• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی جماعتیں الیکشن کےقریب آتے ہی اپنا اپنا سیاسی راگ الاپنا شروع کردیتی ہیں، سرائیکی وسیب کے لوگوں کو علیحدہ صوبہ کا خواب دکھایا جاتا ہےلیکن جیسے ہی یہ اقتدار میں آتے ہیں تو پھرتو کون اور میں کون کا وطیرہ اپنالیتے ہیں،سرائیکی صوبہ لسانی مسئلہ ہے نہ کسی تعصب کی بنیاد پر یہ مطالبہ کیا جارہا ہےبلکہ یہ خالصتاً انسانی مسئلہ ہے اور یہ نعرہ محض مسائل کے حل کے لئے ہی لگایا جارہا ہے

سرائیکی صوبہ…انتخابی نعرے سے آگے کیا؟

سرائیکی صوبہ کے حوالہ سے اٹھنے والی نحیف آوازیں جوں جوں توانائی پکڑتی جارہی ہیں ویسے ویسے صوبہ کے حوالہ سے مختلف آراء بھی سامنے آرہی ہیں۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سرائیکی صوبہ کا نام بدل دینا چاہیے کیونکہ اس سے لسانیت کو ہوا ملتی ہے کچھ اس کا نام صوبہ ملتان رکھنا چاہتے ہیں جبکہ کچھ کا خیال یہ ہے کہ اس کی تقسیم خالص انتظامی بنیادوں پر کر کے اس کا نام جنوبی پنجاب ہی رہنے دیا جائے۔بعض حلقوں کی خواہش ہے کہ نئے صوبہ کا نام بہاولپورہونا چاہیے اوراسے ریاست بہاولپور کی حیثیت سے سابقہ حالت میں بحال کیا جائے۔یعنی یہ بات طے ہے کہ نئے صوبہ کا نام کوئی بھی ہو صوبہ کے قیام کے حوالہ سے دوسری کوئی رائے نہیں‘یہاں کے لوگوں کی متفقہ سوچ ہے کہ ہمارے مسائل کا حل علیحدہ صوبہ ہی ہے۔اس سے پہلے کہ ہم صوبہ کے قیام کے حوالہ سے اٹھنے والی آوازوں‘جھوٹے خواب دکھانے والے سیاستدانوں یا پھر سرائیکی وسیب کے لوگوں کا سودا کرکے اپنی تجوریاں بھرنے والو ںکا ذکر کریںتھوڑا سا سرائیکی وسیب کی تاریخ‘پس منظر اور ثقافت کا جائزہ لیتے ہیں۔قیس مسیح دیروی اپنی کتاب’’سرائیکی تاریخ،تہذیب،ثقافت وجغرافیہ‘‘ میں لکھتے ہیں’’قدیم زمانے سے پاکستان کا درمیانی علاقہ موجود ہے جس میں سرائیکی بولنے والے7کروڑ لوگ بسیرا کئے ہوئے ہیں۔ اس علاقے کی ایک سرحد پر سندھی بولنے والے لوگ آباد ہیں تو دوسری سرحد پر پنجابی بولنے والے ، ایک طرف بلوچی بولنے والے رہتے ہیں تو دوسری طرف پشتو بولنے والے آباد ہیں‘گویا یہ درمیانی علاقہ ہے جس سے تمام قومیں متاثر اور فیض یاب ہو رہی ہیں۔ابتدائی زمانہ سے ہی اس علاقے کے لوگ ایک جانی پہچانی اور شان والی زبان اور اپنی ایک نئی ثقافت کے مالک ہیں۔صوبہ پنجاب کے ملتان‘بہاولپور‘ساہیوال‘ڈیرہ غازی خان‘ سرگودھا ڈویژن،فیصل آباد ڈویژن میں ٹوبہ ٹیک سنگھ‘جھنگ اسی طرح صوبہ سرحد کے ڈیرہ اسماعیل خان‘بنوں اور ٹانک،صوبہ بلوچستان کے مشرقی علاقے اور سندھ سے سکھر‘خیر پور‘جیکب آباد کے اضلاع ایسے علاقےہیں جہاں سرائیکی زبان بکثرت بولی جاتی ہے ۔اکثر سندھی قبائلیوںکی بھی یہ مادری زبان ہے ۔اس لحاظ سے سرائیکی بولنے والوں کے یہ تمام علاقے پاکستان کا دل شمار کئے جاتےہیں۔سرائیکی سرزمین وسطی پاکستان کے طویل و عریض علاقے پر پھیلی ہے اس علاقے کی وسیع سرزمین میں تقریباً ہر دور کے آثار پائے جاتے ہیں ۔موہن جودڑو کے معاصر شہر تو کیا یہاں تو پتھر کے قدیم دور کے آثار بھی موجود ہیں۔سرائیکی سرزمین کے علاقوں میں مختلف جگہوں پر ایسی قدیم آبادیوں اورتعمیرات کے نشانات ملے ہیں جن سے تاریخ کے تسلسل اور اس بات کاا ندازہ ہوتا ہے کہ اس سر زمین پر دوسری جگہوں کی مناسبت سے زیادہ مہذب لوگ آباد تھے۔سرائیکی زبان بولنے والے لوگوں کی تعداد پاکستان کے چاروں صوبوں میں تقریباً 7کروڑ سے زائدنفوس پر مشتمل ہے۔ جو اس زبان کو مادری زبان کی حیثیت سے استعمال کرتے ہیں۔ان کے علاوہ ہندوستان میں تقریباً3کروڑ افراد سرائیکی بولتے ہیں۔

