• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شیخ سعدی نے کہا تھا ”میں خدا سے ڈرتا ہوں اور خدا کے بعد اس شخص سے ڈرتا ہوں جو خدا سے نہیں ڈرتا“ اسی بات کو شیکسپیئر نے اپنے انداز میں اس طرح کہا ہے انسان ہی ایک ایسا جانور ہے جس سے میں بزدل کی طرح ڈرتا ہوں۔ اس دنیا میں ہر چیز، ہر شے قابل پیش گوئی کردار رکھتی ہے۔ آگ کے بارے میں آپ پیشگی طور پر یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ا گر آپ نے اس کے اندر ہاتھ ڈالا تو وہ آپ کے ہاتھ کو جلا ڈالے گی اگر آپ اپنے ہاتھ کو اس سے دور رکھیں تو وہ ایسا نہیں کرے گی کہ وہ کود کر آپ کے ہاتھ پر آ گرے۔ یہی معاملہ تمام چیزوں کا ہے حتیٰ کہ خونخوار اور موذی جانوروں کے بارے میں بھی ہم کو پیشگی طور پر معلوم ہے کہ وہ یک طرفہ طور پر کسی کے اوپر حملہ نہیں کرتے۔ ان کا حملہ ہمیشہ دفاعی ہوتا ہے نہ کہ جارحانہ، اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی ہر چیز ایک لگے بندھے قاعدہ کے تحت کام کر رہی ہے۔
اور اس قاعدہ کو دیکھتے ہوئے آپ اس کے نقصان سے بچ سکتے ہیں۔ مگر انسان ہی ایک ایسی مخلوق ہے جس کے عمل کا کوئی اصول، کوئی قاعدہ، کوئی روش اور کوئی طریق لازمی نہیں، وہ مکمل طور پر آزاد ہے اور جس وقت جو چاہے کر سکتا ہے کہ اس نے خود پر کوئی روک ٹوک نہیں کی۔ اس دنیا میں انسان ہی ایک ایسا وجود ہے جو یک طرفہ طور پر دوسرے کے خلاف کارروائی کرتا ہے جو کسی حقیقی سبب کے بغیر دوسرے کے اوپر حملہ کرتا ہے انسان کے حرص اور انتقام کی کوئی حد نہیں۔ آپ خاموشی کے ساتھ اپنے کام میں مصروف ہوں اور محض ذاتی قابلیت اور محنت کی بنیاد پر ترقی کی منزلیں طے کر رہے ہوں تب بھی آپ محفوظ نہیں کہ دوسروں کے اندر حسد کا جذبہ پیدا ہونا ناگزیر ہے اور حسد کے جذبے نے زرا سا بھی سر اٹھایا تو یہ آپ کو گرانے کے لئے اٹھ کھڑے ہونگے۔ انسان لامحدود طور پر اپنی خواہشیں پوری کرنا چاہتا ہے اور بے حساب حد تک دوسروں کو تباہ و برباد کرکے اس کی بربادی کا تماشا دیکھنا چاہتا ہے۔ چاہے دوسروں کی بربادی میں اس کو رتی بھر فائدہ حاصل نہ ہو۔ یہ سب کچھ کبھی حسد کے نام پر کبھی انا کی تسکین کے حوالے سے اور کبھی دوسروں کو گرانے میں محض لطف اٹھانے کیلئے کہا جاتا ہے۔ کوئی بدترین موذی جانور بھی اس کو نہیں جانتا کہ وہ کسی کو ذلیل و خوار کرنے کا منصوبہ بنائے۔ وہ کسی کو نیچا دکھا کر اپنے غرور کیلئے تسکین کا سامان فراہم کرے۔ کسی کو خواہ مخواہ مصیبتوں کے جال میں پھنسا کر اس کی پریشانی کا تماشا دیکھے۔ صرف حضرت انسان ہے جو ایسا کرتا ہے۔ انسان زمین کے اوپر ایک تضاد ہے وہ حقیقتوں کی دنیا میں حقیقتوں کو نظر انداز کرکے رہتا ہے جیسے وہ اپنی دنیا کی تردید کر رہا ہو۔ انسان کھلے ہوئے آسمان کے نیچے بند زمین کے ساتھ جینا چاہتا ہے۔ لطیف ہواؤں کے درمیان اس کو صرف کثیف اخلاق کے ساتھ رہنا پسند ہے۔ اونچے پہاڑوں کی آغوش اور پڑوس میں وہ چھوٹے چھوٹے مسائل میں الجھا ہوا ہے۔ سرسبز و شاداب درختوں اور پیڑوں کے ماحول میں وہ سرکنڈا بنا ہوا نظر آتا ہے۔ دریاؤں، ندی، نہروں اور چشموں کی روانی کے درمیان وہ جمود و تعطل کی تصویر بنا ہوا ہے۔ اس صورت حال کی سب سے عبرت ناک مثال ہم لوگ ہیں جن کو پاکستانی اور مسلمان کہا جاتا ہے یہاں میں جو واقعہ سنانے چلا ہوں یہ حال ہی میں پیش آیا ہے۔ اکتوبر کے آخری ہفتے میں ہالینڈ کے وزیراعظم مارک لوتے کے ساتھ ہم صحافیوں کا ورکنگ لنچ تھا۔ یہ لنچ روایتی طور پر ہر برس صحافیوں کی ایک ٹیم کو دیا جاتا ہے۔ حسب سابق اس سال بھی اکتوبر مں لنچ کیلئے مجھے دی ہیگ جانا پڑا۔ لنچ کے بعد چند پاکستانی روشن خیال دوستوں کے ساتھ ملاقات پہلے سے طے تھی۔ سو ٹھیک 2 بجے وہ دوست مجھے اپنے ہاں لے گئے وہیں میرے ایک اور دوست جو پاکستان سے آئے تھے بھی موجود تھے۔ گفتگو رات تک چلتی رہی۔ واپس ایمسٹرڈیم آنے کیلئے جب میں ہیگ کے ریلوے سٹیشن پر پہنچا اور ٹرین کی روانگی کے انتظار میں ایک بنچ پر بیٹھا تھا دو پاکستانی نوجوان میرے پاس آئے چونکہ اخبار میں چھپنے والی تصویر سے انہوں نے مجھے پہچان لیا تھا اس لئے تعارف کی کوئی ضرورت پیش نہ آئی۔ ایک نے کہا مجھے ایک مسئلہ بتائیے ”افغانستان میں مسلمان بھائیوں کا خون ہورہا ہے میں چاہتا ہوں کہ ان کے خون سے صدقے کے طور پر ایک بکرا ذبح کروں“ دوسرے نے کہا میں مقبوضہ کشمیر جانا چاہتا ہوں مجھے بتائیے کہ کشمیر جانے کا طریقہ کیا ہے۔ دونوں مجھ سے مشورہ چاہتے تھے مگر میں ان کو کوئی مشورہ نہ دے سکا مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میرے دماغ میں الفاظ کا ذخیرہ ختم ہوگیا ہو اور اب میرے پاس ان سے کہنے کیلئے کچھ نہیں ہے۔ موجودہ زمانے میں ہم پاکستانی مسلمانوں کی شاید سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ خیالی پرواز میں سب سے آگے ہیں اور حقیقی عمل میں سب سے پیچھے۔ ان کو سیاست میں صرف نعرہ بازی پسند ہے۔ ادب میں شاعری اور مذہب میں رومانیت، مسلمانوں نے نہ اپنی مقدس کتاب سے کچھ سیکھا ہے اور نہ دنیا کے تجربات سے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رہنماؤں اور اکابر کی افواج خوش فکری اور خوش فہمی کے خول میں بند ہے۔ اپنے فکری خول سے باہر کی حقیقتوں کی اسے خبر ہی نہیں۔ اپنی ہی دنیا میں مگن اور اپنے ہی تخیل کے کنویں میں اتری ہوئی ہے۔ آخر ایسے لوگوں کو کیا مشورہ دیا جائے جو افغانستان جیسے سنگین مسئلہ میں اپنا حصہ ادا کرنے کامطلب یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس کیلئے ایک بکرا ذبح کر دیں یا اپنی انتہائی بے خبری، بے علمی اور بے مائیگی کے باوجود یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ کسی طرح کشمیر پہنچ جائیں تو وہاں لڑ کر وہ اس کا سارا مسئلہ حل کردیں گے۔
تازہ ترین