• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج توجہ کی زد میں آنے والی بہت سی اہم باتیں جمع ہوگئی ہیں۔
وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے جہاں بلوچستان کے لوگوں سے بلوچستان کے بارے میں ماضی میں پیدا ہونے والی یا پیدا کی جانے والی بعض غلط فہمیوں پر معذرت طلب کرنے کا خوشگوار فریضہ ادا کیا ہے وہاں یہ بھی کہا ہے کہ ریاستی اداروں کے درمیان کوئی اختلاف، کشیدگی یا تناؤ نہیں ہے اور ساتھ ہی یہ پوچھا ہے کہ ریاستی اداروں کے درمیان تصادم سے کس کو فائدہ ہوگا۔ جس کو فائدہ پہنچ سکتا ہے کہیں وہ ہی تو اس تصادم کے پیچھے کار فرما نہیں ہے؟ لامحالہ وزیراعظم کا یہ اشارہ جمہوریت اور جمہور دشمنوں کی جانب انگلی اٹھاتا ہے مگر یہ عناصر بلاشبہ بلکہ لازمی طور پر مختلف لبادوں اور بہروپ میں ہوں گے اور کسی نے جمہوریت دشمنی کا پرچم نہیں اٹھا رکھا ہوگا کہ دور سے ہی پہچانا جائے۔
کہا جاتا ہے اور قرین قیاس بھی ہے کہ عام طور پر اسلام دشمنی اسلامی لباس میں ہوتی ہے۔ ملک دشمنی حب الوطنی کے بہروپ میں ہوتی ہے۔ آمریت پسندی جمہوریت پسندی کے ملبوس میں ہوتی ہے۔ مارشل لاء نافذ کرنے والے بھی جمہوریت کی بحالی کا مقصد ظاہر کرتے ہیں۔ غالباً بلکہ یقینا اسی لئے واصف علی واصف مرحوم نے یہ دعا مانگی تھی کہ ”اے خدا اسلام کو مسلمانوں سے محفوظ رکھ“ اور ساؤتھ ایشیا فری میڈیا ایسوسی ایشن کے تحت ملالہ یوسف زئی سے منسوب قومی سطح پر خواتین صحافیوں کے سب سے بڑے اجتماع ”یو این کانفرنس“ میں جہاں یہ کہا تھا کہ وہ تحریک پاکستان کے سرتوڑ دشمنوں کا قیام پاکستان کے بعد تخلیق کیا گیا ”نظریہ پاکستان“ تھا کہ جس کے ذریعے ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنے والوں نے مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کر دیا تھا اور اس اجتماع میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ پاکستان کو روس اور چین سے اٹھنے والی ”سرخ آندھی“ کے خطرات سے آگاہ کیا گیا تھا اور پھر یہود اور ہنود کی یلغار سے بھی پاکستان کو ڈرانے کی کوشش کی گئی تھی مگر اب پہلی بار پاکستان کو ”نظریہ پاکستان “ سے خطرات دکھائی دینے لگے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس اجتما ع میں یہ دعا بھی مانگی گئی تھی کہ ”اے خدا پاکستان کو نظریہ پاکستان سے محفوظ رکھ“۔ یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ ہر سال 9اکتوبر کو ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملے کی یاد میں زیر تعلیم لڑکیوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جائے گا جو ملالہ کی ہمت، جرات اور جدوجہد کو خراج تحسین کا دن بھی ہوگا۔ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف ریاستی اداروں کے تصادم کے پیچھے مصروف عناصر کی نشان دہی چاہتے ہیں مگر وطن عزیز میں ابھی تک یہ سوچا جا رہا ہے کہ ریاستی اداروں کے چیف صاحبان نے جو کچھ کہا ہے وہ کس کے حق میں اور کس کے خلاف ہے۔ ایک ہی روز کہی جانے والی باتیں ایک ہی روز اخبارات کے ٹائٹل صفحات پر ایک دوسری کے ساتھ اور سامنے شائع ہوئیں تو عام لوگوں میں یہ تاثر ابھرا کہ کوئی تقریری مقابلہ یا مناظرہ تھا۔ حکومت کے حامیوں نے خوش فہمی پا لی کہ آرمی چیف سپریم کورٹ کے خلاف باتیں کر رہے ہیں۔ اپوزیشن والوں کو غلط فہمی ہوئی کہ حکمرانوں کو لتاڑا جا رہا ہے اور عدلیہ کے وکیل بیرسٹر اعتزاز احسن کا بھی یہی خیال ہے مگر آمریت کے 34 براہ راست غلبے نے ہماری سوچوں کو ”ملک اور قوم کے بہترین مفاد میں“ اس قدر مسخ کر دیا ہے کہ
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتے ہیں مسلمان ہوں میں
ادارہ اقوام متحدہ کی طرف سے ملالہ یوسف زئی پر حملے کے ایک ماہ بعد عالمی سطح پر 10نومبر کو بطور ملالہ ڈے منائے جانے کے سلسلے میں صدر آصف علی زرداری نے وسیلہ تعلیم پروگرام کے تحت 30لاکھ غریب بچوں اور بچیوں کو وظائف دینے کے پروگرام کی افتتاحی تقریب میں کہا کہ عسکریت پسندی (دہشت گردی) کی سوچ کو ملک اور قوم کی سب سے بڑی دشمن قرار دیا اور بتایا کہ اگر ہم نے بچوں کی تعلیم کا فرض ادا نہ کیا تو تاریخ ہمیں بھی معاف نہیں کرے گی۔ اس تقریب کے مہمان خصوصی سابق وزیراعظم برطانیہ گارڈن براؤن نے کہا کہ بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں عالمی برادری پاکستان سے بھرپور انداز میں تعاون کرے گی۔ صدر مملکت نے فرمایا کہ غربت اور جہالت سے انتہا پسندی جنم لیتی ہے ہم ان کے خلاف (غربت اور جہالت کے خلاف)جنگ لڑتے رہیں گے۔یہی وہ باتیں تھیں جو ساؤتھ ایشیا فری میڈیا ایسوسی ایشن کے تحت خواتین صحافیوں کا قومی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع اسلام آباد کے ایوان صدر میں صدر مملکت سے کہنے اور سننے کے لئے گیا تھا مگر صدر مملکت کی تقریریں تیار کرنے والے عملے کے پیش نظر شاید کچھ اور مصلحتیں تھیں کہ جن کے تحت غربت اور جہالت کے خلاف جنگ کی راہ میں محض مجبوریاں اور مشکلات ہی گنوائی گئیں جس سے صحافت کے پرجوش عناصر کو بہت مایوسی ہوئی اور ان کے جہادی دشمنوں کو خوشی ہوئی ہوگی۔
تازہ ترین