سرائیکی لوگ معاشی لحاظ سے شہرو ں میں کم اور گائوں میں زیادہ رہتے ہیں۔یہ قوم جتنی قدیم ہے اس لحاظ سےاس پر تحقیقی کام بہت کم ہوا ہے‘شاید زیادہ مواد اس لئے میسر نہیں کہ یہ علاقہ زیادہ تر حملہ آوروں کی زد میں رہا۔‘‘

سرائیکی صوبہ تحریک سے پہلے یہ آواز بہاولپور صوبہ محاذ کے نام سے70/1969میں شروع ہوئی،اس کی بنیاد ریاض ہاشمی اور سیٹھ عبدالرحمٰن نے رکھی ‘جب اس کےلئے باقاعدہ تحریک شروع ہوئی تو اس تحریک کو سخت حکومتی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، تین افراد لقمہ اجل بنے تو بہت ساروں کو اسیر کرلیا گیا اور پھر بلوچستان کی بدنام زمانہ مچھ جیل اور میانوالی کی جیل میں ڈال دیا گیاجس کےبعد1972میں ریاض ہاشمی کی کتابBrief of Bahawalpur Province منظرعام پر آئی جس میں انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالبہ تسلیم کرنے کے بجائے ہم پر ریاستی تشدد کیا گیا اور اب ہم صرف صوبہ بہاولپور نہیں بلکہ تاریخی‘سیاسی‘ثقافتی اورجغرافیائی بنیاد پر صوبہ کا مطالبہ کرتے ہیں اور انہوں نے اپنی کتاب کے آخری صفحہ پر سرائیکی صوبہ کا مجوزہ نقشہ بھی دیا جس میں صوبہ کی حدود کو ڈیرہ اسماعیل خان تک پھیلا دکھا یا گیا اور انہوں نے بہاولپور صوبہ محاذ کو سرائیکی صوبہ محاذ میں تبدیل کردیا جس کے پہلے صدر سیٹھ عبد الرحمٰن اور جنرل سیکرٹری ریاض ہاشمی بنے‘سیٹھ عبدالرحمٰن اسی کی دہائی میں وفات پاگئے تو سرائیکی صوبہ محاذ کی قیادت ملتان کےقاری نورا لحق قریشی ایڈووکیٹ کے پاس آگئی اور پھر تحریک کے لئے تاج لنگاہ مرحوم سمیت بہت سے لوگوں نے کام کیا اور یوں اب دو درجن سے زائد تنظیمیں مختلف ناموں سے سرائیکی صوبہ کے قیام کے لئے کام کررہی ہیں۔

ہزاروں سال پرانی سرائیکی تہذیب‘جس کے بارے میں لکھتے ہوئے محقق کہیںنہ کہیں اختلاف کرتے ضرورنظر آتے ہیں لیکن ایک نقطہ جس پر سب متفق ہیں‘وہ ہے اس وسیب کے لوگوں کے رویوںکیمٹھاس،یہاںکے ماحول کی چاشنی،محبت،مہمان نوازی ،میٹھے آموں،لذیذ کھجوروں اور سوہن حلوہ کی شیرینی‘جہاں لوگ سرائیکی وسیب کی پسماندگی اور سماجی زبوں حالی پر کُڑھتے ہیں‘وہیں سرائیکی وسیب کی انسان دوستی‘علم پروری اور صوفیانہ ذوق پربھی رشک کیا جاتا ہے۔ سرائیکی وسیب نے تاریخی جبر کے تحت ہونےوالی تبدیلیوں کا ساتھ نہیںدیا‘لوگ بدستور اپنی روایت سے جڑے ہوئے ہیں اور لہجوں کی مٹھاس جوں کی توں ہے۔اگرچہ فی زمانہ ترقی کے مدارج طے کرنے میں پیچھے رہ گئے لیکن محبت بانٹنے کے عمل میں آج بھی آگے ہیں۔سرائیکی زبان میں قدرتی طور پر ایک خوبصورت اور من ٹھارلہجہ اور آہنگ ہے ۔یہی وجہ ہے‘جو لوگ باہر سے آکر اس وسیب میں آن بسے وہ اس کا حصہ بن گئے۔ زبان زد عام ہے‘لوگ پہلی باریہاں آتے ہوئے جھجکےضرور ہیں لیکن ایک بار بس جانے کے بعدہمیشہ کیلئےیہی کے ہوکر رہ جاتے ہیں۔بہت دور نہیں جاتے قیام پاکستان سے اب تک کا سفر دیکھ لیتے ہیں۔ انگریزی کے تسلط سے آزادی حاصل ہونے کے بعد جو مہاجرین اس وسیب میں آکر آباد ہوئے وہ سرائیکی رنگ میں رچ بس گئے‘ آنے والوں اور یہاں کے رہنے والوں کے مابین ایسیمحبت ہوئی کہ ایک دوسرے کا مرن جیون‘خوشی غمی سب ساجھے ہوگئے۔یہاں پر آکر رہنے والے پنجابی‘روہتکی‘اردو اور دوسری زبانیںبولنے والے جب سرائیکی بولتے ہیں تو بالکل محسوس ہی نہیں ہوتا کہ سرائیکی ان کی ماں بولی نہیں‘باہمی احترام اور محبت کا یہ عالم کہ اگر ایک آدمی اردو یا پنجابی بول رہا ہو تو اُس کے ساتھ بیٹھے ہوئے سرائیکی بولنے والے چاہے وہ کثیر تعداد میں ہی کیوں نہ ہوںکی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اُسی زبان میں بات کریں جو زبان دوسرا ساتھی بول رہا ہے۔سرائیکی کڑی پکوڑہ اور اسی طرح کی دوسری ڈشز اُسی رغبت سے کھاتے ہیں جیسے وہ دال مونگ اور ڈولی روٹی کھاتے ہیں۔ یہی حال اس خطے میں آکر بس جانے والوں کا بھی ہے۔

اگر ہم سیاسی طور پر بھی جائزہ لیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ سرائیکی وسیب سے بہت سے ایسے لوگ منتخب ہوکر اس خطہ کی نمائندگی کے لئے اسمبلیوں اور حکومتی ایوانوں میں پہنچے جو سرائیکی بولنے والے نہیں او رنہ ہی اُن کے آبائواجداد کا تعلق کبھی اس وسیب سے رہا‘لیکن انہوں نے صرف عوام دوستی اور جذبہ خدمت کے تحت لوگوں کے دل جیتے‘یہاں تک ہوا کہ بہاولپور سےنواب صلاح الدین عباسی جو نواب آف بہاولپورنواب صادق عباسی کے بیٹے ہیں‘ضلعی نظامت کا الیکشن ہارگئے اور آباد کار طارق بشیر چیمہ جیت گئے‘شاہ محمود قریشی سے ملک عبدالغفار ڈوگر جیت گئے‘اس طرح کی چھوٹی بڑی بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں، جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں کے لوگ بغیر کسی تعصب کے باہمی پیار محبت سے رہ رہے ہیں۔اس سے تھوڑا آگے بڑھتے ہیں

