبہ ہے جس سے پشاور، نوشہرہ اور چارسدہ تباہ کن سیلاب سے بچ سکتے ہیں۔ اسلئے قوم کو اب سیاستدانوں کی طرف دیکھنے کی بجائے سپریم کورٹ کے فیصلے کو عملی صورت دینے کیلئے اپنی اپنی استطاعت سے بھی بڑھ کر حصہ ڈالنا چاہئے۔ چونکہ پاکستان میں اصل مسئلہ کرپشن اور کریڈ بیلٹی کا ہے ۔جس کی سپریم کورٹ نے ضمانت دی ہے۔بلکہ اس ضمن میں فراڈ کے خدشات کو دُور کرنیکی ہدایت بھی کی ہے۔
پاک فوج اور امن وامان :پاکستان میں جب بھی عام انتخابات ہوتے ہیں، اُس موقع پر دھاندلی جیسے الزامات اور نادیدہ قوتوں کی مداخلت اور کردار کے حوالے سے اپنی اپنی پسند ناپسند کے تبصرے اور زبان استعمال کی جاتی ہے۔ اس مرتبہ جبکہ الیکشن کمیشن زیادہ خود مختاراور آزاد ہے ، پاک فوج کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک منفی مہم بھی چلائی جارہی ہے ۔ شاید اس ہی وجہ سے پاک فوج کے ترجمان اور آئی ایس پی آر کے سربراہ میجرجنرل آصف غفور کو گزشتہ منگل پریس کانفرنس کرنا پڑی انہوں نے واضح طور پر کہا کہ پاک فوج بالکل غیر جانبدار ہے ، ہر ووٹر کو حق حاصل ہے کہ وہ جس امیدوار یا سیاسی جماعت کو چاہے ووٹ دے، انہوں نے بتایا کہ انتخابات کے منصفانہ ، شفاف انعقاداور امن کے حوالے سے ہمیشہ اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اس مرتبہ بھی الیکشن کمیشن نے فوج کے ذمہ چھ کام لگائے ہیں، جسمیں امن وامان کو برقرار رکھنا بھی شامل ہے جبکہ الیکشن کمیشن نے اس مرتبہ فوج کو ایک ضابطہ اخلاق بھی دیا ہے ، پاک فوج اسکے مطابق اپنے فرائض سرانجام دیگی،نادیدہ اور بیرون ملک قوتوں کے پاکستان میں آلہ کاروں نے جب یہ محسوس کیا کہ فوج نے تو بہت کلیئر انداز میں انتخابات میں اپنے رول کی وضاحت کر دی تو وہ پھر دہشتگردی کی طرف چل دیئے ہیں۔ اُسی رات پشاور میں اے این پی کے جلسہ میں خود کش دھماکہ کر دیا گیا ، جسمیں ہارون بلور سمیت 23افراد جاں بحق اور70سے زائد زخمی ہوگئے۔13جولائی کی صبح ایم ایم اے کے امیدوار اکرم درانی کے قافلے کو بنوں میں نشانہ بنایا گیا جسمیں 5افراد جابحق اور متعدد زخمی ہوگئے جبکہ اُسی شام مستونگ میں بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما سراج ریئسائی کے جلسے میں خودکش دھماکے کے نتیجے میں 130سےزائد افراد لقمہ اجل بن گئے ۔ الیکشن مہم کے دوران دہشتگردی دراصل عام انتخابات کو سبوتاژ کرنے کیلئے ہے ۔ اسلئے اب امن وامان کو قائم رکھنے کی ذمہ داری صرف فوج کی ہی نہیں بلکہ ہر امیدوار ، سیاسی جماعتوں اور ووٹرز کی بھی ہے کہ وہ ا پنے اردگرد کے حالات اور شرپسندوں پہ نظر رکھیں اور ملک کے اندر جمہوری تسلسل کیلئے الیکشن کمیشن سے تعاون کریں ۔چونکہ ملک ہوگا تو ہم سب ہونگے اور ملک کے آگے ہم سب کی کوئی حیثیت نہیں !
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین