• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت میں گوگل کاسوفٹ ویئر انجینئر بے دردی سے قتل


بھارت میں انتہا پسندی تھمنے کا نام نہیں لے رہی حیدر آباد دکن کے مسلمان سوفٹ ویئرانجینئر کوہجوم نے ڈنڈے مار مار کر قتل کر دیا، 32سالہ محمد اعظم معروف امریکی کمپنی گوگل میں بحیثیت سوفٹ انجینئر خدمات سر انجام دے رہا تھا،مقتول شادی شدہ اور 2 سالہ بیٹے کا باپ تھا۔

بھارتی ٹی وی کے مطابق محمد اعظم کو بچانے کی کوشش میں اس کے تین کزن بھی شدید زخمی حالت میں اسپتال میں زیر علاج ہیں۔

محمد اعظم اپنے 3 دوستوں کے ساتھ جن میں قطر ی شہری سلام عید الکبیسی ، نور محمد اور سلمان بیدر کے مرکی گاؤں میں ایک دوست کے گھر تقریب میں شرکت کیلئے پہنچے ،محمد اعظم کے بھائی کا کہنا ہےکہ قطری باشندہ سلام قطر سے چاکلیٹ لایا تھا اس نے خواہش کا اظہار کیا کہ گاؤں کے اسکول میں آنیوالےبچوں کو وہ یہ چاکلیٹ دینا چاہتا ہے۔

بھارت میں گوگل کاسوفٹ ویئر انجینئر بے دردی سے قتل

محمد اعظم اور اس کے دوست قریب واقع گائوں کے اسکول پہنچے اور بچوں میں چاکلیٹ تقسیم کر دی لیکن کسی جنونی نے چاکلیٹ کی تقسیم کی وڈیو واٹس ایپ پر شیئر کرادی بلکہ اسے غلط رنگ دے کر یہ تاثر قائم کیا کہ چاکلیٹ کی تقسیم در اصل بچوں کے اغواء کی کوشش ہے۔

واٹس ایپ پر وڈیوڈالتے ہی وہاں اشتعال پھیل گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے دو ہزار سے زائد افراد وہاں پہنچ گئے اور محمد اعظم پر تشدد شروع کر دیا اور صورت حال سنگین تر ہوتی چلی گئی جس نے بھی یہ وڈیو دیکھی اس نے محمد اعظم کو اغواء کار سمجھ کر لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے مارنا شروع کر دیا ،اس دوران محمد اعظم کے دوست اور کزن اس کو بچانے کیلئے آگے بڑھے تو ہجوم نے انہیں بھی بے دردی سے مارنا اور پیٹنا شروع کر دیا۔

لاٹھیوں اور ڈنڈوں کی ضرب سے محمد اعظم موقع پر ہی دم توڑ گیا جبکہ اس کے دوست اور کزن شدید زخمی حالت میں اسپتال میں زیر علاج ہیں۔

مقامی پولیس افسر دیوراجونے صحافیوں کے سوال پر بتایا کہ پولیس اہلکاروں نے ہجوم کو روکنے کی بہت کوشش کی لیکن گاؤں والے نہیں مانے اور محمد اعظم پر ڈنڈے اور لاٹھیاں بر ساتے رہے،ایس پی دیوراجو کے مطابق نوجوانوں کو بچانے کی کوشش میں ایک انسپکٹر اور ایک کانسٹیبل بھی زخمی ہوئے۔

پولیس ایس پی دیو راجو کا کہنا ہے کہ تشدد کے الزام میں32افراد کو گرفتار کیا گیا ہے،گرفتار ہونے والوں میں واٹس ایپ گروپ کا ایڈمن بھی شامل ہے جس نے اس افواہ کو پھیلایا۔

تازہ ترین