اگر ہم پاکستان میں ہونے والے تمام قومی‘صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ بھی نظر آئے گا کہ یہاں سے ہمیشہ وہی لوگ کامیاب ہوتے نظر آئے ہیں جن کا تعلق قومی سیاسی جماعتوں سے تھا۔یاپھر کچھ ایسے لوگ آزاد حیثیت میں منتخب ہوئے‘جنہوں نے جاگیرداروں کو للکارا اور عوامی خدمت کی سیاست کی۔جن لوگوں نے چاہے اُن میں تاج لنگاہ جیسے بڑے نام بھی تھےنےجب لسانیت کی بنیاد پرالیکشن میں حصہ لیا تو اُنہیں سوائے چند سو ووٹوں کے کچھ نہ ملا۔کئی ایک کی تو ضمانتیں بھی ضبط ہوگئیں۔پچھلی دہائی میں ایک اور لسانی سیاسی جماعت نے باہر کے لوگوں کی مدد سے یہاں آکر بڑے بڑے جلسے کئے اور زبان کی بنیاد پراردو بولنے والوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی تو اُن کے ہاتھ بھی کچھ نہ آیا‘باہر سے آکرآباد ہونے والوں نےتب بھی یہی پیغام دیا کہ وہ اس وسیب کے بیٹے بیٹیاںہیں اوریہاںپر بغیر کسی تعصب کے رہنا چاہتے ہیں۔

ان سب گزارشات کا مقصدیہ ہےکہ اس وسیب میں رہنے والے تمام لوگ نہ صرف محب وطن ہیں بلکہ ایک دوسرے سے مکمل طور پر جُڑے ہوئے ہیںاور ایک اٹوٹ انگ کی طرح ہیں،یہاں کے لوگ اس بات پر بھی بلاتفریق مکمل طور پر متفق اور متحد ہیں کہ اس خطہ کی پسماندگی اور زبوں حالی کو دو ر کرنے کیلئے ایک الگ صوبہ ضروری ہےاور اس پر وہ کوئی دوسری رائے نہیں رکھتے۔وسیب کے لوگ ایک طویل عرصہ سے اس مطالبہ پراسلئے قائم ہیں تاکہ لوگوں کے مسائل کا فوری اور دیرپاحل نکل سکے، کیونکہ پنجاب کی آخری تحصیل صادق آباد اور روجھان لاہور سے دو دن کی مسافت پر ہیں۔رحیم یار خان‘راجن پور‘بہاولپور‘ لیہ‘ڈیرہ غازی خان کے علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو لاہور جانے کیلئےپورا دن سفر کرنا پڑتا ہے۔ایک سیکشن آفیسر لیول کے افسر کے پاس جا کر اپنا مسئلہ حل کروانے کیلئے انہیں تین سے چار دن درکا ر ہوتےہیں ۔ سفر‘ طعام ‘قیام کی صعوبتیں اپنی جگہ یہ توایک چھوٹی سی مثال ہے صوبہ نہ ہونے کی وجہ سے جودیگر مسائل درپیش ہیں اُن پر تو الگ سےایک کتاب لکھی جاسکتی ہے۔

صوبہ کے قیام کے خلاف کام کرنے والی بہت سی طاقتیںایک عرصہ سےیہ ثابت کر نے کی کوشش میںہیںکہ صوبہ کے معاملہ پر سرائیکی وسیب کے لوگوں میں شدید اختلافات پائے جاتےہیں۔ اور یہ ایک لسانی مسئلہ ہے‘اسی لئےوہ ایسا کوئی موقع ہاتھ سےنہیں جاتے دیتے کہ جس سے وہ یہاں کے لوگوں میں باہمی انتشار کا تاثرنہ ابھار سکیں۔پیپلزپارٹی کے دور میں جب صوبہ کی بات ہوئی تو صوبہ بہاولپور کا شوشہ کھڑا کردیاگیا‘بڑے بڑے جلسے ہوئے اوریوںلگتا تھاکہ لاکھوں لوگ اس مسئلہ پر لڑ مر جائیں گے‘جیسے ہی پی پی کی حکومت ختم ہوئی نہ جلسے رہے اور نہ جلسے کروانے والے۔اس کے علاوہ بھی یہاں کےلوگوں کے بھولپن اور سادگی سے فائدہ اٹھا کر سرائیکی صوبہ کیلئے کام کرنے والوں میں پھوٹ ڈلوا کر دو درجن کے لگ بھگ جماعتیں بنوا دی گئی ہیں جو ایک دوسرے سے دست وگریباں نظر آتی ہیں۔اور اب جبکہ2018 کے انتخاب قریب آنے والے ہیںاورسرائیکی صوبہ مخالف طاقتوں کو معلوم ہے یہاں کے لوگوں نےتو علیحدہ صوبہ کا مطالبہ اُٹھانا ہےتو ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت یہ تاثر پیدا کیا جارہا ہے کہ جیسے یہاں کے لوگوں میں اس مسئلہ پر شدید اختلافات ہیں۔ سیاسی جماعتیں بھی الیکشن کےقریب آتے ہی اپنی اپنی ڈگڈگی بجانا شروع کردیتی ہیںاور سرائیکی وسیب کے لوگوں کو علیحدہ صوبہ کا خواب دکھایا جاتا ہے اورپھر جیسے ہی جماعتیںاقتدار میں آتی ہیں تو پھرتو کون اور میں کون والا وطیرہ بنا لیتی ہیں۔

پیپلز پارٹی بھی سرائیکی صوبےکے ضمن میں بات کرتی چلی آرہی ہے اور جب یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے تو انہوں نے ایک بار ملتان سے شائع ہونے والے اخبارات و جرائد کےمدیران کو اپنے دولت خانہ پر’ناشتہ‘ کا اعزاز بخشا،اس دوران سوال وجواب کی آف اور آن دی ریکارڈ نشست بھی ہوئی جب راقم نے ان سے سوال کیا کہ اب توپیپلزپارٹی کی حکومت بن چکی ہے‘ جناب خیر سے وزیراعظم بھی ہیں اور آپ نےاپنی الیکشن مہم کےدوران سرائیکی صوبہ کے قیام کے وعدے بھی کیے تھےتو پھر کب صوبہ کا اعلان کررہے ہیں تو اس پر انہوں نے اپنے کندھوںکی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ’’کچھ طاقتور لوگ صوبہ کے حق میں نہیں ہیں اس لئے یہ معاملہ فی الحال حل ہوتا نظر نہیں آرہا‘‘۔اب جبکہ قومی انتخابات سر پر آگئے ہیں تو یہ پرانے شکاری پرانا جال’’مرمت‘‘کرواکر پھر سے میدان میں آگئے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جو کبھی ضیاء لیگ کا حصہ تھے پھر مشرف کی ق لیگ کا حصہ بنے اور وہاں سےہوتے ہوئے(ن)لیگ میں آگئے۔علیحدہ صوبہ اگرچہ یہاں کے عوام کی ضرورت ہے لیکن اس صوبہ کے قیام کے نعرہ کی آڑ میں یہ چالاک سیاستدان اپنی کوتاہیوں پرپردے ڈالتے ہیں۔سرائیکی صوبہ نہ تو لسانی مسئلہ ہے اور نہ ہی کسی تعصب کی بنیاد پر یہ مطالبہ کیا جارہا ہےبلکہ سرائیکی صوبہ خالصتاً انسانی مسئلہ ہے اور یہ نعرہ محض مسائل کے حل کے لئے ہی لگایا جارہا ہے کیونکہ پچھلی سات دہائیوں کے تجربات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ یہاں کے مسائل کا واحد حل الگ صوبہ ہی ہے۔حالیہ انتخابات میں بھی سرائیکی صوبہ کا نعرہ’’ٹاک آف دی ٹائون ہے‘‘لیکن اس بار لگتا ہے کہ عوام ان روایتی سیاستدانوں کے جھانسے میں نہیں آئیں گے۔پرنٹ‘الیکٹرانک وسوشل میڈیا نےاذہان میں شعور کی نئی شمعیں روشن کی ہیں۔قوی امید ہے کہ وہ اس بار ایسےحقیقی نمائندوں کوسامنے لائیں گے جن کا منشور محض انتخابی نہ ہو بلکہ وہ ان کے دیرینہ مسائل کو حل بھی کرسکیں۔

تازہ ترین